’’خواتین کے لیے جہنم‘‘

صنف نازک کے بھارتی سماج میں غیر محفوظ ہونے کا نوحہ


Rizwan Tahir Mubeen September 16, 2013
صنف نازک کے بھارتی سماج میں غیر محفوظ ہونے کا نوحہ۔ فوٹو: فائل

KARACHI: حال ہی میں امریکی ویب سائٹ سی این این پر جاری ہونے والی امریکی طالبہ کی ایک رپورٹ نے ہندوستان میں خواتین کی صورت حال کے حوالے سے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

شکاگو یونیورسٹی کی طالبہ مشائلہ کراس Cross Michaela ایک مطالعاتی دورے پر ہندوستان گئیں، تو انہوں نے ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے جو محسوس کیا وہ قلم بند کر ڈالا۔ اپنی تحریر کے عنوان میں انہوں نے بھارت کو سیاحوں کے لیے جنت اور ''خواتین کے لیے جہنم'' قرار دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک ابھی تک خواتین کے حوالے سے کس قدر مسائل سے دوچار ہے۔ اگرچہ حقوق نسواں کی جدوجہد میں اس خطے کی بہت سی خواتین نے نمایاں کام یابی حاصل کی۔ بات اگر موجودہ منظر نامے سے شروع کی جائے تو سب سے نمایاں نام بھارتی حکم راں جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی کا نظر آتا ہے۔ سونیا گاندھی نے اگرچہ براہ راست وزارت عظمیٰ کا مضبوط منصب نہیں سنبھالا، لیکن اس کے باوجود کانگریس کی سربراہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت خاصی مضبوط ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انہیں ٹائم میگزین کی جانب سے متعدد مرتبہ دنیا کی سو بااثرشخصیات میں شامل کیا گیا۔ انہیں دنیا کی چھٹی طاقت ور خاتون بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ان سے پہلے سروجنی نائیڈو کانگریس کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز حاصل کر چکیں۔ آزادی کے بعد سروجنی نائیڈو کو اترپردیش کا گورنر بنایا گیا، یوں وہ ہندوستان کی پہلی خاتون صدر بھی رہیں۔ فلاحی کاموں کا ذکر کیا جائے تو کولکتہ عالمی شہرت یافتہ شخصیت مدر ٹریسا کا مسکن بنا۔ یہی سرزمین بُکر پرائز لینے والی اول ہندوستانی خاتون ارون دھتی رائے کا مسکن ہے تو خلابازی میں یہاں کی اولین خاتون کلپنا چائولہ نے نام کمایا۔ پرتیبھا پاٹیل 25 جولائی 2007ء کو بھارت کی پہلی خاتون صدر بنیں جو 25 جولائی 2012ء تک اپنے عہدے پر براجمان رہیں۔ بھارتی لوک سبھا میں میرا کمار 30 مئی 2009ء کو پہلی خاتون اسپیکر بنیں۔

خواتین کی ان نمایاں خدمات کے ساتھ حال ہی میں بھارت نے پاکستان اور بنگلا دیش سے ملحقہ اپنی سرحد پر خواتین افسران کو تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ بھارت میں سرحدی فورس نے 2009ء میں خواتین اہلکاروں کی بھرتی شروع کر دی تھی، اب انہیں بطور افسران بھرتیوں کا فیصلہ اب کیا گیا ہے۔ رواں برس بارڈر سکیورٹی فورس میں 110 نئے افسر بھرتی کیے جائیں گے، ان نئے افسران میں خواتین اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد شامل ہوگی، وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلا دیش کی سرحدوں پر 25 سال یا اس سے کم عمر خواتین کو اسسٹنٹ کمانڈنٹس کے عہدوں پر تعینات کیا جائے گا۔ خواتین اہلکاروں کے لیے ڈپٹی کمانڈنٹس یا کمانڈنٹس کے عہدوں تک ترقی کے دروازے بھی کھلے ہوں گے۔

بھارت میں خواتین کی ان تمام کام یابیوں کے باوجود نچلی سطح پر خواتین کے خلاف سنگین جرائم کی خبریں بھی تواتر سے آتی رہیں، حتیٰ کہ بیٹیوں کی پیدایش پر ناگواری کے عمل سے بھی بڑھتے ہوئے ان کی موت جیسے انتہائی اقدام تک بات جاپہنچی۔ بھارت میں حقوق نسواں کے کارکنوں کے مطابق ہر گھنٹے میں قتل ہونے والی ایک عورت کی وجہ قتل اس کے جہیز کی وجہ سے پیدا ہونے والی تلخی ہوتی ہے۔ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کے مطابق جہیز کا لین دین جرم ہونے کے باوجود 2012ء میں پورے ملک میں 8 ہزار 233 خواتین صرف ناکافی جہیز کے تنازعات کی نذر ہوگئیں۔ بھارت میں بعض اوقات جہیز کے نام پر مطالبات شادی کے کئی سال بعد تک بھی جاری رہتے ہیں۔ حقوق نسواں کے کارکنوں کے مطابق جہیز کے نام پر شادی کو سہولیات اور تعیشات کے حصول کا ذریعہ بنانے کا چلن بہت زیادہ جڑ پکڑ چکا ہے۔

اسی پس منظر میں امریکی طالبہ نے ہندوستانی سرزمین پر گزرے ایام کی تلخ نوائی سپرد قلم کی، جسے اس حوالے سے زیادہ اہم گردانا جا رہا ہے کہ اگر اسے مغربی اعتبار سے معاشرتی آزادی قرار دیا جائے، تو وہاں کے پیمانوں کے مطابق صورت احوال کیا ہے۔

بھارت کے دورے سے لوٹنے والی طالبہ مشائلہ کا کہنا ہے کہ وہ ان 3 ماہ کے دورے کے بعد ذہنی طور پر شدید متاثر ہے اور اب وہ نفسیاتی علاج کرا رہی ہے۔ اس لیے وہ دنیا بھر کے لوگوں کو بتانا چاہتی ہے کہ ہندوستان میں چند ماہ کے قیام کے دوران ان پر ان کی ساتھی طالبات پر کیا گزری۔ انہوں نے بتایا کہ پونا میں پہلی رات انہیں ایک میلے میں شرکت کا موقع ملا، جہاں کچھ مرد اورخواتین رقص کر رہے تھے۔ جب مشائلہ اس رقص میں شامل ہوئیں تو مقامی نوجوانوں نے سب کو چھوڑ کر ان کی وڈیو بنانا شروع کر دی۔ اسی طرح بازار میں خریداری کے دوران بھی انہیں مردوں کی فقرے بازی اور شدید ترین رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اور موقع پر کچھ نوجوانوں نے انہیں پون گھنٹے تک گھیرے میں لیے رکھا، جس سے وہ انتہائی خوف زدہ ہوگئیں۔ نوجوانوں کی طرف سے ان کو دیکھ کر ناقابل برداشت حرکات معمول کی بات تھی۔ وہاں قیام کے دوران انہیں 48 گھنٹے کے دوران دو مرتبہ ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی اور جب صورت حال ان کی برداشت سے باہر ہوگئی تو انہیں اپنے اساتذہ کو آگاہ کرنا پڑا۔

خواتین کی صورت حال کے حوالے سے اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں، تو یہاں بھی اوپری سطح پر خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کام یابی حاصل کر رہی ہیں۔ یہاں مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزارت عظمیٰ پر متمکن رہیں۔ ماضی قریب میں پہلی بار ایک خاتون فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی اسپیکر بنیں۔ اس کے بعد حنا ربانی کھر پہلی خاتون بنیں، جنہوں نے باقاعدہ وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا۔ اس کے علاوہ ارفع کریم رندھاوا سے لے کر ملالہ یوسفزئی تک کا عالمی سطح پر بڑا شہرہ ہے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ شہروں تک کے پڑھے لکھے حلقوں میں بھی بیٹی کی پیدایش کو بیٹے کی پیدایش جتنی خوشی کم ہی مل پاتی ہے۔ یہاں بھارت کی طرح لڑکی کو پیدایش سے پہلے قتل تو نہیں کیا جاتا، لیکن صورت حال ایسی نہیں کہ جسے کسی طرح بھی تسلی بخش قرار دے دیا جائے۔ مذہبی طور پر بیٹی کو رحمت قرار دینے کے باوجود عملاً اس کے لیے معیار دُہرا ہے۔

مذہبی طور پر آزادی ہونے کے باوجود یہاں آج بھی لڑکی کے خاندان کی طرف سے شادی کی بات کیا جانا معیوب ہے، حتیٰ کہ لڑکی والوں کی طرف سے اگر ذرا سی بھی شادی کے حوالے سے جلدی کی جائے تو پھر مرتے دم تک یہ طعنہ اس لڑکی کا نصیب بن جاتا ہے کہ ''تم تو اپنے ماں باپ پر بوجھ تھیں!'' شادی کے سمے بھی اس کی رضا مندی کو اہمیت حاصل نہیں۔ لڑکی والے بھاری جہیز کے ذریعے گویا لڑکی کی آیندہ زندگی کی آسانیوں کے لیے کوشش کرتے ہیں، بہ صورت دیگر لڑکی سسرال میں شاذ ہی سکھی رہ پاتی ہے۔ المختصر اسے بچپن سے لے کر شادی اور اس کے بعد کی زندگی تک مختلف مواقع پر اسے الگ الگ روپ میں مرد کے ہاتھوں دبائو سہنا پڑتا ہے۔ ملک کے پس ماندہ علاقوں میں صورت حال اس سے بھی کہیں زیادہ گئی گزری ہے۔ معاشرتی طور پر مسلسل دبائو اور حقوق سے محرومی کے ساتھ اس سے جینے کا حق بھی چھین لیا جانا کوئی بات ہی نہیں ہے۔ شادی سے انکار پر تیزاب پھینک دیا جانا، حتیٰ کہ انہیں زندہ درگورکرنے کے واقعات کو اپنی روایات قرار دینے کی انتہائی سوچ بھی ہمارے ہاں موجود ہے۔

ماہرین عمرانیات کے مطابق برصغیر میں خواتین کی صورت حال کے حوالے سے ہر دو جگہ پر تضادات کا سلسلہ دراز نظر آتا ہے۔ ایک سطح پر خواتین ضرور آگے بڑھ رہی ہیں، لیکن عوامی سطح پر صنف نازک سے متعلق حقیقی شعور کی رفتار خاصی سست ہے، جس کی وجہ سے مخصوص ذہنیت کے ہاتھوں کسی عورت کے حقوق بری طرح پامال کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ خواتین کی جانب سے اس کے خلاف بھر پور احتجاج کیا جا رہا ہے، لیکن اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کی عمومی ذہنیت بدلنے کی طرف زیادہ توجہ دی جائے، تاکہ نچلی سطح پر بھی کم سے کم لوگوں کی سوچ اور فکر بدلے اور پختہ سطح پر خواتین کو اپنے حقوق حاصل ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں