معاشی عمل پرآئی ایم ایف کے تحفظات

معاشی بحران کے خدشے کے پیش نظر عالمی مالیاتی ادارے کی ترجمان کا اندیشہ تھا۔


وارث رضا July 24, 2019
[email protected]

LONDON: پاکستان میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ترجمان ٹریسا ڈبن نے اسلام آباد میں نئے لائے گئے ایف بی آر چیئرمین شبر زیدی و دیگر حکومتی حمایت یافتہ معاشی ماہرین کی موجودگی میں ایک سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی مخدوش معاشی صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے، اس بات کا اندیشہ ظاہرکیا ہے کہ ملک میں عمران حکومت سیاسی استحکام لانے کے بجائے سیاسی بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔

جس سے عوام میں معاشی صورتحال اور پالیسیزکے منفی اثرات کا خیال کسی بھی وقت ایک بڑے عوامی احتجاج کا سبب بن سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی ادارے کے طے شدہ پروگرام میں رکاوٹ آ سکتی ہے، جو عالمی مالیاتی ادارے اور پاکستان دونوں کے لیے پریشانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن سکتا ہے۔

آئی ایم ایف ترجمان ٹریسا ڈربن کا خیال ہے کہ ہمارے پروگرام پر عمل درآمد نہ ہونے میں سب سے بڑی نظر آنے والی رکاوٹ ملک میں ''سیاسی عدم استحکام '' کی فضا ہے، انھوں نے جاری سیاسی عدم استحکام کو ایک اہم اور سب سے بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''عالمی مالیاتی پروگرام پر عمل درآمد کرنے میں بہت سے اقدامات موجودہ حکومت کو اٹھانے ہیں جن میں پروگرام کی سمت درست رکھنے کے لیے قومی اسمبلی سے قانون سازی اور قانون میں ترامیم کی ضرورت ہے، جوکہ موجودہ حکومت کی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی بنا پر ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر آسانی سے قابو پانے کے امکانات تا حال نظر نہیں آتے۔ ٹریسا ڈربن نے اشارتاً واضح کیا کہ ہمیں حکومت کی جانب سے ایسی عملی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے جس میں کچھ مثبت نتائج آتے ہوئے دکھائی دیں، انھوں نے موجود شرکاء کو بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارہ اس پوری صورتحال کا جائزہ دسمبر میں ہونے والے اجلاس میں لے گا۔''

عالمی مالیاتی ادارے کی ترجمان نے FATFکے پاکستان کوگرے لسٹ میں رکھنے کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ہر صورت خود کو عملی اقدامات کے ذریعے FATF کی گرے لسٹ سے نکالنا ہے وگرنہ اس کے اثرات دوسرے عالمی مالیاتی ادارے پر بھی پڑسکتے ہیں ، انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان FATF کی شرائط نہ مان کر ''بلیک لسٹ'' میں بھی چلا جاتا ہے تو اس سے عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام متاثر تو نہیں ہوگا، البتہ پاکستان ایک ایسے معاشی بحران کا ضرور شکار ہوجائے گا جس سے نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

معاشی بحران کے خدشے کے پیش نظر عالمی مالیاتی ادارے کی ترجمان کا اندیشہ تھا کہ ''آئی ایم ایف کے پروگرام اور معاشی اصلاحات کے عمل میں مہنگائی سے تنگ عوام کسی بھی صورتحال کو جنم دے سکتی ہے جوملک میں افراتفری اورعوامی احتجاج کی صورت میں نظر آسکتا ہے، جس کا فائدہ اپوزیشن اٹھا سکتی ہے'' انھوں نے اس سلسلے میں صوبائی ہم آہنگی کی کمزور صورتحال کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ عالمی مالیاتی پروگرم کیے جاری رہنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آسکے، اسی سمپوزیم میں ٹریسا ڈبن کے معاشی اور سیاسی تحفظات پر ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے یقین دہانی کروائی کہ '' حکومت عالمی مالیاتی ادارے سے کی گئی ایک ایک شرط کو پورا کرے گی اور پروگرام کے مطابق طے شدہ ٹیکس کے نظام پر مکمل عمل پیرا ہوگی اور اس سلسلے میں تاجروں یا عوام کی جانب سے کسی بھی احتجاج کو خاطر میں نہیں لائے گی اور نہ ہی کسی کو افراتفری کی اجازت دے گی۔''

معروف انگریزی موقر نامے کی اس سرخی کی خبرکو نجانے ہمارے الیکٹرونک میڈیا اور حکومتی اینکر حضرات نے کیوں کر سنجیدہ نہیں لیا یا ایسا نہ کرنے کی ہدایات کے شکار بنا دیے گئے، بہر حال اس بات سے قطع نظر عالمی مالیاتی ادارے کی پاکستانی سربراہ کی یہ تقریر براہ راست ملکی عوام کے معاشی اور سیاسی مفادات اور اس کے بھیانک نتائج سے جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جس میں عوام کے لیے واضح طور پر '' مہنگائی اور معاشی تنگ دستی کے لیے تیار رہنے کا ''جبری اشارہ'' دیا گیا ہے،آئی ایم ایف کی ترجمان ٹریسا ڈبن کی یہ تقریر اور بیانیہ اس وقت سامنے آیا، یا لایا گیا ہے جب پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت امریکی دورے پر ہے جہاں وہ اپنے سفارتی تعلقات اورخطے کی پر امن بہتری کے لیے سر گرداں ہے، دوسری جانب پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی و سیاسی صورتحال کے نازک موڑ پر آئی ایم ایف کا یہ واضح بیانیہ خطے کی معاشی صورتحال کے ساتھ خطے کی سیاسی صورتحال پر بھی دور رس اثرات کا پیش خیمہ دکھا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کی ترجمان کا مذکورہ بیانیہ دراصل خطے کی اتھل پتھل،FATFکی شرائط اور عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام اور اس کے مفادات سے جڑا ہوا ہے، خطے کی صورتحال کے تناظر میں یہ خطہ جہاں پاکستان کے سیاسی و معاشی استحکام کے اہم ہے وہیں خطے میں امریکی اثر نفوذ کی کوششوں میں پاکستانی کردار بھی اہمیت کا حامل ہے، مختصراً پاکستان جہاں سینٹرل ایشیا کی منڈی تک رسائی کا ''گیٹ وے'' ہے تو وہیں پاکستان اپنے طاقتور ہمسائے اور ''معاشی جن'' چین کو بھی گنوانا نہیں چاہے گا اور نہ ہی پاکستان کی یہ کوشش ہوگی کہ اس کے معاشی مفادات کے حصول میں اس کے پڑوسی افغانستان ، ایران اور بھارت کوئی بڑی رکاوٹ بنیں۔

اسی طرح پاکستان کے مفاد میں روس کی قربت بھی سینٹرل ایشیا کی مارکیٹ تک رسائی کا سب سے اہم ذریعہ ہے، مگر اس تمام سیاسی اور معاشی خدشات و امکانات کے ہوتے ہوئے پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کو معاشی طور سے مضبوط کرنے میں تاحال ناکام رہا ہے، جس کی وجہ مختلف سیاسی و معاشی پالیسیز ہو سکتی ہیں ، مگر ایک بات طے ہے کہ پاکستان کے اقتدار پر آنے والی فوجی یا سول حکومتوں نے ملک کے عوام کی معاشی ضروریات کے مقابلے میں ''غیر ترقیاتی، اخراجات کا بوجھ ملکی معیشت پر قومی سلامتی اور دفاع کے نام ڈالے رکھا جس وجہ سے اب ملکی معیشت میں ''عوام '' کو سہولیات فراہم کرنے کی سکت نہیں رہی ۔

اسی طرح ریاستی طور پر جاگیرداری ، سرداری ، خانان اورعوام دشمن مذہبی عناصرکو ریاست کا مضبوط '' اثاثہ '' سمجھ کر آج بھی سلامت رکھا ہوا ہے ،گو یہ عالمی حقیقت ہے جاگیردارانہ ، سرداری اور مذہبی سماج کبھی معاشی ترقی کے پہیے کو آگے کی سمت نہیں لے جاسکتے، باوجود اس کے ہمارے اقتدار کے حکمران عوامی بالادستی کے اصل گر ''معاشی خوشحالی '' دینے سے غافل کیے گئے اور بے تحاشا غیر ترقیاتی اخراجات کے اضافے سے آج ہم ایک سکڑتی بلکہ ناکام معیشت پر عالمی اداروں سے قرضے لے کر ''غیر ترقیاتی '' اخراجات کے سودی قرضوں کو پورا کرنے پر مجبور بنا دیے گئے ہیں۔

اس نازک معاشی صورتحال میں جہاں ہم عالمی مالیاتی ادارے کے ''عوام پر ٹیکس'' لاگو کرنے ایسے عوام دشمن اقدامات پر سر جھکانے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب سات سمندر پار امریکا کی خطے میں بالا دستی کو بر قرار رکھنے کی حماقت کا پھر سے اعادہ کرنے جا رہے ہیں۔ امریکی دورے سے ممکنہ نتائج FATF کی شرائط میں سودے بازی اور آئی ایم ایف کے علاوہ مشرق وسطی میں امریکی نفوذ پر خاموشی اور چین کے معاملات پر وقتی سرد مہری تو ہو سکتی ہے مگر اس تمام تر صورتحال میں عوام کے معاشی مسائل حل ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

پچاس برس قبل یہ خطہ صلیبی جنگ میں سات سمندر پار امریکی پالیسیزکا حصہ بنا تھا جس نے پورے خطے میں جہاں ڈالر جہادی پیدا کیے، وہیں دہشتگردی سے عوام کی معاشی اور سماجی زندگیوں کو تاراج بھی کیا، اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ وقت ملک کے عوام کی معاشی خوشحالی واپس لانے اور مضبوط معیشت قائم کرنے کا ہے جس کے نتیجے میں ہی سیاسی استحکام ہوگا، مگر جب پاکستان پھر خطے میں امریکی مفادات کا پل بننے میں سرگرداں رہے، تو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملکی عوام کا اصل مسئلہ بھوک ، بیروزگاری اور تنگ دستی سے چھٹکارا ہے ناکہ عالمی سیاست کے نتیجے میں ماضی کے دہشتگرد اور آج کے ڈالر جہادیوں کی منی لانڈرنگ کی رقم کو سرمایہ کاری میں لگانے کی کوششیں کا ، وگرنہ معاشی تنگ دست عوام کسی بھی لمحے احتجاج کا ایسا شعلہ جوالہ بھی بن سکتی ہے جس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں ،جس کی جانب عالمی مالیاتی ادارے کی ٹریسا ڈبن نے اشارہ کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں