محبتوں کا قرض
اب ہماری دوستیاں اور دلی اظہار کے اعتبار سے موبائل فونز پر گپ شپ اور مجلسوں میں سلام دعا کی حد تک محدود ہوکررہ گئے ہیں
کسی ایسی محفل کا احوال لکھنا جس کے مہمانِ خصوصی آپ خود ہوں ، ایک طرح کا خودنمائی، خودستائی ، ظاہری نمائش اور شوبازی کے علاقے کی چیز کہلاتا ہے کہ لاکھ احتیاط اور انکسار کے باوجود اس میں کہیں نہ کہیں ''میں '' کی جھلک آہی جاتی ہے، سو اُس کی پیشگی صورت کے ساتھ میں اس حوالے سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ بدقسمتی سے اب ہماری دوستیاں اور دلی اظہار کے اعتبار سے موبائل فونز پر گپ شپ اور مجلسوں میں سلام دعا کی حد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اور اس عمل میں وہ''محفل بازی'' اور ''مکالمہ'' کہیں گُم ہوگئے ہیں جو اصل میں محبت کی جان اور اس کی تازگی کو قائم رکھنے کا بہانہ اور ذریعہ ہوتے ہیں سو چار اگست کی رات کو میری75ویں سالگرہ کے حوالے سے ایک بینکوئٹ ہال میں جو احباب جمع ہوئے اور جس محبت، یگانگت ، بے تکلفی اور تجدید تعلقات کی فضا میں ہم نے دو تین گھنٹے گزارے اس کی محبتوں کا قرض اس لیے بھی اظہار چاہتا ہے کہ اس مختصر دورانیے نے کم و بیش گزشتہ پچاس برسوں کو ایک بار پھر سے زندہ کردیا ہے۔
کئی ایسے احباب جو ہر روز ملا کرتے تھے برسوں بعد ایک چھت تلے یکجا ہوئے اُن کی آنکھوں اور باتوں میں محبت اور پشیمانی کی جو ملی جلی کیفیت تھی اُس کا لطف الفاظ میں شائد بیان ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک لمحے کے لیے ایک عجیب سا خیال ذہن میں کوندا کہ اگر اس محفل میں وہ سب پیارے جو اب رفتگان کی فہرست کا حصہ بن چکے ہیں اور وہ چند مہربان جو کسی نہ کسی وجہ سے اس محفل میں شامل نہیں ہوسکے اگر وہ بھی یہیں کہیں ہوتے تو یہ منظر ایک ایسی انوکھی اور جاودانی کیفیت کا حامل ہوتا جہاں زماں اور مکاں کی تمام سرحدیں مٹ جاتی ہیں اور رب کریم کی اپنے بندوں پر رحمت اور اُن سے محبت حقیقت اور مجاز کو ایک ہی سکے کے دو رُخ بنا دیتی ہے۔
یہ احساس کہ زندگی کے اس سفر میں مجھے کیسے کیسے ہنر مند، گُنی اور تخلیقی لوگوں کی رفاقت اور محبت نصیب رہی ہے اپنی جگہ پر رُوح پرور اور خوشگوار تو تھا ہی مگر یہ سوچ کر دل و دماغ کو مزید فرحت اور تقویت ملی کہ ربِ کریم نے ہمارے وطن کو اپنی دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ کیسے کیسے اچھے انسانوں سے بھی نوازا ہے جن کی یہ محفل صرف ایک مختصر سا تعارف اور استعارا تھی، اس محفل کا اہتمام میرے بچوں روشین عاقب،تحسین ناصر اور علی ذی شان نے مل کر کیا تھا لیکن اس کے عملی انتظامات کی ساری ذمے داری علی ذی شان کے سر تھی اور اُس نے اسے اس اچھے احسن اور باوقار طریقے سے نبھایا کہ ہر مہمان نے اُس کو خصوصی طور پر شاباش دی، میرے دونوں داماد عاقب انور اور ناصر منیف قریشی اور بہو رابعہ علی بھی اس داد کے حقدار تھے مگر پس پردہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ تعریف براہ راست وصول نہیں کرسکے جب کہ پہلے سے طے شدہ مصروفیات اور زمینی فاصلوں کی وجہ سے جو احباب شامل نہ ہوسکے۔
اُن کی فہرست بھی خاصی طویل ہے لیکن اُن سب کی خواہش کے احترام میں، میں انھیں بھی اس محفل کا حصہ سمجھتا ہوں اور محبتوں کے اس قرض میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں البتہ جن مہربانوں نے تشریف لاکر عزت افزائی کی ان میں ادب ،ڈرامے ، فنون لطیفہ اور ذاتی دوستی کے حوالے سے یہ محترم،معزز اور پیاری ہستیاں شامل ہیں، اگر کسی کا نام رہ جائے تو اسے میرے اس حافظے کا لائسنس اور رعایت درکار ہوگی جو کسی بھی 75 ویں سالگرہ بنانے والے شخص کا فطری اور قانونی حق بنتا ہے۔ سب سے پہلے میں سید سرفراز احمد شاہ صاحب اور بابا یحییٰ کاذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ دونوں ہستیاں اس میدان کی شہسوار ہیں جس کی جھلک بھی کم کم لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔
اس موقع پر جن مہربانوں نے باقاعدہ مائیک پر آکر اپنی ''امجد نوازی'' کا دلنواز اظہار فرمایا اُن میں انور مسعود، مجیب الرحمن شامی ، سہیل احمد، ڈاکٹر امجد ثاقب، اوریا مقبول جان ، سیّد نور، ڈاکٹر عمر عادل، بابا یحییٰ اور میری شریک حیات فردوس امجد کی گفتگو شامل ہے جن میں سے ہر ایک کی محبت ایک کبھی نہ ادا ہو سکنے والے قرض کی صورت ہے مگر جن دیگر احباب نے اس کا اظہاراپنی آنکھوں کی زبان سے کیا وہ بھی میرے لیے کسی خزانے سے کم نہیں، سو میں تقدیم و تاخیرکے پیکر میں پڑنے کے بجائے حافظے کے حوالے سے ان کے نام درج کرتا ہوں کہ یہ محبت کی وہ بستی ہے جہاں کوئی کسی سے کم نہیں۔یوں بھی میرے نزدیک ان کے عہدے ، شعبے اور پہچان سب کچھ ان کے نام ہی میں شامل ہے۔
اعزاز احمد چوہدری، عطاالحق قاسمی ، بشریٰ اعجاز، گگن شاہد،فوازنیاز، شیخ احمد افضل ، امتیاز پرویز، احمد بلال، افضال احمد، اصغرندیم سید، ناز بٹ، ڈاکٹر صغرا صدف، محمد رفیق حسرت، انور مسعود ، صدیقہ بھابھی، عمار مسعود ، شہنیلا عمار، جواد ظفری، زیبا جواد، امجد قریشی، بیگم امجد قریشی، عمران منظور، نعمان منظور ، سید عامرجعفری، میاں عبدالشکور ، سہیل احمد ، ڈاکٹر اجمل نیازی ،عنبرین صلاح الدین، سجاد بلوچ، ڈاکٹر امجد ثاقب، خواجہ محمد اشفاق، ساجدانور،لطیف چوہدری، داؤد ملک، نبیلہ ملک، شجاعت ہاشمی، غافرشہزاد، حکیم عثمان، حمیدہ شاہین، ڈاکٹر ضیاء ،ڈاکٹر راشد لطیف، ڈاکٹر صداقت علی، ڈاکٹر اشتیاق گوندل، ڈاکٹر نیاز احمد ، شاہنواز زیدی، عائشہ بلال، بیگم وساجدحبیب، خالد شریف، مجیب الرحمن شامی، مسرت مصباح،مجید احمد ،بلقیس ریاض، بیگم و نصرالصمد قریشی، ڈاکٹر عمر عادل، اوریا مقبول جان، رخشندہ نوید ، سرور نقشبندی، سرور سکھیرا،مسعود عثمانی، سید نور ، واجد بخاری ،بیگم ووصی شاہ ، بابایحییٰ، زاہد فخری ،زاہد منیر عامر، ذوالفقار زلفی، سعید جاوید، اسلم اعوان، سلطان ناصر، سجاد میر،یاسررشید، سید سرفراز شاہ صاحب،بینا گوئندی، سلمیٰ اعوان، نواز خان میرانی، عارف بٹ، رضا رُومی، جاوید اقبال، ڈاکٹر یونس بٹ، عافیہ اور شجاعت قریشی، سائرہ اور طاہر یوسف ۔
اس فہرست میں میری فیملی، بہن بھائی اور وہ عزیزشامل نہیں ہیں جنھیں عرف عام میں فیملی فرینڈز کہا جاتا ہے یہ اور بات ہے کہ مندرجہ بالا فہرست میں بھی بہت سے احباب اسی فہرست میں آتے ہیں۔ واٹس ایپ، میسنجر ، ای میل ، کارڈز اور فون پر دی گئی مبارکبادوں کی تعداد اتنی ہے کہ ان کی کثرت کا شمار کرنے کے بجائے وہ ایک سجدہ شکر ادا کرنا زیادہ مناسب ہے کہ جس کے باعث اللہ کی عنایت سے میرے دامن میں اس قدر محبت اور دعائیں سمٹ آئی ہیں کہ بقول میاں محمد صرف بلّے بلّے بلّے ہی کہا جاسکتا ہے۔
میرے دو بہت محترم شیزان کے مالک لالہ جلال الدین اور برادرم فرخ مراد اپنی شدید علالت کے باعث شامل نہ ہوسکے مگر اُن کی محبت مجھے تقریب کے دوران اس طرح سے ملی کہ بے اختیار دل سے اُن کی محبت کے لیے دعائیں نکلیں اور جس طرح سے میرے بچوں اور اُن کے بچوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا اور علی ذی شان نے اس کی تفصیلات کو سلیقے اور خوبصورتی کے ساتھ نبھایا اور میری شریک حیات نے اس ساری محبت اور عزت کی کہانی میں رنگ بھرے اور میرا ساتھ دیا ان سب محبتوں کا قرض ایسا ہے کہ جسے صرف یاد ہی رکھا جاسکتا ہے کہ اسے ادا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔