اسپتال میں تشدد روکنے کی مہم ـ ـ’’بھروسہ کریں‘‘

اسپتالوں کی ایمرجنسی میں ماحول کو بہتر بنانے کے لیے دونوں طرف سے باہمی احترام کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔


مزمل سہروردی July 24, 2019
[email protected]

پاکستان میں صحت کی سہولیات عالمی معیار کی نہیں ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت بہت خراب ہے۔ لیکن پرائیویٹ اسپتال بھی اعلیٰ نہیں ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولیات کی کمی کے باعث عوام پریشان ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اسپتالوں کے حو الے سے کوئی باقاعدہ کوڈ آف کنڈکٹ موجود نہیں ہے۔ اسپتالوں میں مریض ان کے لواحقین اور ڈاکٹرز صحت کے عملے کے درمیان لڑائی ایک معمول بن گیا ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی برائے ریڈ کراس کی ایک تحقیق کے مطابق صرف کراچی اور پشاورمیں محکمہ صحت کے شعبے کے عملے کی بڑی تعداد کو کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا ہے۔ تحقیق کے مطابق کراچی میں 66فیصد عملے نے گزشتہ ایک سال میں علاج کی فراہمی کے دوران تشدد کا سامنا کیا ہے۔ پشاور میں یہ شرح 55فیصد ہے۔ اسپتالوں کی ایمرجنسی میں تشدد کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ تشدد کے واقعات کی اکثریت مریضوں کے لواحقین اور اسپتالوں کے عملے کے درمیان ہو ئے ہیں۔

میں یہ بات مانتا ہوں کہ پاکستان کے اسپتالوں میں صحت کی سہولیات معیاری نہیں ہیں لیکن پھر بھی ایمرجنسی میں لڑائیوں کا رحجان کسی مہذب معاشرے کی پہچان نہیں ہیں۔ جہاں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہاں عام آدمی کو بھی یہ شعور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ ایمرجنسی میں جب مریض کو لایا جاتا ہے تو اس کی طبیعت بہت خراب ہوتی ہے۔ لواحقین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے مریض پر فوری توجہ دی جائے۔ مریض کے لواحقین صورتحا ل کی نزاکت کی وجہ سے جذباتی ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے موقع پر تشدد کے واقعات ہو جاتے ہیں۔

اس ضمن میں انٹرنیشنل کمیٹی برائے ریڈ کراس نے ''بھروسہ کریں'' کے عنوان سے ایک آگاہی مہم شروع کی ہے۔ جس کا مقصد صحت کے شعبہ میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کو روکنا ہے۔ بھروسہ کریں کے نام سے شروع کی جانے والی اس مہم میں عوام کو شعور دیا جانا ہے کہ وہ اسپتالوں میں جاتے ہوئے اپنے جذبات کو قابو رکھیں۔ صحت کے عملہ سے تعاون کریں۔ صبر کا مظاہرہ کریں۔

انٹرنیشل کمیٹی برائے ریڈ کراس نے اس سے پہلے پاکستان میں ایمبولینس کو پہلے راستہ دینے کی مہم چلائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مہم بھی کافی کامیاب رہی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صورتحال آئیڈیل ہو گئی ہے۔ لیکن پھر بھی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اب عام آدمی بھی ایمبولینس کو پہلے راستہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ایمبولینس کو پہلے راستہ دینے کی موجودہ مہم کے نسبت آسان تھی۔ ''بھروسہ کریں'' بظاہر ایک مشکل مہم لگتی ہے۔ لیکن معاشرے کو اس کی ضرورت ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی برائے ریڈ کراس کی اہداف کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ عوام کو اسپتالوں کے عملے کے ساتھ اپنے رویہ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ عوام میں ایسا شعور لانے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں انھیں کس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے۔ اسپتال میں ایمرجنسی کے عملے پر بھروسہ رکھنے کے لیے اس مہم کا نام ہی'' بھروسہ کریں'' رکھا گیا ہے۔ اس مہم میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ قصور صرف عوام کا نہیں ہے۔ اسپتالوں کی ایمرجنسی میں ماحول کو بہتر بنانے کے لیے دونوں طرف سے باہمی احترام کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ جہاں مریض اور اس کے لواحقین کو اسپتال کے عملہ پر بھروسہ کرنا ہے، وہاں انھیں بھی احترام کا مظاہرہ کرنا ہے۔ تب ہی ماحول بھی بہتر ہوگا ۔

اسپتالوں میں تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے بھی سخت قوانین بنائے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق زیر دفعہ 353اسپتال کے کام میں مداخلت پر دو سال قید با مشقت رکھی گئی ہے۔ اسپتال میں تعینات عملے جس میں ڈاکٹر سمیت سب شامل ہیں ان سے غلط برتاؤ پر زیر دفعہ 509 پر بھی د و سال قید با مشقت سزا رکھی گئی ہے۔ اسپتال کی حدود میں اسپتال کے عملہ کے ساتھ گالم گلوچ اور بد تمیزی پر بھی زیر دفعہ 504دو سال قید رکھی گئی ہے۔

ڈاکٹر نرس یا اسپتال کے کسی بھی عملے کو دھمکانے پر زیر دفعہ 506تین سے سات سال تک قید رکھی گئی ہے۔ کسی بھی انداز میں ڈاکٹر نرس وارڈ ملازم سمیت اسپتال کے عملے پر حملہ کرنے پر زیر دفعہ 328یا 333کے تحت تین سے دس سال با مشقت قید رکھی گئی ہے۔ اسپتال کی املاک کو نقصان پہنچانے پر بھی تین سال قید اور اسپتال میں ہجوم اکٹھا کرنے پر چھ سال کی قید رکھی گئی ہے۔ یہ قوانین معاملہ کی سنگینی بتا رہے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا کے اندر بھی اسپتال کی کوریج کے لیے کوئی باقاعدہ کوڈ آف کنڈکٹ موجود نہیں ہے۔ ہمارے میڈیا کے دوست بھی اسپتالوں کی ایمرجنسی بلکہ آپریشن تھیٹر میں بھی لائیو کوریج کے لیے گھس جاتے ہیں۔ وہ مرتے بندے کی فوٹیج بنالیں۔ پھر یہ بیماری تو عام ہے کہ ہم خود کو ہر معاملے کا ایکسپرٹ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے حکومت پاکستان کے 18جون 2019کے ایک حکم کے مطابق میڈیا نمایندگان کو اسپتالوں کے اندر سے کسی بھی قسم کی کوریج سے منع کیا گیا ہے۔ اسپتالوں کے اندر سے کسی بھی قسم کے کیمرہ حتیٰ کے موبائل کیمرے سے بھی فلم بنانے کی ممانعت کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مریض یااس کے لواحقین کو کسی بھی شکایت کی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ ابھی تک کی قانونی صورتحال کے مطابق مریض یا اس کے لواحقین محکمہ صحت ، ہیلتھ کئیر کمیشن یا اسپتال کی انتظامیہ کو شکایت کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں بھی قانون سازی اور قواعد بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹرز کو ان کے پروفیشنل مس کنڈکٹ پر سزا دینے کا رحجان نہیں ہے۔ اس ضمن میں بھی صورتحال بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ ''بھروسہ کریں'' ایک خوبصورت مہم ہے۔

صحت کی سہولیات جیسی بھی ہیں ان پر اعتبار کرنا ضروری ہے۔ اسپتال میں با ہمی احترام کا ماحول قائم کرنا ہمارا اولین فرض ہونا چاہیے۔ صحت کے عملے اور مریضوں کے درمیان اعتما د کا رشتہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقین کرنا ہوگا کہ صحت کا عملہ ہمارے مریض کی جان بچانے کے لیے بہترین صلاحیتیں بروئے کار لائے گا۔ ویسے تو اس ضمن میں انٹرنیشنل کمیٹی برائے ریڈ کراس نے آگاہی مہم شروع کی ہے لیکن اس مہم میں ہم سب کو شریک ہونا چاہیے۔ ہم سب کواس میں شامل ہونا چاہیے تب ہی یہ کامیاب ہوگی۔ اس سے ہمارے اسپتالوں کی پرفارمنس بھی بہتر ہوگی۔ مریض کے علاج کے لیے ماحول بہتر ہوگا۔ ہمیں بحیثیت ایک قوم بھی ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اسی میں ہماری طاقت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں