شاد و آباد پاکستان
جو حاکم بن گیا اور ریاست کا نگہبان بن گیا وہ نہ صرف بندوں کو جواب دہ ہے بلکہ اللہ پاک کو بھی جوابدہ ہے۔
عمران خان بحیثیت وزیر اعظم اپنا پہلا سال گزار چکے ہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری گرفتار ہیں، مریم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کو لے کر چل رہی ہیں، رانا ثنا اللہ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور امکان ہیں کہ مزید گرفتاریاں ہونگی۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ '' ملک کوکرپشن سے پاک کردینگے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے'' ہمارے وزیر اعظم آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں، کرکٹ کی دنیا کے چمکتے ہوئے ستارے رہے ہیں، گلیمر اور چمک دمک کو خوب پہچانتے ہیں مگر پھر بھی ریحام خان سے دھوکہ کھا چکے ہیں۔ کہتے ہیں، بشریٰ بی بی کا ساتھ جنم جنم کا ہے۔ اللہ مبارک کرے۔
ملک میں ہر طرف ہلچل مچی ہوئی ہے، مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ سکون کا احساس غارت اسی لیے ہوتا جا رہا ہے کہ ضرورتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اسپتال سے لے کر تعلیمی اداروں تک کوئی بھی ایسی تبدیلی نہیں لائی گئی جوکہ عوام کو سہولت فراہم کرسکے۔ ابھی تک صرف اور صرف ٹیکسز ہی ٹیکسز نظر آتے ہیں حالانکہ یہ تمام ٹیکسز تو عام آدمی دیتے چلے آرہے ہیں، روزمرہ کی تمام ضروریات پر ٹیکس ہے حالانکہ بنیادی اشیائے ضروریہ تو ہر حال میں سستی ہونی چاہئیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، غربت ، علاج و معالجے کا فقدان، تعلیمی سہولتوں کا فقدان اس ملک کو اور غریب بنادیگا، عام آدمی کی جو بنیادی ضروریات ہوں وہ تو اس کی پہنچ میں ہوں اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے۔
کرپٹ سیاستدانوں کو پکڑکر جیل میں ڈالنا مقصد نہ ہو بلکہ ان سے ہر حال میں ریکوری کی جائے۔ابھی حال ہی کی مثال ہے کہ سعودی عرب میں کس طرح اربوں پتی افراد سے رقم لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی۔ یہاں نہ قانون بنتا ہے اور نہ پاسداری ہوتی ہے اور اگر قانون بن بھی جائے تو اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے سب جانتے ہیں۔
دنیا میں کئی ممالک نے شاندار ترقی کی اور سب کے لیے مثال بن گئے حالانکہ ان کے وسائل کم تھے مگر پاکستان میں الٹا ہوا، معدنی دولت سے مالا مال ملک جہاں اللہ نے اپنی ہر نعمت اور ہر موسم سے نوازا ہے کہ یہاں جو جو اقتدار میں آیا وہ ایک چھوٹی سوچ لے کر کرسی پر جم گیا۔ لالچ کا ایسا فلسفہ اور سوچ لایا کہ صرف اپنی ذات اور خاندان کو کئی نسلوں تک مالا مال کرنے میں لگ گیا حالانکہ اپنی اسی گھٹیا سوچ اور فلسفے کی بنیاد پر پوری دنیا میں ذلیل و خوار بھی ہوا۔
جو حاکم بن گیا اور ریاست کا نگہبان بن گیا وہ نہ صرف بندوں کو جواب دہ ہے بلکہ اللہ پاک کو بھی جوابدہ ہے۔ کرسی پر بیٹھتے ہی ان کا فلسفہ اور سوچ لامحدود کی بجائے محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ پہلے یہ حکمران بن کر عوام کا خون چوستے ہیں پھر قیدی بن کر بھی عوام کا خون چوستے ہیں۔ عوام سن سن کے پریشان ہیں کہ اربوں کھربوں لوٹنے والی یہ مخلوق کیا کسی رحم کی مستحق ہے؟ وہ اربوں روپے جو عوام کے لیے اسپتالوں میں کام آنے تھے، جو تعلیم و ہنر کے لیے تھے، جو اربوں کھربوں روپے غریب عوام کی تقدیر بدل سکتے تھے وہی اربوں روپے صرف چند خاندانوں کی تقدیر بدل رہے ہیں۔
چھوٹی سوچ والی یہ مخلوق اپنے آپکو سیاستدان کہلوا کر فخر محسوس کرتی ہے۔ ساری دنیا سے عوام کی ترقی و کامیابی کے لیے رقم جمع کرنیوالی یہ مخلوق اپنے لیے اور اپنی کئی نسلوں کے لیے بھیک کی رقم کو ورثہ بناتی ہے۔ بھیک میں ملنے والے کروڑوں، اربوں روپوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی تعلیم اور ان کی عیاشیوں پر خرچ کرتی ہے۔ انجام ان کا ایک بھیانک موت ہی کی صورت میں ہوتا ہے جس میں بے بسی کی موت اور ملک کے اداروں کا رحم و کرم بھی شامل ہوجاتا ہے۔ پاکستان کو بلندیوں پر لے جانے والے خود کئی گنا زیادہ پستیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔
اللہ کرے کہ یہ ملک خوب خوب پھولے پھلے مگر جب تک کرسیوں پر بیٹھنے والے وسیع اور مثبت سوچ کے مالک نہیں ہونگے، جب تک لالچ و ہوس سے ان کے دل و دماغ خالی نہیں ہونگی یہ کبھی بھی پاکستان کے خیر خواہ نہیں بنیں گے۔ بڑے محلات کی خواہش، عالی شان کاروبار کے مالک، دنیا کی مہنگی ترین جگہوں پر رہائش، بری خواہش بالکل نہیں ہے اگر کوئی بھی شخص محنت و دیانت کے بل بوتے پر حاصل کرے نہ کہ غریب عوام کی فلاح و بہبود پر ملنے والی فنڈنگ کو اپنی ذاتی خواہشات کے لیے استعمال کرے، چوری اور بھیک سے کیا کبھی کسی کا بھلا ہوا ہے؟
حکومتوں کا مقصد پچھلی حکومتوں کو ذلیل و خوار کرنا نہ ہو ہاں مگر کرپشن کرنیوالے پکڑے جائیں، ایک دوسرے کو گرانا مقصد نہ ہو، ہاں مگر ملک کو نقصان پہنچانے والوں کو نہ چھوڑا جائے۔ حب الوطنی کوئی چورن تو ہے نہیں یہ کھانے کے بعد کھایا جائے تو ہاضمہ صحیح ہوجائے۔ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے لیے ہمیں بے انتہا محنت اور بے انتہا دیانتداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہر اس خاندان کا سوچیں جو غربت کی لکیر سے بھی کم پر جی رہا ہے۔ پاکستان کسی بھی طرح سے بھی ملک سے کم تر نہیں، پاکستانی عوام بہترین قوم، جذبوں سے طاقت سے بھرپور قوم، ذہین اور بیدار مگر ابھی تک اقتدار کی کرسی خالی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنا تن، من، دھن پاکستان اور اس کے عوام کو سمجھیں۔
اور اب ہم سب کو ضرورت ہے اپنی سوچ کو بدلنے کی، اپنے رویے بدلنے کی، انتقام کی سوچ سے باہر نکلیں یہ اس شخص کے ہاتھ مضبوط کریں جو ملک و قوم کے لیے مخلص ہو۔ آپ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھیں مگر اپنا لیڈر ایسے شخص کو بنائیں جو آپکا استعمال غلط نہ کرسکے، اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات نہ دیکھیں بلکہ بڑی سوچ کے ساتھ اپنے ملک کے لیے اپنے لوگوں کے کچھ ایسا کریں کہ آپ کا نام رہتی دنیا تک رہے، یہ سنسنی خیزی، یا ہلچل یہ آئے دن کے اسکینڈلز، کیا حاصل؟ اربوں کھربوں لوٹنے والوں کو اگر پکڑا جائے تو کیفر کردار تک پہنچانا لازم نہ کہ ان کو ہیرو بناکر پیش کیا جائے۔ چھوٹا یا بڑا مجرم، سب کو قانون کے برابر لایا جائے، ظلم جب تک ختم نہیں ہوگا ہم بحیثیت قوم ترقی نہیں کرسکیں گے۔
حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا پیپلز پارٹی کی یا مسلم لیگ (ن) کی بات ہمیشہ قانون اور اصول کی بلند ہو، ایک قانون سب کے لیے موجودہ حکومت اپنے سنہرے اقوال کے ساتھ اگر انصاف و عدل کا نظام نہ لاسکے، اگر عوام کی فلاح و بہبود نہ کر سکے اگر ملک کو لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا سکے تو پھر بدنصیبی قوم کی ہی ہوگی۔ بے تحاشا ٹیکسز،کم وسائل، بنیادی ضروریات کا فقدان، اعلیٰ عدلیہ اور اس کے فیصلوں کے اسکینڈلز، ججزکی خرید وفروخت نہ صرف ملک کے اندر انتشار پیدا ہوگا بلکہ باہر کی دنیا میں بھی پاکستان کمزور ہوگا۔
سنسنی خیزیوں کو پاکستان کا جال نہ بنایا جائے، اقدامات اتنے ٹھوس ہوں کہ نظر آئیں۔ کوئی شک نہیں کہ کچھ فیصلے، طریقے پاکستان کی حکومت کو سخت ترین کرنے ہونگے اور اس کے نتائج عوام کے حق میں ہوں تو یقینا عوام کا مورال بلند ہوگا۔ ہر بار عوام کو لوٹنے کا عمل ختم ہونا چاہیے۔ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے اور انشا اللہ ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان شاد و آباد ہوجائے۔