سرکلر ریلوے کب چلے گی
سرکلر ریلوے کی کہانی کراچی کے انفرا اسٹرکچرکی پسماندگی سے منسلک ہے۔
کراچی کے شہریوں کا اس صدی میں بھی سستی، معیاری اور ماحول سے مناسب ٹرانسپورٹ کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے سندھ کی حکومت نے سرکلر ریلوے کی پٹری پر تعمیر ہونے والی عمارتوں کو منہدم کرنے کا کام مکمل کیا مگر ابھی تک وفاقی حکومت سرکلر ریلوے کو فعال کرنے پر تیار نہیں۔
اب حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ ماس ٹرانزٹ اسکیم کا یلو لائن پروجیکٹ معاشی بحران کی بناء پر شروع نہیں ہوسکے گا۔ صدر پاکستان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے شرکاء کو یہ اطلاع دی گئی کہ اورنگی سے گرومندر تک تعمیر ہونے والی گرین لائن کا منصوبہ مارچ 2020ء تک مکمل ہوجائے گا۔
سرکلر ریلوے کی کہانی کراچی کے انفرا اسٹرکچرکی پسماندگی سے منسلک ہے۔ جب 60ء کی دہائی میں کراچی میں صنعتوں کا پھیلاؤ ہوا تو نئی بستیاں آباد ہوگئیں۔اسی زمانے میں سندھ انڈسٹریل ایریا سائٹ کے ساتھ محنت کشوں کی بستیاں پٹھان کالونی اور فرنٹیئر کالونی وغیرہ آباد ہوئیں۔ پاک کالونی اور اطراف کی بستیوں کی آبادی بڑھ گئی۔
گلشن اقبال سے لے کر لانڈھی تک نئی بستیاںبنیں ، لانڈھی میں بڑے بڑے صنعتی ادارے قائم ہوئے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے دنیا کے جدید شہروں کی طرح غریبو ں کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ریل گاڑی کے استعمال کا فیصلہ کیا تو سرکلر ریلوے قائم ہوئی۔ سرکلر ریلوے سے کیماڑی سے ایک طرف پپری تک مین ریلوے لائن پر چلنے لگی تو دوسری طرف سٹی اسٹیشن سے وزیر منشن، سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد اورگلشن اقبال سے منسلک ہوتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہوئی۔ نچلے اور متوسط طبقے کو ایک نئی تیز رفتار ٹرانسپورٹ کی سہولت مل گئی۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں سرکلر ریلوے کا معیار گرنے لگا۔ ریل گاڑیوں کا لیٹ ہونا، انجن خراب ہونا معمول کا عمل بن گیا۔ سرکلر ریلوے کی کارکردگی میں انحطاط ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے منی بس کو پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چلانے کے لیے بیوروکریسی کو تیارکرلیا۔ سندھ حکومت نے سرکلر ریلوے کی خرابیوں کی جانب وفاقی حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
جنرل ضیاء الحق حکومت نے ریلوے کی معیشت کوکمزورکردیا تھا، یوں سرکلر ریلوے حکومتوں کی عدم توجہ کی وجہ سے سسکتی ہوئی ختم ہوگئی۔ غریبوںکو برسوں منی بسوں میں مرغا بن کر سفر کرنا پڑا۔ بشری زیدی حادثے کے بعد شہر میں ہونے والے لسانی فسادات کی بناء پر منی بسوں سے نجات ملی مگر زیادہ نشستوں والی چھوٹی منی بسوں میں لٹک کر سفر کرنا ان کا مقدر بن گیا۔ سرکلر ریلوے کے بند ہونے سے پولیس ، بلدیاتی اداروں کے اہلکاروں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ ریل کی پٹری پر تھانے، اسکول اور سرکاری دفاترکے ساتھ بستیاں آباد ہوگئیں۔
لینڈ مافیا والوں نے ان غریبوں سے رقم لی اورانھیں ملکیت کے کاغذات تھما دیے گئے۔ بجلی،گیس اور واٹر بورڈ والوں نے کنکشن دے دیے۔ 1988ء کے بعد سے جب پھر سرکلر ریلوے کی بحالی کا معاملہ آیا تو لینڈمافیا کی آباد کردہ بستوں کو ہٹانے کا معاملہ رکاوٹ بن گیا۔ جاپان کا ادارہ جائیکا سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ شروع کرنے کے لیے تیار تھا مگر حکومت سندھ نے ریل کی پٹری کے سروے کے لیے متعلقہ افسروں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ تک سرکلر ریلوے کا تجربہ ہوا مگر ناقص منصوبہ بندی کی نذر ہوگیا۔
میاں نواز شریف کے دور میں چین کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا تو یہ اعلانات ہوئے کہ لاہورکی اورنج ٹرین اورکراچی سرکلر ریلوے اس منصوبے کا حصہ ہیں، مگر جب سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ 2017ء کے اختتام پر چین کے دورے سے واپس آئے تو یہ بری خبر بھی ساتھ لائے کہ چین اس منصوبے میں دلچسپی کھو بیٹھا ہے۔
گزشتہ 30 برسوں کے دوران برسر اقتدار حکومتوں نے کراچی میں عوام کو سستی پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرنے میں قطعی دلچسپی نہیں لی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے معاملہ پر توجہ دی ۔ایمپریس مارکیٹ کی بحالی اور شہرکے دیگر علاقوں سے تجاوزات کے خاتمہ کے لیے آپریشن ہوا مگر سرکلر ریلوے کی فائل کہیں دب گئی۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس گلزار نے سرکلر ریلوے کے مقدمہ کی سماعت کی۔ جسٹس گلزار نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت اور حکومت سندھ سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے اس کی پٹری پر بنی ہوئی عمارتوں کو منہدم کیا جائے اور پندرہ دن میں یہ کام مکمل کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے معزز جج کے احکامات کی پیروی وفاقی وزیر ریلوے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کے لیے لازمی تھی، یہی وجہ ہے کہ پہلی دفعہ ریلوے اور بلدیہ کراچی نے آپریشن شروع کیا۔ سندھ حکومت نے تجاوزات کو منہدم کرنے والے عملے کی سیکیورٹی کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔اس آپریشن کی زد میں تھانے اور اسکول آئے، پھر مختلف علاقوں میں پٹری پر آباد بستیوں کو منہدم کرنے کا مرحلہ آیا۔ سول سوسائٹی کے اراکین اس آپریشن کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ سول سوسائٹی کے بعض اراکین کا کہنا تھا کہ جب تک قابضین کی آبادکاری نہیں ہوجاتی سرکلر ریلوے کی بحالی کا آپریشن معطل کرنا چاہیے۔ ریلوے کی زمین پر قبضہ کرنے والے ان ہزاروں افراد کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے تھا۔ان کے پاس کوئی متبادل جگہ نہیں تھی۔
ایک انسانی المیہ کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے بعض دانشوروں نے یہ مفروضہ بنایا تھا کہ حکومت سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ وہ یہ قیمتی زمین خالی کراکے فروخت کردے گی اور سرکلر ریلوے پھر بھی نہیں چلے گی۔ ایسا ہی مفروضہ لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے وقت قائم کیا گیا تھا۔ یوں یہ لوگ چند ہزار قابضین کے مفاد کے لیے لاکھوں افراد کو اچھی ٹرانسپورٹ کے حق سے محروم کرنے کے لیے تیار تھے۔ ریلوے لائن کے دونوں اطراف بنے ہوئے مکانات کو توڑنے کی بھی خوب مخالفت ہوئی۔
ایک ایماندار کارکن کو یہ خطرہ تھا کہ ان غریبوںکے گھروں کو مسمار کرنے کے باوجود سرکلر ریلوے نہیں چلے گی مگر اس دفعہ بیوروکریسی نے منظم انداز میں کام کیا اور سرکلر ریلوے کی پٹری پر تعمیر ہونے والی تنصیبات مسمارکردی گئیں، مگر پھر ریلوے کے وزیر شیخ رشید کا ایک بیان اخبارات میں شایع ہوا کہ سرکلر ریلوے چلانے کی ذمے داری سندھ کی حکومت کی ہے۔ ریلوے وفاق کے پاس ہے اور کسی بھی صوبے کے پاس ریل گاڑی چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
سندھ کے ٹرانسپورٹ کے وزیر نے اپنے بیان میں یہ بات دھرائی۔ یہ خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلزکی شہ سرخیاں بنیں کہ وفاق نے حکومت سندھ کو دیے جانے والے فنڈز روک لیے ہیں جس کی بناء پر کراچی کے ماس ٹرانزٹ پروگرام متاثر ہونگے اور یلو لائن کی تعمیر اس مالیاتی سال میں شروع نہیں ہوسکے گی۔ وفاقی حکومت کی عدم توجہ اور سندھ کی حکومت کے مالیاتی بحران کا نشانہ کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بن رہا ہے۔
تجاوزات کے خاتمے کے آپریشن کو مکمل ہوئے کئی ماہ ہوچکے ہیں۔ سو ل انجینئرنگ سے وابستہ پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ کیماڑی سے پپری کی سرکلر ریلوے فوری طور پر شروع ہوسکتی ہے۔ کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے پریس کلب میں ایک نشست میں کہا کہ سرکلر ریلوے کے فعال ہونے میں جتنی دیر لگے گی لینڈ مافیا اتنی دیر فعال رہے گی اور سرکلر ریلوے کی پٹری پر تجاوزات قائم ہونے لگیں گے۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے سرکلر ریلوے اور ٹرام وے سروس ختم کرائی تھی۔ اس مافیا نے کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (K.R.T.C) اور سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (S.R.T.C) کو ناکام بنایا، یوں شہری منی بسوں میں لٹکنے پر مجبور ہوئے۔
90 کی دہائی سے کراچی کی بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال سے بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا شعبہ شدید متاثر ہوا۔ عام آدمی چنگ چی رکشہ اور موٹر سائیکل پر سفرکرنے پر مجبور ہوا جس کی بناء پر حادثات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ ساری دنیا کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کراچی کے عوام کا بھی بنیادی حق ہے۔
یہ حق سرکلر ریلوے ، ٹرام وے سروس اور بڑی بسوں کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتا ہے، مگر سرکلر ریلوے کے فعال ہونے کے امکانات کم ہونے، گرین لائن بس کا منصوبہ وقت پر مکمل نہ ہونے اور یلو لائن کا منصوبہ شروع نہ ہونے کا سارا نقصان عام آدمی کو ہوگا۔ پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کا موجودہ نظام آدھے شہرکو سفر کی سہولت فراہم کرتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکلر ریلوے کو ایک طرف سپرہائی وے، دوسری طرف کورنگی کریک اور تیسری طرف حب تک توسیع دی جائے مگر اب کراچی کے شہریوں میں یہ احساس تقویت پارہا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو جان بوجھ کر پبلک ٹرانسپورٹ کے بہتر نظام سے محرو م کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کو اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔