لوکل گورنمنٹ ایکٹ خامیوں سے مبرا نہیں جلد بازی میں منظور کیا گیا

ایکسپریس فورم میں سیاسی و سماجی رہنماؤں اور ماہرین قانون کا اظہارِ خیال


Shehzad Amjad September 19, 2013
را نا ثنا اللہ ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے۔ فوٹو : فائل

پنجاب حکومت نے پرویز مشرف دور میں نافذ کیے جانے والے بلدیاتی نظام کی جگہ ''لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء ''کے نام سے نیا نظام متعارف کروایا ہے۔

ابتدائی طورپر مسلم لیگ ن کی تنظیمی سطح پر اس کے خدوخال پر گفتگو کی گئی۔ متعلقہ محکموں سے آوٹ پٹ حاصل کی گئی ، صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اس پر غور کیاگیا اور مسلم لیگ ن کے قائد وزیر اعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف نے اس کی منظوری دی ۔ جس کے بعد مذکورہ بل کو پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ جہاں ہفتہ بھر اس پر ارکان نے اپنی رائے کا اظہارکیا۔ حکومتی ارکان کے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے وابستہ ارکان نے بھی بل پر سیر حاصل گفتگو کی اور اپنی تجاویز پیش کیں ۔ تاہم انہیں حکومتی ارکان کی طرف سے کوئی پذیرائی نہیں بخشی گئی۔



اسی بل پر اسمبلی ہی میں ایک حکومتی رکن طاہر سندھو نے بھی اعتراض کیا اور اسے آئین سے متصادم قراردیتے ہوئے متعدد ترامیم پیش کیں لیکن حکومت نے انہیں بھی در خورا عتناء نہ جانا اور پنجاب اسمبلی میں تفصیلی بحث مباحثے کے بعد کسی قسم کی تجاویز کو منظورکیے بغیر بل کو من و عن منظور کروا لیاگیا ۔ جس کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں اس بل پر تحفظات کااظہار کیا جاتا رہا جب کہ اپوزیشن کی طرف سے بل کی یک طرفہ طور پر منظوری کوحکومت کی آمرانہ پالیسی کا نام دیا گیا ۔

روزنامہ ایکسپریس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے بارے میں عوام اور قارئین کی آگاہی کے لیے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اﷲ خان ، تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مشیر فواد چوہدری، ڈائریکٹر لوکل کونسلرز ایسوسی ایشن آف پنجاب انور حسین اور ویمن کوآرڈینیٹر آل پاکستان مینیارٹیز الائنس پنجاب نجمی سلیم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ فورم میں بل کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیل نذ ر قارئین ہے۔

رانا ثناء اﷲ خان
(وزیر قانون، پارلیمانی امور و بلدیات پنجاب)


اختیارات کی جتنی منتقلی نئے بلدیاتی ایکٹ میں ہے اتنی پہلے کسی ایکٹ میں نہیں تھی اورکوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ سیکرٹری ایجوکیشن جتنے اختیارات ضلعی ایجوکیشن اتھارٹی کے پاس ہوں گے اور اس اتھارٹی میں اکثریت مقامی عوامی نمائندوں کی ہی ہوگی۔ یہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ فرشتوں نے اسے بنایا ہے، میں نہیں کہتا اس میں ہر چیز ایکوریٹ ہے، اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوسکتی ہیں اس لیے ایک کلاز ہم نے اس ایکٹ میں اضافے کے لئے رکھی ہے۔ جماعتی بنیادوں پر انتخاب سے یونین کونسل کی سطح پر کسی بھی سیاسی پارٹی کے ملوث ہونے پر پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

صوبائی ایوارڈ ایک فارمولے کے تحت ہر سال دیا جاتا ہے جس علاقے میں ترقی زیادہ ہو وہاں رقم تھوڑی کم کردی جاتی ہے۔ اگر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی مشرف کے 2001ء کے ایکٹ کے تحت صحیح ہوئی تھی تو ہمارے ٹاونزکی حالت پہلے سے بہتر کیوں نہیں ہوسکی۔ ٹاونوں کی اہم جائیدادوں کو ناظموں نے لیز پر دیدیا حتیٰ کہ اب کئی علاقوں میں قبرستانوں کیلئے بھی جگہ نہیں ہے۔ جنرل مشرف کے ساتھ جتنے لوگ ضلع یا تحصیل ناظمین تھے یا حکومت میں تھے ان سب کو پوری قوم نے مسترد کردیا اورکوئی ضلع ناظم نہیں جیت سکا۔ عقل مندی کا تقاضا تھا کہ ان اداروں کو اختیارات ریگولیٹ طریقے سے دیئے جاتے تاکہ کرپشن نہ ہوتی اور سیاسی سمجھ بوجھ آنے پر آہستہ آہستہ اختیارات کو بہتر بنایا جاتا۔

مثلاً تعلیمی نظام میں اگر مشرف کے آٹھ سالوں میں اس کے لوکل گورنمنٹ نظام کی بدولت بہت بہتری آئی تو جب ہم نے چارج سنبھالا تو اس کا بڑا برا حال کیوں تھا، ہمارے پانچ سال کام کرنے کے باوجود اس محکمے میں ابھی خامیاں باقی ہیں، اب ہم ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی اس لئے بنا رہے ہیں کہ اب ٹرانسفر، پوسٹنگ، ترقیاتی کاموں کے سب اختیارات ان کے پاس ہوں گے اور لوگوں کو اب ٹرانسفرکے لئے لاہور نہیں آنا پڑے گا۔ وزیر قانون نے کہاکہ اختیارات کی جتنی منتقلی اس بلدیاتی ایکٹ میں ہے اتنی پہلے کسی ایکٹ میں نہیں تھی اور کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ سیکرٹری ایجوکیشن جتنے اختیارات ضلعی ایجوکیشن اتھارٹی کے پاس ہوں گے اور اس اتھارٹی میں اکثریت مقامی عوامی نمائندوں کی ہی ہوگی۔



ضرورت اس امرکی ہے کہ وہاں حکومت کچھ ٹیکینکل اور پروفیشنل لوگوں کو اس اتھارٹی کی مدد کے لئے وہاں بٹھائے گی جو ان کی کیپیسٹی بلڈنگ کرے گی۔ ای ڈی او ایجوکیشن اس اتھارٹی کے ماتحت ہوگا کیونکہ اس میں اکثریت عوامی نمائندوں کی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ایکسپریس نے انتہائی بنیادی اہمیت کے حامل موضوع پر فورم کا انعقاد کیا جس پر ہم اس ادارے کے مشکور ہیں۔ اس نظام پر جتنی تنقید ہوئی میں اس کا احترام کرتا ہوں اور اسے مسترد نہیں کرتاکیونکہ یہ جمہوریت کا حسن ہے اور تنقید کا نہ صرف حق دیا جانا چاہیے بلکہ اس کا احترام کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض دوستوں کو اس نظام کو پڑھنے میں کچھ غلط فہمیاں ہوئیں جن کا میں ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ ضلعی حکومتوں کو ماہانہ بنیادوں پر گرانٹ دینے کی بات نہیں ہے ، ہماری سوچ میں کوئی فتور نہیں ہے۔

یہ طریقہ این ایف سی ایوارڈ کے بالکل مطابق ہے جیسے صوبے کو وفاق سے ملتا ہے اسی طرح صوبے سے ہر ماہ کی یکم کو ضلعی حکومت کو گرانٹ ٹرانسفر ہوجائے گی۔ یہ ایکٹ پنجاب اسمبلی میں بڑی بحث کے بعد لایاگیا ہے لیکن یہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ فرشتوں نے اسے بنایا ہے، میں نہیں کہتا اس میں ہر چیز ایکوریٹ ہے، اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوسکتی ہیں اور ایک کلاز ہم نے اس ایکٹ میں اضافے کیلئے رکھی ہے۔

ضلعی حکومتیں اپنا بجٹ بنانے اور خرچ کرنے میں بھی بااختیار ہوں گی۔ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہئیں یا غیر جماعتی اس میں بھی دونوں اطراف سے مضبوط دلائل ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ایک یونین کونسل کے ہر علاقے سے نمائندے آئیں اور یونین کونسل کی سطح پر بلدیاتی الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ملوث ہونے پر پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا سیاسی ماحول ابھی بہتر نہیں ہوا ورنہ دنیا میں کسی جگہ جنرل الیکشن سے پہلے حکومتیں ختم نہیں ہوتیں اور کہیں بھی عدلیہ الیکشن نہیں کراتی، وہ کونسا ملک ہے جہاں کہتے ہیں کہ فوج کا ایک سپاہی اندر اور دوسرا باہر کھڑا کریں۔

ہم جن کی مثالیں دیتے ہیں ان کو تو اڑھائی سو سال ہوگئے، ہمارے ہاں بھی جوں جوں سیاسی پارٹیاں اور ورکرز اپنے رویے بہتر کرتے جائیں گے اسی طرح بہتری ہوتی جائے گی۔اگر جماعتی بنیادوں پر انتخابات میں شیر کا نشان سو فیصد صحیح بھی جیت گیا تو لوگ مانیں گے نہیں ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا اعلان کیا تو میں دیکھتا ہوں وہاں تیر کا نشان کیسے نہیں جیتتا۔ میں کہتا ہوں تحریک انصاف والے ہم پر تو یہاں غیر جماعتی انتخابات کرانے پر تنقید کررہے ہیں لیکن میں بتادوں کہ خیبرپختونخوا میں یہ خود ویلج کونسل تک انتخابات غیر جماعتی کرانے جا رہے ہیں۔

اعجاز چوہدری
(صدر تحریک انصاف پنجاب)



پوری دنیا میں بلدیاتی نظام جمہوریت کے لئے نرسریوں کا کام کرتے ہیں اور پاکستان کا آئین بھی تقاضا کرتا ہے جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کرا کر اختیارات نچلی سطح پر منتقل کئے جائیں۔ بلدیاتی نظارعام آدمی کے ریلیف کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ عام آدمی کو ترقیاتی کام اس کے گھر کی دہلیز تک صرف بلدیاتی نظام کے ذریعے ہی پہنچائے جاسکتے ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق بلدیاتی نمائندوں کو مکمل مالی، انتظامی اورسیاسی اختیارات دیے جانے چاہئیں مگر پنجاب حکومت کی طرف سے پاس کرائے گئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013 میں یہ اختیارات نچلی سطح پر بلدیاتی نمائندوں کو تقسیم نہیں کئے گئے بلکہ حکومت پنجاب نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں۔



بل میں بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ سراسر بد نیتی پر مبنی ہے بلکہ مسلم لیگ(ن) کے منشور کی خلاف ورزی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی کی بجائے جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سابق جنرل پرویزمشرف کے دور میں بنائے جانے والے بلدیاتی نظام کے تحت منتخب ناظمین پر سابق پنجاب حکومت نے کرپشن کے بہت سے الزامات لگائے مگر ایک بھی الزام نہ تو ثابت ہوا اور نہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ الزامات صرف الزامات ہی رہے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وہ نظام موجودہ بلدیاتی ایکٹ سے بہت بہتر تھا مگر پھر بھی اس سسٹم کوختم کرکے اس سے بھی پرانے بلدیاتی نظام کو نیا لبادہ پہنا کر رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو سراسر غلط ہے۔

لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں دیہی اور شہری علاقوں کی الگ الگ تقسیم کی گئی ہے اور یہ تاثر دیا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں زیادہ محرومیاں اور مسائل ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علاقہ دیہی ہو یا شہری مسائل سب کے ایک جیسے ہی ہیں۔ پوری دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ دیہی اور شہری علاقوں کو الگ الگ تقسیم کردیا جائے بلکہ پوری دنیا میں دیہی اور شہری علاقوں کیلئے ایک جیسا ہی سسٹم ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بنے ہوئے ابھی تین ماہ بھی نہیں ہوئے مگر دونوں حکومتیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

پنجاب حکومت کو بلدیاتی انتخابات میں اپنی کاکردگی کی وجہ سے واضح شکست نظر آرہی ہے اس لئے انہوں نے بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پرکرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ بعد میں منتخب نمائندوں کو خریدا جاسکے۔ ہم اس فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور ہماری پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت پنجاب کے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جائیں گے اور امید کرتے ہیں کہ عدالت سے فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا۔ موجودہ حکمران مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیںہر چیز پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے اور (ن) لیگ کی حکومت نے جتنی مہنگائی کی ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ جمہوریت کی بات کرنے والی مسلم لیگ (ن) آج بھی غیر جمہوری فیصلے کر رہی ہے اور غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرانا اس کا ایک غیر جمہوری اقدام ہے جسے ہم تسلیم نہیں کرتے۔

فواد چوہدری
(سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مشیر)



لوکل گورنمنٹ نظام میں پنجاب حکومت نے یونین کونسل نمائندوں کی تعداد کم کرکے یعنی رائٹ سائزنگ کرکے اچھا اقدام کیا کہ سات کونسلرز ہونے چاہئیں اور عورتوں اور کسانوں کی نمائندگی کا جواز اس لیے نہیں بنتا کہ اب ڈائریکٹ بھی عورتوں کو حصہ لینے کا حق حاصل ہے اسی طرح تحصیل کونسلوں کو ختم کرکے اچھا اقدام کیا۔ نام بدل کر بھی اچھا کیا ، پرویزمشرف دورکا مقامی حکومتوں کا نظام اچھا تھا لیکن سابق نظام میں ناظم کے لفظ سے ایسے لگتا تھا کہ شائد پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا کوئی ناظم بن گیا ہو حالانکہ ساری دنیا میں کونسلرز ، چیئرمین اور میئرزکہلاتے ہیں۔



یہ ایکٹ بدنیتی پر مبنی ہے یعنی وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون و مقامی حکومت نے ایکٹ بناتے ہوئے قسم کھائی ہے کہ کوئی اختیار ہم دونوں میں سے نیچے نہ جائے کیونکہ یہی دونوں صوبہ چلاتے ہیں۔ مشرف دورکا مقامی حکومتوں کا دور بڑا اچھا تھا لیکن اس میں خامی یہ تھی صوبوں کے تمام اختیارات اضلاع کو دیدیئے لیکن فیڈریشن نے اپنا کوئی اختیار صوبوں کو نہیں دیا یعنی صوبائی ڈیوولیوشن کردی لیکن نیشنل ڈیوولیوشن نہیں کی۔ پیپلزپارٹی کے دور میں زبردست کام ہوا کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اٹھارہ وزارتیں فیڈریشن سے صوبے کی طرف آگئیں۔ پرویز مشرف دور میں پہلے 36صوبائی محکمے صوبے سے لے کر اضلاع کو دیدیئے جن میں ریونیواور پولیس بھی شامل تھی تاہم چودھری پرویزالٰہی دور میں جو ترمیم ہوئی پولیس اور ایک دو مذید کو صوبائی حکومت کے ماتحت رکھا گیا جس سے یہ تعداد 28رہ گئی اور یہ جو محکمے ہیں ان میں گلیاں، نالیاں صاف کرنے کے سوا تمام محکمے صوبائی حکومت نے اپنے پاس رکھ کر لوکل گورنمنت نظام کا مقصد ہی ختم کردیا ۔



یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 17اور140Aکی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ سیاسی جماعتوں کو باورکراتا ہے کہ آپ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے ۔ بینظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا نہیں جاسکتا۔ 140اے حکومتوں کو تین چیزوں پر باونڈ کرتا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو ، فنانشنل اور سیاسی پاورز نیچے اضلاع کو دینا تھیں یعنی پیسہ ان کے پاس ہے اور انہیں اس کے استعمال کا اختیار بھی ہے یا نہیں۔ ضلعی حکومتوں کے پاس ٹیکسز لگانے کا کوئی اختیار نہیں ، ہمارے ہاں ٹیکس لگانے کا اختیار بھی صوبائی حکومت کے پاس ہے حالانکہ دنیا کے تمام ماڈرن ملکوں میں حتیٰ کہ تہران جیسے شہر میں ٹیکس اکٹھے کرنے اور انہیں خرچ کرنے کا اختیار مقامی حکومت کے پاس ہے اور الیکشن تمام کے تمام میئرز کے ہر جگہ ڈائریکٹ ہوتے ہیں ۔

ہمارے ہاں تمام ڈسٹرکٹ کونسلز ان ڈائریکٹ آئیں گی۔ اس ایکٹ میں یونین کونسل کے پاس اختیارات ضلع کونسل سے بظاہر زیادہ ہیں۔ ضلع کونسل تو نالیاں وغیرہ بھی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی اجازت کے بغیر صاف نہیں کراسکتی ، اگر اس نظام میں عوامی نمائندوں کو کچھ کرنے کا اختیار نہیں دے رہے تو پھر اس نظام کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس نظام کی ڈرافٹنگ میں بڑی غلطیاں ہیں ، اس نظام میں حصہ لینے والے کے لئے دہری شہریت اور 25 سال کی پابندی صحیح نہیں ایک تو ہر ووٹر جو 21سال کا ہے اسے بھی حصہ لینے کا مستحق ہونا چاہیے، دوسرا دوہری شہریت والے شخص کو بلدیاتی انتخاب لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ اسے کوئی لالچ نہیں ہوگا اور وہ باہر سے پیسہ لاکر یہاں خرچ کرے گا، قومی اور صوبائی انتخابات میں چلیں پابندی لگالیں کیونکہ دفاعی معاملہ ہوتا ہے۔

اسی طرح صحت وتعلیم کا نظام پوری دنیا میں لوکل گورنمنٹ سے باہر نہیں ہے جبکہ ہمارے ہاں صوبائی حکومت یہ چلا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ مانا چوبیس گھنٹے لگن سے کام کرتے ہیں اور بڑے جینیئس ہوں گے لیکن مظفرگڑھ کے مسائل کا وہ اتنے بہتر انداز میں حل نہیں کرسکتے جتنا کہ مظفرگڑھ کا آدمی اس کا بہتر حل نکال سکتا ہے۔ یہاں ساڑھے تین سال سے آپ نے صوبائی فنانشنل ایوارڈ نہیں دیا۔ لودھراں، وہاڑی، خانیوال جیسے پسماندہ اضلاع کیلئے این ایف سی کے مطابق گرانٹس دی جانی چاہئیں۔ اسی طرح ماہانہ بنیادوں پر ضلعی حکومتوں کو گرانٹ جاری کرنے کا مطلب ہے کہ وہ آپ کی کنیزیں بن کر رہ جائیں۔ اگر تو اختیارات صوبے سے نکال کر ضلعی سطح پر دیں گے تو اس نظام کا صوبے کو فائدہ ہوگا ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔

انور حسین
(ڈائریکٹر لوکل کونسلرز ایسوسی ایشن آف پنجاب)



حکومت پنجاب مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء پاس کیا اور سول سوسائٹی کو اس پر بحث کرنے کا موقع دیا جس سے سول سوسائٹی کو باقاعدہ اپنی تجاویز دینے کا موقع ملا۔ اس قانون پر بات کرنے کیلئے آئین پاکستان کے دو آرٹیکلز آرٹیکل 32اور آرٹیکل 140کو سامنے رکھنا ضروری ہے ان آرٹیکلز کو سامنے رکھنے سے اس قانون میں موجود کمیوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32 میں خواتین کے حقوق کی بات کی گئی ہے۔ اس کے تحت خواتین کو برابر کے حقوق دیئے گئے ہیں مگر اس بل میں اس کے الٹ کیا گیا ۔

ملک میں پہلے سے موجود بلدیاتی نظام میں یونین کونسلز اور ضلعی حکومتوں کے قیام میں 6 مخصوص نشستیں رکھی گئی تھیں جن میں خواتین کیلئے 2نشستیں رکھی گئی تھیں اور اس سے خواتین کو مقامی حکومتوں میں مناسب نمائندگی مل جاتی تھی مگر اس بل میں مخصوص نشستوں کو اوپن کردیا گیا ہے اور خواتین کیلئے کوئی مخصوص نشست نہیں رکھی گئی اس سے خواتین کا منتخب ہونا مشکل ہوجائے گا کیونکہ عام انتخاب میں خواتین کی شمولیت کم ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی حکومتی نظام میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔



دوسرا آرٹیکل 140ہے جس کے مطابق عوام کے منتخب نمائندے ہونے چاہیئں اور ان کا تعلق کسی پارٹی سے ہونا چاہیے ، مگر بلدیات ایکٹ 2013ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے آرٹیکل 140کی خلاف ورزی ہوتی ہے ان دونوں آرٹیکلز کو سامنے رکھے بغیر بلدیاتی بل پاس کرنے سے آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے جبکہ آئینی طور پر ملک کے اندر کوئی بھی قانون آئین کے فریم ورک کے اندر رہ کر ہی بنایاجاسکتا ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر باہمی رضامندی سے منظور کیا تھا اور اس کے آرٹیکلز 6، 10اور 29موجود ہیں جن میں وعدہ کیا گیا تھا کہ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو مکمل اختیارات دیئے جائیں گے اور مکمل اختیارات کے تحت یہ قانون اس انداز میں بنایا جائے گا کہ اس میں بار بار تبدیلی نہ لانی پڑے مگر بلدیاتی ایکٹ 2013ء میں یہ بات پوری نہ ہوسکی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے آرٹیکل 10میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اس بل میں یہ بھی نہ ہوسکا اور انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں گے۔

چارٹر آف ڈیموکریسی میں تیسرا وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ جنرل الیکشن کے بعد 90روز کے اندر بلدیاتی الیکشن لازمی کرائے جائیں گے مگر اس وقت حکومت کو قائم ہوئے 90روز ہو چکے ہیں مگر ابھی تک بلدیاتی انتخابات دور دور بھی نظر نہیں آرہے اور امکان یہی ہے کہ اگلے سال کے شروع میں ہی ممکن ہوسکیں گے۔ اس عمل سے عام آدمی کا سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور وہ کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے کہ کس پارٹی پر اعتبار کرے اور کس پر نہ کرے اور سیاسی پارٹیوں کے بارے میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ میں نے سندھ کے بلدیاتی ایکٹ کا بھی مطالعہ کیا ہے مگر وہ بالکل بے کار ایکٹ ہے اس کے مقابلے میں پنجاب کا بلدیات ایکٹ 2013ء قدرے بہتر ہے۔


نجمی سلیم
(ویمن کوآرڈینیٹر آل پاکستام منیارٹیز الائنس پنجاب)



بلدیاتی ایکٹ 2013ء ایک اچھا موضوع ہے اور اسے زیر بحث لاکر اس میں موجود خامیوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ میں خود پنجاب اسمبلی کی رکن رہ چکی ہوں اس لئے میں کہہ سکتی ہوں کہ اس بل کو پیش کرنے میں بہت جلدی کی گئی اور جلد بازی میں ہی منظور کرایا گیا۔ اس بل کی منظوری میں اپوزیشن کا کوئی کردار نظر نہیں آتا کیونکہ بل پاس کرتے وقت اپوزیشن کے اعتراضات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ خاتون اور غیر مسلم ہونے کے ناتے میں اس بل میں خواتین اور اقلیتوں کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے گفتگو کروں گی۔

پاکستان کی کل آبادی کا 51فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے مگر اس بل میں مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی بجائے کم کردی گئی ہے۔ سابق بلدیاتی نظام میں یونین کونسل اور ضلعی حکومت میں 6مخصوص نشستیں رکھی گئی تھیں جن میں 2خواتین کیلئے تھیں اب ان تمام 6سیٹوں کو اوپن کردیا گیا ہے۔ اس سے مقامی حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی کیونکہ اوپن طریقہ انتخاب میں خواتین کی شمولیت بہت کم ہوتی ہے۔



دوسرا یہ کہ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانا بھی سراسر زیادتی ہے کیونکہ آزاد حیثیت میں جیتنے والا کوئی ممبر ہمیشہ حکومتی پارٹی میں جانے کو ترجیح دے گا کسی اور پارٹی میں نہیں جائے گا اس سے کرپشن میں اضافہ ہوگا اور ہارس ٹریڈنگ بھی بڑھے گی۔ غیر مسلموں کے حوالے سے یہ ہے کہ پہلے غیر مسلم اپنے نمائندے براہ راست انتخاب کے ذریعے چنتے تھے مگر اب انہیں چیئرمین کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ یہ اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اقلیتیں براہ راست اپنے نمائندے نہ چن سکنے کے باعث ان کی نمائندگی ختم ہوجائے گی اور من پسند لوگوں کو منتخب کرلیا جائے گا۔



ہم تو عرصے سے کوشش کررہے ہیں کہ اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے ایک عام نمائندوں کیلئے اور دوسرا اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کیلئے مگر اس بل میں اقلیتوں کے ایک ووٹ کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔اگر اقلیتی نمائندوں کو محدود کردیا گیا اور ان کے براہ راست انتخاب کو ختم کردیا گیا تو اس سے ہم آہنگی میں کمی آئے گی۔ میں درخواست کروں گی کہ ہم آہنگی میں اضافے کیلئے بلدیات نظام میں اقلیتوں کو اپنے اقلیتی نمائندوں کو براہ راست منتخب کرنے کا موقع دیاجائے اس سے اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ ہوگا اور اقلیتیں خود کو سیاسی نظام میں کردار ادا کرنے کے قابل سمجھیں گی اور سب سے بڑھ کر اقلیتوں کے ساتھ ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔