ایک سال یوم سیاہ سے یوم تشکر کے درمیان
ایک سال قبل یہ مطالبہ تھا کہ جب تک دھاندلی کا معاملہ طے نہیں ہوتا تب تک باقی معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ ایک طرف اس ایک سال کے مکمل ہونے پر متحدہ اپوزیشن یوم سیاہ منا رہی ہے جب کہ حکومت یوم تشکر منا رہی ہے۔ایک سال قبل 25جولائی کو ہونے والے انتخابات کے نتائج پر تحفظات کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں نے انھیں تسلیم کیا۔ سب پارلیمنٹ میں آکر بیٹھ گئیں۔ اور ملک کا جمہوری نظام چل پڑا۔
اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کی حکومت کو اس ایک سال کے دوران کسی بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں رہا ہے۔ تاہم معاشی محاذ پر اس حکومت کو بڑے بڑے چینلجز کا سامنا رہا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی اس حکومت کے ایک سال کا احاطہ کیا جائے تو بہت دلچسپ ہو گا۔
25جولائی کو حکومت نہیں بنی تھی بلکہ انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی حکومت کو ایک سال مکمل نہیں ہوا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ 25جولائی2018کی شب غیر سرکاری انتخابی نتائج کے بعد ملک بھر میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ عمران خان ملک کے اگلے وزیر اعظم ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت بن رہی ہے۔ اس ضمن میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ سب کچھ واضح تھا۔ 26جولائی صبح ملک میں غیر علانیہ عمران خان کی حکومت تھی۔ یہ درست ہے کہ انتقال اقتدار نہیں ہوا تھا۔ لیکن ایک طرح سے انتقال اقتدار ہو بھی گیا تھا۔
ایک سال قبل انتخابی نتائج پر جو شور تھا وہ آج نہیں ہے۔ ایک سال انتخابی عمل پر جو شور تھا وہ آج نہیں ہے۔ ایک سال قبل فارم45پر جو شور تھا وہ آج نہیں ہے۔ اس لیے ایک سال میں حکومت کواس لحاظ سے فتح ہوئی ہے کہ اس نے ایک حکمت عملی کے تحت انتخابی نتائج پر شور ختم کر دیا ہے۔ اس ایک سال میں متحدہ اپوزیشن انتخابات میں دھاندلی کا مقدمہ ہار گئی ہے۔ اس ایک سال میں متحدہ اپوزیشن انتخابات میں دھاندلی کے مقدمہ کی پیروی میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ ایک سال قبل عمران خان بھی دھاندلی کے شور سے پریشان تھے۔ اسی لیے حلقہ کھولنے اور کمیشن بنانے کے لیے تیار تھے۔ لیکن آج یہ سب ختم ہوگیا ہے۔
ایک سال قبل یہ مطالبہ تھا کہ جب تک دھاندلی کا معاملہ طے نہیں ہوتا تب تک باقی معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ لیکن آج سب معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ نہیں بڑھ رہا تو دھاندلی کا معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا۔ ایک سال قبل کا ماحول آج بدل گیا ہے۔ حالانکہ گزشتہ دور حکومت میں ایک سال بعد دھاندلی کا شور بڑھ گیا تھا۔ دھرنوں کا اعلان ہو گیا تھا۔ دھاندلی پر حکومت ختم کرنے کی تحریک شروع ہو گئی تھی۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج دھاندلی کسی بھی جماعت کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔
ایک سال قبل تبدیلی کا جو شور تھا وہ بھی اس ایک سال میں ختم ہو گیا ہے۔ایک سال قبل عوام کو جس تبدیلی کی امید تھی وہ آج نہیں ہے۔ آج عمومی طور پر یہ قبول کر لیا گیا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ حکومت نے عوام کو تبدیلی کے ایجنڈے سے دور کھینچ لیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن بھی حکومت کو تبدیلی کے ایجنڈے سے انحراف پر دفاعی پوزیشن پر لانے میں ناکام ہوئی ہے۔ بلکہ صورتحال بالکل مختلف ہے عمران خان نے کامیاب سیاسی حکمت عملی سے یوٹرن کو قابل قبول بنا لیا ہے۔ انھوں نے اس ایک سال میں لیڈر کی جانب سے یو ٹرن کو بری سے اچھی بات بنا لیا ہے۔ جب کہ اپوزیشن یہ مقدمہ بھی عمران خان سے ہار گئی ہے۔ اب یوٹرن ایک قابل قبول اصطلاح بن گئی ہے۔
اس ایک سال کے دوران عمران خان نے ملک میں سیاسی ماحول کو بہت گرم رکھا ہے۔ ماضی کی حکومتیں کوشش کرتی تھیں کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کو ٹھنڈا رکھیں۔ تاہم عمران خان اور ان کی ٹیم نے شعوری کوشش کی ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت گرم رہے۔ اس ایک سال کے دوران عمران خان نے ملک کے سیاسی ماحول کو انتخابی ماحول سے باہر نہیں آنے دیا۔ شدید تنقید کے ماحول کو قائم رکھا اور ملک میں سیاسی تفریق کو بڑھایا ہے۔ اس ایک سال میں عمران خان نے احتساب کے نعرہ اور احتسابی عمل سے اپوزیشن کو کھڑا ہی نہیں ہونے دیا۔ آج اپوزیشن کی بقاء ہی اپوزیشن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔جس کو عمران خان کی سیاسی کامیابی کہا جا سکتا ہے۔
اس ایک سال کے دوران اپوزیشن متحد ہو گئی ہے۔ ایک سال پہلے اپوزیشن متحد نہیں تھی۔ ایک سال پہلے اپوزیشن عمران خان کے مقابلے پر مشترکہ امیدوار لانے کے لیے بھی متحد نہیں تھی۔ ایک سال پہلے پیپلزپارٹی وزیر اعظم کے لیے میاں شہباز شریف کو ووٹ ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھی۔صدارتی انتخاب میں ن لیگ پی پی پی کے اعتزاز احسن کو ووٹ ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ایک سال پہلے اپوزیشن ایک میز پر اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ایک سال پہلے اپوزیشن کا مشترکہ اجلاس ممکن نہیں تھا۔ ایک سال پہلے اپوزیشن میں تقسیم کی وجہ سے عمران خان سیاسی طور پر بہت مضبوط تھے۔ لیکن آج اپوزیشن کے متحد ہونے سے عمران خان کی حکومت کے لیے سیاسی مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
ایک سال میں عمران خان نے اپوزیشن کو اپنے اقدامات سے متحد کیا ہے۔ آج سینیٹ میں عمران خان کو سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ اس عدم اعتماد کا ایک سال قبل تصور بھی مشکل تھا۔ بظاہر نمبر گیم میں یہ عدم اعتماد کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ لیکن ابھی تک عمومی رائے یہی ہے کہ اس عدم اعتماد کے کامیاب ہونے میں ابھی بہت نشیب و فراز ہیں۔
ایک سال قبل بغیر کسی نمبر گیم کے صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوا لینا عمران خان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ لیکن آج اس کامیابی کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ابھی تک اپوزیشن کے صرف دو سنیٹرز نے حکومت کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ابھی تک حکومتی اتحاد کمزور دکھائی دے رہا ہے۔ اسی لیے عدم اعتماد پر رائے شماری نہیں کروائی جا رہی ہے۔ حکومت وقت حاصل کر رہی ہے تاکہ نمبر گیم کو پورا کیا جا سکے۔ شاید خلائی مدد کا بھی انتظار ہے۔ تاہم ایک سال میں بات کو عدم اعتماد تک لے آنا عمران خان کی کامیابی نہیں بلکہ ناکامی ہے۔
اس ایک سال میں جہاں اپوزیشن متحد ہوئی ہے۔ وہاں حکومتی اتحاد میں دراڑیں نظر آئی ہیں۔ بجٹ کے موقع پر اتحادیوں نے جس طرح عمران خان کو بلیک میل کیا ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی ہے۔ کیا عمران خان اس قدر کمزور حکومتی اتحاد کو اگلے سال برقرار رکھ سکیں گے یہ بھی ایک سوال ہے۔ تا ہم عمومی رائے یہ ہے کہ عمران خان کی طاقت کسی پارلیمانی نمبر گیم میں نہیں ہے بلکہ اداروں کی حمایت میں ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس ایک سال میں عمران خان نے اپنی حکومت کے لیے اداروں کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ اپوزیشن اداروں کے ساتھ اپنے تناؤ میں کمی لانے میں ناکام رہی ہے۔ بند دروازے کھولنے میں ناکام رہی ہے۔ بلکہ دروازوں کو مزید بند کیا گیا ہے۔ یہ عمران خان کی بڑی کامیابی ہے جو ان کی کمزور حکومت کو بھی کامیاب کر رہی ہے۔
ایک سال مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن حکومت کے خلاف ایک تحریک چلانے کی تیاری کر رہی ہے۔ 25جولائی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یوم سیاہ کے جلسے کیا اس تحریک میں جان پیدا کر سکیں گے۔ کیا اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو سکے گی۔ ملک میں مہنگائی کا شور ہے۔ تاجر پریشان ہیں۔ معاشی بحران ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ ڈالر کی اڑان قابو میں نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن ان تمام عوامل سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اپوزیشن کو سوچنا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے۔ جب کہ عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ ایسا کب تک رہ سکے گا۔