دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پختونخوا پولیس کی پہلی خاتون شہید

سوات پولیس کی عالیہ 23 نومبر 2008 کو ڈیوٹی سے جا رہی تھی، طالبان نے بھائی سمیت اغوا کر لیا


احتشام خان July 26, 2019
پولیس نوکری چھوڑنے کا کہا، انکار پر بے دردی سے قتل کر کے لاش گرین چوک میں پھینک دی۔ فوٹو: فائل

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں خیبر پختونخوا پولیس کے بہادر، جوانوں اور افسران نے بیش بہا قربانیاں دیں وہیں سوات کی عالیہ نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک و قوم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

سوات میں پولیس اہلکار طالبان کے خوف و ڈر کے باعث پولیس کی نوکریاں چھوڑ رہے تھے سرکاری ملازمین سوات کو چھوڑ کر پشاور، مردان، چارسدہ اور ملک کے دیگر حصوں کو لمبی چھٹی پر چلے جبکہ بیشتر سرکاری ملازمین نے طالبان کے خوف و ڈر کے باعث اپنے پیشے کو بھی خیر آباد کہہ دیا لیکن سوات کے علاقہ خوازہ خیلہ سے تعلق رکھنے والی عالیہ نے اپنے یونیفارم کی لاج رکھی ، پولیس میں بھرتی ہونے کا حلف اس نے حقیقت میں پوار کر کے دکھایا۔

23 نومبر 2008 کو عالیہ مینگورہ میں ڈیوٹی کر کے واپس جارہی تھی کہ طالبان نے اسے فلائنگ کوچ سے اتارا اور اسے بھائی سمیت اغوا کر کے لے گئے۔ ایک دن گزرنے کے بعد طالبان نے عالیہ کے بھائی کو چھوڑ دیا اور عالیہ کو بے دردی سے قتل کر کے لاش مینگورہ کے گرین چوک میں پھینک دی۔

عالیہ کے بھائی شمس الحق نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 23 نومبر کو عالیہ گھر سے ڈیوٹی کے لئے نکلی لیکن پھر واپس نہ آئی ، وہ دہشت گردی اور اتنہا پسندی کی شروع دن سے مخالفت کر تی ، جب سوات میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی تو عالیہ کی کئی سہیلوں نے چھٹی لے لی لیکن ہماری بہن عالیہ بہت نڈر تھی اس کا کہنا تھا کہ پولیس فورس عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہے۔

عالیہ کا بھائی جو کہ طالبان کی قید میں تھا اس نے بتایا کہ طالبان نے عالیہ کو جس گھر میں رکھا، اسی وقت اس پر تشدد کیا، عالیہ کے ہاتھوں سے چوڑیاں اتاری گئیں اور عالیہ کو کہا گیا کہ پولیس کی نوکری چھوڑ دیں، ہم آپ کو چھوڑ دیں گے لیکن عالیہ طالبان کے سامنے نہ جھکی جس پر طالبان نے اسے مار ڈالا، 14 دسمبر کو عالیہ کی لاش اس کے اہل خانہ کو ملی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں