اک نیا فلسطین

کشمیریوں کی بھارت سے واحد اُمید بھی دم توڑ گئی


کشمیریوں کی بھارت سے واحد اُمید بھی دم توڑ گئی

لفظ ہمیشہ کھوکھلے رہے ہیں، بے کارو بے مصرف اگر ان لفظوں کے پیچھے اخلاص نہ ہو، بس نرے لفظ جو سماعت کو مضطرب و آزردہ کرتے ہیں۔

خواب بھی تو ایک لفظ ہی ہے لیکن بس لفظ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے، اور جب ایسا ہو تو پھر رہ ہی کیا جاتا ہے سوائے مایوسی، آزردگی اور بے بسی کے۔ انسانی حقوق، حق خود ارادیت، تحریر و تقریر کی آزادی اور نہ جانے کیا کیا لفظ بس لفظ! اور پھر ان کی جگالی۔

اقوام عالم بھی اک لفظ ہے، کیا کہیں، لفظ قاتل بھی ہے، لفظ مقتول بھی۔ بس ایک بیان جاری کیا کہ جناب! ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، تو کرتے رہیے، اس سے پہلے کیا ہوا ہے جو اب ہوگا کہ مفادات تو کہیں اور سے وابستہ ہیں ۔ کیا سب یہ نہیں جانتے کہ

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد

چلیے ہم بھی بس لفظوں سے کھیل رہے ہیں، جو ہوا، کیا بات کی جائے اس پر سوائے اس کے، وہ اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے۔ لیکن اقوام عالم بینا ہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ ؟ نہیں معلوم، بس کھوکھلے لفظوں کی جگالی۔

دیکھ لیجیے اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتی تھی اسلامی ممالک کی تنظیم یعنی ''oh i see'' نے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بل کہ اس سے آگے بڑھ کر عالمی برادری پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی ذمے داری ادا کرے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال سمیت وہاں پیرا ملٹری فورسز کی تعیناتی اور انڈین فوج کی جانب سے شہریوں کو ممنوعہ کلسٹر بموں سے نشانہ بنائے جانے پر انتہائی تشویش ظاہر کی ہے۔

انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈووال نے کچھ دن پہلے ہی سری نگر کا دورہ کیا تھا اور پھر کشمیر میں اچانک ہزاروں مزید فوجیوں کو تعینات کردیا۔ ریاست میں انڈین فورسز کی سرعت کے ساتھ تعیناتی سے یہ افواہیں گرم تھیں کہ مرکزی حکومت ریاست کو خصوصی درجہ دینے والی آئینی شق کو ختم کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ اور پھر ہوا بھی ایسا ۔ اور مودی سرکار نے کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ڈھٹائی اور بے شرمی سے اعلان کردیا۔

بھارت کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے پیر کو انڈین پارلیمان کے ایوان بالا میں کشمیر کو نیم خودمختاری دینے والے آرٹیکل 370 ختم کرنے کی تجویز پیش کی جس پر صدرِمملکت پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں۔ انڈین آئین کا آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو دیگر انڈین ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ خودمختاری دیتا تھا اور یہ وہی شق ہے جس کی بنیاد پر یہ ریاست انڈیا کے ساتھ شامل ہوئی تھی۔

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے بعد ہوگا کیا؟ امیت شاہ نے جو تجویز پارلیمان میں پیش کی اس کے مطابق جموں و کشمیر کی تنظیم نو کی جائے گی اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر اب مرکز کے زیرانتظام ریاست یا وفاقی اکائی شمار ہوگی جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی اور وہاں گورنر تعینات کیا جائے گا جب کہ لداخ مرکز کے زیرانتظام ایسا علاقہ ہوگا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

بھارت نے اپنے گرو اسرائیل سے جو سبق پڑھا اس پر عمل پیرا ہوگیا۔ اس کے اقدامات سے ایک نیا فلسطین وجود میں آگیا۔ کشمیریوں کا خدشہ بجا ہے کہ اگر آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرگئی اور جو واقعی اب گرگئی ہے تو کشمیری فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے کیوں کہ بڑی تعداد میں غیرمسلم آباد کار یہاں بس جائیں گے جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔

کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی راہنما محبوبہ مفتی نے اس اعلان کے بعد اپنی ٹویٹ میں کہا ہے ''آج کا دن انڈیا کی جمہوریت میں سیاہ ترین دن ہے۔'' ان کا کہنا ہے:''جموں و کشمیر کی قیادت کی جانب سے سنہ 1947 میں دو قومی نظریے کو رد کرنا اور انڈیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ بیک فائر کر گیا ہے۔ انڈیا کی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا غیرقانونی اور غیرآئینی ہے جس سے انڈیا جموں و کشمیر میں قابض قوت بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کے برصغیر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ انڈیا کی حکومت کے ارادے واضح ہیں، وہ جموں و کشمیر کے علاقے کو یہاں کے عوام کو خوف زدہ کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انڈیا کشمیر کے ساتھ کیے وعدوں پر ناکام ہو چکا ہے۔

اس وقت وادی میں دفعہ 144 نافذ ہے جب کہ حکام نے نیشنل کانفرنس کے راہ نما عمرعبداﷲ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی اور جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو ان کے گھروں میں نظربند کر دیا ہے۔ دفعہ 144 کے تحت لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے اور وادی کے تمام تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سری نگر سمیت پوری وادی کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

دھونس، دھمکی ہی نہیں قہر و جبر اور ایسا کہ قیامت کہیں جسے۔

چلیے ہم بھی اس درندگی، بے حسی، سفاکی کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے اپنا فرض ادا کیا۔ رہے نام اللہ کا۔

فصیل چاٹنے والے مجھے بتائیں ندیم

کہیں زمین پہ یہ آخری صدی تو نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں