بھوک کے بعد
ہم نے بھی بحیثیت قوم اور بحیثیت ملک بہت سے زمانے بیکار گزار لیے یہ ہماری مجبوری تھی، جغرافیائی حقیقت تھی۔
پھرغربت کی لکیروں سے اس دیس کے لاکھوں لوگ اور خاندان نیچے اترنے لگے ہیں۔ وہ لکیریں جو دہائیوں کے سفر سے کوئی چڑھ کر پار ہوا تھا، وہ اب کی دفعہ چند مہینوں میں ہی ریزہ ریزہ ہوتی اور بکھرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ آپ پر یا مجھ پر جو بیتی ہے وہ شایدایک چھوٹی سی بات ہے۔
یہی نہ کہ ڈالرمہنگا ہوگیا، جو کل میں دو لاکھ کماتا تھا آج ایک لاکھ کماتا ہو، کاروبار ٹھپ ہے۔ اس دفعہ بچوں کے ساتھ باہر گھومنا ترک کیا۔ پٹرول مہنگا ہوگیا، یہ ہوگیا اور وہ ہوگیا و غیرہ وغیرہ۔ مگر آپ کی اس بات سے وابستگی نہیں کہ نان دس سے پندرہ روپے ہوگیا۔ نان آپ بھی کھاتے ہوںگے مگر مزدور صرف نان ہی کھاتا ہے!
بچپن میں مجھے یاد ہے اماں ایک سال کی گندم منگوا کر ذخیرہ کرتی تھیں، پیاز، آلو تین تین مہینوں کے لیے رکھے جا تے تھے، چائے کی پتی ہو یا چینی، غرض کہ جس چیز کے خراب ہونے کے مواقع کم ہو تے تھے وہ ہمارے گھر کے اسٹور میں مہینوں کی کھپت کے برابر موجود ہوا کرتی تھی۔ اماں لسی میں سے مکھن خود نکالتی تھیں ۔ اڑوس پڑوس سے کئی لوگ لسی لینے آتے تھے۔ رات کو اپنی بھینسوں سے بہت سارا دودھ آجاتا تھا، زندگی سفل تھی۔
اماں کے ساتھ کراچی جب بھی آنا ہوا وہ ایک ہی چیز کو درجنوں کی تعدادمیں خریدا کرتی تھیں۔ مہینوں مہینوں پھر ہم شاپنگ کے لیے نہیں جاتے تھے، میں نے اماں سے پوچھا کہ۔۔۔۔''تم ایسے کیوں کرتی ہو'' کہنے لگیں''میں نے بچپن میں چیزوں کو اچانک بازار سے غائب ہوتے دیکھا ہے'' وہ آگے بولیں''یہ جو تمہارا ابا ہے ٹک کے وکالت نہیں کرتا، کبھی جیل یاترا ہے تو کبھی بنگال یاترا کے لیے چلا جاتا ہے، مجھے خوف سا رہتا ہے کہ کہیں قلت نہ ہوجائے''۔
قلت پر اماں نے مجھے ایک قصہ سنایا 1940ء کا قصہ، جب ابا خاکسار تحریک میں جنون کی حد تک مشغول تھے ۔ علامہ مشرقی کے حکم پر بنگال چلے گئے تھے۔ قحط میں پھنسے لوگوں کی مدد کے واسطے کلکتہ کے نواح میں کیمپ لگادیا۔ نہ مسلمان دیکھا نہ ہندو سب کی سیوا میں اپنے جتھے کے ساتھ لگ گئے ۔ لگ بھگ دو مہینے وہاں رہے اور یہاں ان کی وکالت چوپٹ ہوگئی۔ اور پھر یوں ہوا کے ایک دن بیس کے لگ بھگ چھوٹی و بڑی عمر کے بچے اپنے ساتھ لے کر گائوں آگئے ۔
اب کیا کریں!! کہنے لگے ان کو کچھ مہینے یہاں رہنا ہوگا، ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرو ۔ اماں کچھ نہ بولیں۔ کہنے لگیں، کہ اتنے مٹی سے لت پت تھے وہ بچے کہ نہلا نہلا کے تھک گئی، دنوں تک میل نہ جاتی تھی۔ اور پھر یوں بھی ہوا کے وہ ایک سال سے زیادہ ہمارے پاس ٹھہرے، ان میں سے سب واپس چلے گئے مگر دو لڑکیاں تھیں جن کے پاس اپنے گھر کا کچھ پتا نہیں تھا ۔ ابا اور اماں نے دونوں کو اپنی بیٹی بنا کے گھر میں رکھ لیا۔ ان کی شادیاں بھی ہوئیں اور آج بھی ان کے بچے ہیں جو وہیں رہتے ہیں ۔
بنگال میں قحط کیسے آیا تھا ۔ انگریز کی پالیسیوں کی وجہ سے، اسے دوسری جنگ میں گنا محاذ پر لڑنے والے ہندوستانی فوج کے سپاہیوں کو بھیجنا تھا ۔اچانک گنا غائب ہوگیا اور پلک جھپک میں قحط گھر کے آنگنوں میں ڈیرا کر کے بیٹھ گیا لاکھوں بنگالی بھوک سے مارے گئے۔
پچاس کی دہائی میں چین میں بھی قحط آیا تھا، آزاد میڈیا نہ تھی ریاست کی اپنی میڈیا تھی، وہ بین بجاتی رہی کہ سب ٹھیک ہے ۔ یوں کہیے حقیقت پر پردہ ڈالتی رہی اور پھر یوں ہوا کہ حالات بے قابو ہوگئے ۔ لگ بھگ پچاس لاکھ سے زا ئد افر اد غذائی قلت اور قحط کی وجہ سے مارے گئے۔
اب شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پاکستان میں food insecurity میں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ہم تو گندم اگانے میں خود کفیل ہیں ۔ یہ اچھا ہوا کہ حکومت نے گندم کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی ۔ مگر کیا معاملہ ہے کہ خود کفیل ہوتے ہوئے بھی یہاں لاکھوں لوگوں کو food insecurity لاحق ہے؟ یہ معمہ سمجھنے کا ہے۔ اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں امرتا سین جیسے معیشت داں کے پاس جانا ہوگا کہ کس طرح ملک کے حکمرانوں کی ناقص پالیسز کی وجہ سے قحط جیسے موذی مرض آپ کے آنگن میں ڈیرہ ڈالتے ہیں۔ دنیا کے تیرہ ملک اور ہیں جو آج کل food insecurity کے بھنور میں پھنسے لوگ ہیں ان کی دو تھائی اکثریت ان ملکوں میں ہے اور ان ملکوں میں پاکستان کا شمار بھی ہوتا ہے ۔
وہ بنگال یا ہندوستان جہاں غربت، بھوک و افلاس کو indigenous کہا جاتا تھا اور ہمیں خود کفیل ۔ کیا ہوا پھر آج! سائوتھ ایشیا میں سب سے زیادہ food insecurity پاکستان میں ہے۔ان میں پنجاب، سرحد، گلگت اور بلتستان قدرے بہتر ہیں ۔ سندھ اور بلوچستان کی حالات اس حوالے سے ابتر ہیں۔ وہ سندھ جوکہ سب سے زیادہ امیر صوبہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ یہاں بھوک و افلاس، کم غذائیت کا دور دورہ ہے، ذہنی معذور بچے جو کہ غذائی قلت کی ہی وجہ سے ہیں۔ HIV+ ہو، یرقان ہو، ہم نے اس زرداری صاحب کی جمہوری حکومت میں اتنی آزاد رپورٹنگ کے بعد پورے پاکستان کے بھی ریکارڈ بھی توڑ دیے ہیں ۔ کیا خیال ہے کہ یہاں خود امرتا سین کی قحط پر دی ہوئی تھیوری بھی چیلینج نہیں ہوجاتی!!
پاکستان کے سول و ملٹری تضادات کا شکار ہوگئے بیچارے یہ غریب عوام۔ سویلین کے لیے اقتدار ہے اور جو وہ لوٹ کھسوٹ میں ضایع کر دیتے ہیں ۔ ہاں مگر ارتقا ء کی منزلیں اسی طرح سے تو ہموار ہونگی اگرہم اپنا سفر جاری رکھ سکیں تو!
غالباً ڈیوڈ لپٹن ہے اس کا نام جو آئی ایم ایف کی ''اماں'' کرسٹینا لیگارڈ کے رخصت ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے سربراہ کا چارج رکھتا ہے ۔ انھوں نے اپنی ویب سائٹ پے یہ باور کروایا ہے کہ ہم پاکستان کے زد پذیر vulnurable طبقے کو محفوظ بنائیں گے ان پالیسیوں کے اثرات سے جو آئی ایم ایف کے کہنے پر شروع کی گئی ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختصص بجٹ کم نہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اس بجٹ میں جو غبن ہوتے ہیں جو بی آر ٹی جیسے پروجیکٹ بنتے ہیں اور شوکیس میں سجانے کے لیے نئی میٹرو بس اور میٹرو ٹرین سبسڈی پر چلائے جاتی ہیں۔ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص بجٹ کا اسی فیصد حصہ انسانی ترقی کے حوالے سے صرف ہوگا۔ اسپتالوں اور اسکولوں پر خرچ ہوگا۔
معاملہ یہ نہیں کہ ہم ترقیاتی کاموں کے لیے کتنی رقم مختص کرتے ہیں۔ اس سے بھی سنجیدہ معاملہ یہ ہے کہ ہم اس مختص بجٹ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہیے اور ان پیسوں کو کرپشن کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ نہیں جانتا پنجاب میں کیا ہوا مگر سندھ کو ملے ہزاروں ارب این ایف سی کے حوالے سے کرپشن جیسے ناسور کی نظر ہوگئے۔
ہماری معشیت جو آئی ایم ایف کے کہنے پر پالیسز کے تحت بنائی گئی ہے یا جو ہونا تھا وہ فطری عمل تھا بہرحال آج معشیت سکڑ گئی ہے۔ کئی لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں اور یہ فلاحی ریاست بھی نہیں کہ بیروزگاری کے الائونس دیے جائیں۔ میرے سامنے روز ایک خبر آتی ہے کہ کس طرح غریب کا گھر فاقہ کشی تک آ گیا ہے۔
رویئے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
غریب کا کوئی وطن نہیں ہوتا، اس کی نہ ذات ہوتی ہے نہ زبان ہوتی ہے اور نہ ہی ثقافت۔ وہ غریب جو ٹھہرا۔ یہ لوگ سیدھے سادے ہوتے ہیں تبھی تو غریب رہ جاتے ہیں ۔ ان کو ہماری اشرافیاء کا شاید کچھ پتہ نہیں جو اس ملک کو اس دہانے تک لے کر آئے۔ اگر کل کوئی بھوک کے مارے نان والے کی دکان سے روٹی چوری کر لے یا چھین لے تو ہماری عدالتوں کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ یہ قصور ان کا نہیں بلکہ ہمارا اور ہماری شرفاء کا ہے جن کے کالے دھن کی وجہ سے آج غریب کو روٹی میسر نہیں ۔
شاہ لطیف کا ایک شعر ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
ــ''جو کھڈی چلانے کے دن تھے
وہ تم نے بیکار کاموں میں گزارے''
ہم نے بھی بحیثیت قوم اور بحیثیت ملک بہت سے زمانے بیکار گزار لیے یہ ہماری مجبوری تھی، جغرافیائی حقیقت تھی۔ ہم گریٹ گیم کھیلنے والوں کو بھی درکار تھے، ابھی تو سرد جنگ کے آثار شروع ہوئے تھے ۔ ہمیں اس بہانے امداد ڈالروں میں آتی رہی، ہم سمجھے سب کچھ یوں ہی چلتا رہے گا اور پھر ایک دن ہم پر بھی کھلا کہ آج ہماری دہلیز پر food insecurity آن کھڑی ہے۔ اتنی ٖڈھیر ساری گندم ہوتے ہوئے بھی یقیناً یہ انھی عاقبت نااندیش پالیسیوں کا تسلسل ہے اور یہ اسی اقتدار کی رسہ کشی ہے جو ابھی تک کروٹ نہیں بدل سکی اور ہم اکیسویں صدی کی دو دہائیاں بھی ضایع کر چکے ہیں۔