پاکستان کرکٹ کا پورا نظام ہی ’’اوورہال‘‘ کرنا ہوگا

دعوے نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت۔


Mian Asghar Saleemi July 28, 2019
دعوے نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت۔ فوٹو: فائل

کیا آپ پاکستان کا کوئی ایسا ادارہ جانتے ہیں جس کے ملازمین کی تنخواہیں لاکھوں میں ہوں ، عہدیدارانگلینڈ،آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے سیر سپاٹے کرنے کو حق سمجھتے ہوں، فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے ، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھر تے ا ور ٹی اے، ڈی اے بھی ڈالرز میں وصول کرتے ہوں اورجو ہارٹ سرجری سمیت مہنگا ترین علاج بھی باہر سے کرواتے ہوں اور تو اور جس ادارے کا زیادہ ترسٹاف بھی غیر ملکی ہو، کچھ ایسے بھی ملازم ہوں جوکوئی خاص کام کئے بغیر ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے تنخواہیں بھی وصول کرتے ہوں، ان شاہ خرچیوں کے باوجود اس ادارے کے پاس10 ارب روپے کے قریب رقم بھی موجود ہو۔

اگر قارئین اس ادارے کے با رے میں نہیں جانتے تو جان لیں، یہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہے جس کے بے پناہ اخراجات کے باوجود اس کے خزانے دولت سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم حال ہی میں انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ کے دوران اچھی کارکردگی تو نہیں دکھا سکی اور سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی ، اس کے باوجود انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی طرف سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو سالانہ گرانٹ کے علاوہ ورلڈ کپ آمدنی کی بھی اچھی خاصی رقم بھی میسر آئے گی۔

اس وقت پی سی بی کی صورتحال یہ ہے کہ بورڈ کے ایم ڈی،چیف سلیکٹر اورہیڈکوچ سمیت غیر ملکی سٹاف پی سی بی سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی بورڈ سے سنٹرل کنٹریکٹ کی مد میں ماہانہ بنیادوں پرپانچ سے دس لاکھ روپے کے درمیان رقم لیتے ہیں، ایسے وقت میں جب پاکستان کا کوئی بھی ادارہ صحیح طور پر کام نہ کررہا ہو، پی آئی اے، سٹیل ملز سمیت متعدد سرکاری ادارے گھاٹے میں جارہے ہوں ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہر سال منافع میں جانا خوش آئند ہے، اگر پاکستان کرکٹ بورڈ میں دولت کی فراوانی کی بات کی جائے تو اس میں سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی کاوشوں اور کوششوں کا بہت عمل دخل ہے۔

2004 سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھی مالی حالت خاصی پتلی ہو چکی تھی لیکن سابق سیکرٹری خارجہ کی بھرپور کوششوں کی وجہ سے بھارتی کرکٹ ٹیم 2004-05 میںسیریز کھیلنے کے لئے پاکستان آئی، اس دورے میں شہریار خان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انڈین ٹیم کوپاکستان لانے کے لئے سابق منجھے ہوئے بیوروکریٹ نے خود بھارت کا دورہ کیا، واقفان حال بتاتے ہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کی یقین دہانی کے باوجود شہریار اس وقت تک وہیں بھارت میں موجود رہے جب تک بھارتی ٹیم کھیلنے کے لئے پاکستان نہ پہنچ گئی۔

یہ ایک تاریخی دورہ تھا جس میں نہ صرف دونوں ملکوں کے شائقین کی بڑی تعداد سنسنی خیز مقابلوں سے لطف اندوز ہوئی بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی مالی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہوا ،اسی دورے کے دوران ہی مہندرا سنگھ دھونی اور عرفان پٹھان سمیت متعدد بھارتی کھلاڑی سٹارز بن کر ابھرے اورکرکٹ کے عالمی افق پر چھا گئے۔

بلاشبہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بعد اس وقت پیسوں کی کمی نہیں لیکن ورلڈ کپ میں عمدہ کارکردگی نہ دکھا سکنے کے بعد قومی ٹیم اس وقت تربتر کا شکار ہے ،پی سی بی حکام بھی آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں غوروفکر کر رہے ہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے کپتان سرفراز احمد ہی رہیں گے یا ان کی جگہ کوئی اور سنبھالے گا، ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو ہیڈکوچ کے عہدے پر برقرار رکھنا ہے یا کسی اور کو نئی ذمہ داری دینی ہے، انضمام الحق کے بعد نیا چیف سلیکٹر کس کو بنانا ہے یہ تمام امور حل طلب ہے جس کے لیے پی سی بی کی کرکٹ کمیٹی کا اجلاس 2اگست کو لاہور میں بلایا گیا ہے، اس اجلاس کے متوقع نتائج کے لیے ابھی سے بحث و مباحثہ جاری ہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرعبدالقادر نے تو چیف کوچ کے عہدے پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے، ان کے مطابق کپتان کے ساتھ بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کوچز کے ہوتے ہوئے ہیڈ کوچ کے عہدے کی آخر کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور ویسے بھی مکی آرتھر کی تین سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے اس دوران پی سی بی سے کروڑوں روپے تو وصول کر لئے لیکن ان کی اپنی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہی رہی۔

دنیائے کرکٹ میں1992 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان کو بڑی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے اور ان کی رائے کو ہمیشہ اہمیت اور تقویت ملتی ہے ، اب وہ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف بھی ہیں تو شائقین کرکٹ کی ان سے امیدیں بہت زیادہ وابستہ ہیں،عمران خان کی حکومت میں اگر پی سی بی کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ تاحال عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایسا مثالی ماحول اور کلچر ہی پروان نہیں چڑھایا جا سکا جس کی توقع کی جارہی تھی، عمران خان کے دور میں ورلڈکپ سمیت دوسرے عالمی مقابلوں میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی کوئی خاص نہیں رہی ہے، لیکن دورہ امریکہ کے دوران عمران خان نے شائقین کرکٹ سے وعدہ تو کیا ہے کہ کہ وہ قومی ٹیم کی تشکیل نو کریں گے اور آئندہ ورلڈکپ کے لیے نئی ٹیم تیار کریں گے۔

عمران خان کی نئی ٹیم کونسی ہوگی اور یہ کب بنے گی، یہ موضوع بحث طلب ہے تاہم اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کرکٹ کی بھرمار کی وجہ سے کرکٹرز کی زیادہ تر توجہ ٹیسٹ کی بجائے ون ڈے اور ٹوئنٹی20 پر ہے جس کی واضح مثال محمد عامر کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنا ہے۔محمد عامر بخوبی جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس کھیل میں رہ کر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اور اپنے کیریئر کوطول دینا ہے تو ون ڈے اور ٹونٹی20 کرکٹ پر ہی فوکس کرنا ہوگا۔پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم اس وقت مشکلات کا شکار ہے۔

محمد عامر کی طرح دوسرے کھلاڑیوں نے بھی ایک ایک کرکے ٹیسٹ کرکٹ کو خیر باد کہنا شروع کر دیا تو مستقبل میں گرین کیپس کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ان مسائل سے بچنے کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ صرف انہیں کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ کی اے اور بی کیٹگری میں جگہ دے جو تینوں طرز کی کرکٹ میں قومی ٹیم کو دستیاب ہوں، صرف ایک یا دو فارمیٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو سی اور ڈی کیٹگری میں رکھا جانا چاہیے۔

انضمام الحق کی طرف سے عہدہ چھوڑنے کے بعد نئے چیف سلیکٹر کے لیے مختلف آراء آنا شروع ہو گئی ہیں، راشد لطیف، عامر سہیل سمیت متعدد سابق ٹیسٹ کرکٹرز سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کی دوڑ میں شامل ہیں،اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو چیف سلیکٹر کا عہدہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے زیادہ تر ارکان ''ڈمی'' ہی میں ہوتے ہیں ، چیف سلیکٹر پہلے سے بنی ٹیموں میں دو، تین تبدیلیاں کر کے نئی ٹیم تشکیل دے دیتا ہے۔

راقم نے کچھ عرصہ قبل ایک سابق سلیکٹر سے سکواڈ کے انتخاب اور درپیش چینلجز کے حوالے سے بات چیت کی تو غیر رسمی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس جاب میں کام کم اور سہولتیں زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہیں،انٹرنیشنل ٹوررز کی بھی کمی نہیں ہوتی، کھلاڑی بھی آپ کے آگے پیچھے ہوتے ہیں، جہاں تک کھلاڑیوں کے انتخاب کی بات ہے تو 16رکنی سکواڈ میں بارہ، تیرہ کھلاڑی تو آٹومیٹک چوائس ہوتے ہیں بس دو، تین کھلاڑیوں کو ٹیم میں ان یا آؤٹ کرنا ہوتا ہے اور ایسا کرتے وقت پاکستان کرکٹ بورڈ حکام کی پسند نا پسند کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اگر دیکھا جائے تو سلیکشن کمیٹی کی ذمہ داری بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

عبدالقادر کی سربراہی میں قائم سلیکشن کمیٹی نے دن رات کام کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو وہاب ریاض، اظہرعلی ،محمد عامر، عمر اکمل اور یاسر شاہ سمیت متعدد باصلاحیت کھلاڑیوں میسر آئے بلکہ ان کی بنائی ہوئی ٹیم بھی تاریخ میں پہلی بار ٹونٹی 20 ورلڈ کپ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی۔ ایک بار پھر ایسی سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جانے کی ضرورت ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر میں موجود اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر ٹیمیں تشکیل دینے کی بجائے گراؤنڈز میں پسینہ بہائیں تاکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو نیا ٹیلنٹ میسرآ سکے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو ٹیلنٹ میں عمران خان، جاوید میانداد، عبدالقادر ، وسیم اکرم،وقار یونس، شعیب اختر، شاہد آفریدی سے صلاحیت میں کسی طرح بھی کم نہیں ہیں، بس انہیں تلاش کرنے اور صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دینے کی ضرورت ہے اور ظاہری بات ہے یہ اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب سلیکشن کمیٹی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ بھی انصاف کرے گی۔

وزیراعظم عمران خان بلاشبہ ملکی اور غیر ملکی مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں، کرپٹ سیاستدانوں اور ٹیکس چور مافیا کے خلاف بھی سرگرم عمل ہیں، عالمی سطح پر پاکستان کے گرتے ہوئے امیج کو بہتر بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے لیکن ان کی اصل پہچان بطور سپورٹس مین ہی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ کرکٹ سمیت دوسری کھیلوں پر بھی خاص توجہ دیں تاکہ پاکستان عالمی سطح پر کھیلوں میں بھی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں