ذہنی نشوونما رک جانے کے مریض
ہمارے ذہن سہہ، دیکھ اور سن تو سب رہے ہیں لیکن ان سے نکلنے کا کوئی راستہ، طریقہ بتانے سے معذور ہیں۔
چینی کہاوت ہے '' معجزہ یہ نہیں کہ ہوا میں اڑا جائے یا پانی پر چلا جائے بلکہ زمین پر چلنا معجزہ ہے'' آج ہم سب نہ ختم ہونے والی مصیبتوں کے عذاب میں گرفتار ہیں۔ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی تو دوسری شروع ہوجاتی ہے پھر تیسری اور چوتھی پھر مصیبتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے۔ سب سے وحشت ناک بات یہ ہے کہ ان مصیبتوں نے ہماری سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتوں کو بانجھ کرکے رکھ دیا ہے۔
ہمارے ذہن سہہ، دیکھ اور سن تو سب رہے ہیں لیکن ان سے نکلنے کا کوئی راستہ، طریقہ بتانے سے معذور ہیں۔ یاد رہے لڑائی پہلے دماغ یا ذہن میں لڑی اورجیتی جاتی ہے اوردوسر ی مرتبہ حقیقی دنیا میں، جب ذہن ہی لڑنے کے لائق اور قابل نہیں رہے گا تو جنگ کیسے لڑی اور جیتی جائے گی۔
عظیم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے ''ذہنی نشوونما رک جانے'' کا نظریہ پیش کیا۔ فرائیڈکچھ ایسی بیماریوں کے اسباب دریافت کرنا چاہتا تھا، جو صدیوں سے علم طب کی گرفت میں نہیں آ رہی تھیں ، یہ ایسی بیماریاں تھیں جن کی جسمانی علامات تو ضرور نظر آتی تھیں لیکن جسمانی علاج سے کوئی فائدہ ہوتا نظر نہ آتا تھا ،جدوجہد کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانی زندگی میں جب کوئی شدید جذباتی کشمکش حل ہونے میں نہیں آتی، سلجھ نہیں پاتی تو وہ کشمکش ختم نہیں ہوتی بلکہ ذہن انسانی میں ایک پھوڑا بن کر موجود رہتی ہے۔
سادہ الفاظ میں اس تصورکا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان کی نشوونما کسی بھی ایسے مسئلے پر آکر رک جاتی ہے جو اس کے لیے شدید جذباتی اہمیت رکھتا ہو اور وہ حل نہ ہو پائے تو ذہنی نشوونما اس وقت تک رکی رہتی ہے جب تک انسان اس مسئلے کا سامنا نہیں کرتا جب تک وہ اس مسئلے کو سمجھ نہیں لیتا، اس سے سمجھوتا نہیں کرلیتا، اسی کو مکمل طور پر حل نہیں کر لیتا لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے تو انسان اس مسئلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔اس کی ذہنی نشوونما اسی جگہ رک جاتی ہے جہاں یہ مسئلہ یہ جذباتی کشمکش یہ نفسیاتی الجھن پیدا ہوئی تھی۔
فرائیڈکے نظریے کو سامنے رکھ کر ہم باآسانی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہم سب ''ذہنی نشوونما رک جانے'' کے مر ض میں مبتلا ہوگئے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں کا نہ کبھی سامنا کیا نہ کبھی ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی بلکہ انھیں آسمان سے اتری ہوئی چیزیں مان کر ان کے آگے سربسجود ہوگئے، ان سے لڑے بغیر اپنی شکست تسلیم کرلی، اس صورتحال سے صرف ہم ہی دوچار نہیں ہوئے ہیں۔ ہم سے پہلے ان گنت قومیں اور شخصیات بھی اس کیفیت سے دوچار ہوچکی ہیں لیکن انھوں نے اپنے مسائل ، پریشانیوں اور مصیبتوں کو دیوتا ماننے سے صاف انکارکردیا ، ان کا مقابلہ کیا ان کا حل ڈھونڈا ، یہ کا م آپ بھی کرسکتے ہیں۔
جوزف کیمپیل دنیا کے چند نامور ترین مائتھالوجسٹس میں سے ایک تھے ، انھوں نے ہمیں زندگی کا سادہ لیکن سمت نما سبق دیا۔'' اپنی خوشی کی پیروی کرو'' لزمرے منشیات کے عادی والدین کے ہاں پیدا ہوئی اور سخت غربت کے عالم میں پڑھی۔ والدہ کی وفات اور والدکے شیلٹر ہوم جانے کے وقت وہ نوعمر تھی اور بے گھر بھی وہ فٹ پاتھوں پر سوتی تھی اور زندہ رہنے کے لیے دکانوں سے اشیاء چوری کرتی تھی لیکن یہ ہی وہ وقت تھا جب اس نے ایک خواب دیکھا کہ وہ ہاروڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے گی، صرف چار سال بعد اس نے اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرلی۔
اپنی کہانی میں دنیا کو شریک کرتے ہوئے وہ نہ صرف ایک کامیاب مصنفہ بن گئی بلکہ دنیا کی ایک زبردست مانگ رکھنے والی Motivation Speaker بھی بنی۔ وہ لکھتی ہے ''ہم نے اپنی ماں کوکرسمس کے اگلے روز سپرد خاک کیا، اس وقت میں سولہ برس کی تھی۔ ہمارے پاس تجہیزوکفن کے پیسے نہیں تھے اور ہم نے پائن کا سستا سا تابو ت بنایا تھا یہ ہمارے لیے بڑے دکھ کی گھڑی تھی ہماری زندگی بڑی مشکل سے گذری تھی ۔ میری ماں اکثر میرے بستر کی پانتی پر بیٹھ کر اپنے خواب سنایاکرتی تھی، یہ خواب اچھے دنوں کے ہوتے تھے، اچھی زندگی اور اچھے گھرکے ہوتے تھے یہ خواب ایک تابناک مستقبل کے ہوتے تھے اور ہر خواب کے آخر میں وہ کہتی تھی کہ میں یہ کروں گی میں وہ کروں گی، لیکن ابھی نہیں۔ وہ یہ کام کسی اور دن کرے گی کل کرے گی، پرسوں کرے گی۔ زندگی کے ایک مرحلے پر میں نے بھی یہ جان لیا تھا کہ میں بھی ایسی زندگی گذار رہی ہوں جس میں، میں خود سے کہہ رہی ہوں گی کہ میں یہ کروں گی۔ میں وہ کروں گی، لیکن ابھی نہیں'' آپ شاید سوچتے ہونگے '' میرے پاس اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ابھی وقت ہے'' لیکن آپ کے پاس وقت نہیں ہے، اپنے خوابوں کا تعاقب نہ کرکے آپ جو خطرہ مول لے رہے ہیں وہ بہت مہلک ہوگا پھر کسی دن ایک بیماری جو آپ کے خوابوں کوآپ کے ساتھ قبر تک لے جائے گی۔ جان لیں کہ کوئی بھی دوسرا انسان آپ کے خوابوں کو پورا نہیں کرے گا۔صرف آپ ہی اپنے خوابوں کو پورا کرسکتے ہیں۔
روم کا عظیم مقرر، دانشور، فلسفی، قانون دان اور ادیب سسرو نے انسانوں کی چھ غلطیوں کی نشاندہی کی ہے (1) یہ خام خیالی ہے کہ ذاتی مفاد دوسروں کوکچلنے کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے۔(2) ان باتوں کے بارے میں گھبرانا جن کو تبدیل یا درست نہیں کیاجاسکتا۔(3) اس بات پر اصرارکرنا کہ ایک بات ناممکن ہے کیونکہ ہم اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکتے۔ (4) ادنیٰ ترجیحات کو نظر اندازکرنے سے انکار۔ (5) دماغ کی ترقی اورعمدگی کونظر اندازکرنا اور پڑھنے اور علم حاصل کرنے کی عادت نہ ڈالنا۔(6) دوسروں کو مجبورکرنا کہ وہ اسی طرح یقین کریں اور رہیں جس طرح ہم کرتے ہیں۔ تمام عظیم سچائیاں سادہ سچائیاں ہیں لہذا سوچیں ،کیونکہ آپ کے پاس ابھی وقت ہے۔آپ کی مصیبتوں ، پریشانیوں اور مسائل کاحل ہمیشہ آپ کے ہی پاس ہوتا ہے کسی دوسرے کے پاس نہیں۔