دماغی الارم کلاک
ہمیں وقت پرسو کر اٹھنے کیلئےکبھی بھی الارم کلاک کی ضرورت پیش نہ آئی پھر بھی ہمیشہ مقررہ وقت پر ہماری آنکھ کھل جاتی ہے۔
ہمیں وقت پر سو کر اٹھنے کے لیے کبھی بھی الارم کلاک کی ضرورت پیش نہ آئی پھر بھی ہمیشہ مقررہ وقت پر ہماری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس کے لیے ہم اپنے دماغ میں موجود الارم کلاک کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ لوگوں میں سے بھی کئی اس الارم کلاک سے کام لینے پر قادر ہوں گے۔ بچپن میں جب سو کر اٹھنے میں الکسی سے کام لیتے تھے اور وقت پر آنکھ نہ کھلتی تھی تو والدہ یا گھر کے بڑے کہتے تھے ''رات کو سوتے وقت اﷲ میاں سے کہہ دیا کرو کہ وہ تمھیں اس وقت جگا دیں، دیکھنا تمھاری آنکھ صحیح وقت پر کھل جائے گی۔'' ہم ایسا ہی کرتے اور واقعی اﷲ میاں ہمیں ٹھیک اسی وقت جگا دیتے جو ہم نے مقرر کیا ہوتا۔ بچپن کا دور تھا اس لیے ایک خوشگوار حیرت بھی ہوتی اور خوشی بھی، مدرسے میں بھی ہم اپنے ہم جماعتوں کو بتاتے کہ اﷲ میاں ہمیں ہمیشہ وقت پر جگا دیتے ہیں، اور انھیں بھی ایسا ہی کرنے کا مشورہ دیتے۔ بچپن سے گزر کر جب لڑکپن میں قدم رکھا اور سری علوم سے متعلق پڑھنا شروع کیا تو اس عمل کی حقیقت کا صحیح ادراک ہوا۔ تب پتہ چلا کہ اﷲ میاں سے وقت پر اٹھانے کا کہتے ہوئے دراصل ہم خود ترغیبی کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
جب ہم مقررہ وقت پر جاگنے کی فرمائش کررہے ہوتے ہیں تو دراصل خود کو سجیشن دے رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا لاشعور ہمیں ٹھیک اس وقت جگا دے گا۔ عام طور پر جب آپ کی نیند پوری نہ ہو اور آپ جاگ جائیں تو بدن کسلمندی کا شکار رہتا ہے، دماغ بوجھل ہوجاتا ہے، مزاج میں چڑچڑا پن در آتا ہے لیکن خود ترغیبی کے ذریعے اگر ایک گھنٹے کی نیند بھی لی جائے تو جاگنے کے بعد دماغ ہشاش بشاش اور موڈ خوشگوار ہوتا ہے، بدن مکمل طور پر چاق و چوبند ہوجاتا ہے۔ اس دماغی الارم کلاک سے آپ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آج ہی تجربہ کرکے دیکھیں، رات کو سوتے وقت خود کو ترغیب دیں کہ آپ صبح فلاں وقت پر جاگ جائیں گے۔ شدت سے ساتھ ذہن میں اس ہدایت کو دہراتے رہیں۔ عقیدہ شرط ہے، یعنی آپ جو کچھ کررہے ہیں خود آپ کو اس پر یقین ہونا چاہیے۔ بچپن میں اﷲ میاں سے فرمائش کرتے ہوئے بھی عقیدہ کارفرما رہتا تھا کہ اﷲ ہماری ہر بات سنتا ہے، پھر اس خودترغیبی میں اثر کیونکر نہ آتا۔ اس وقت جب کہ ہم ہپناٹزم کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے محض اپنے عقیدے کی قوت سے خودترغیبی کے کامیاب عمل سے گزرے۔ آپ لوگ بھی اپنے لاشعور کی اس جہت میں تربیت کرکے اس طرح کے دیگر کاموں کو بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ جو طالب علموں کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا وہ بھی بیان کرتے چلیں کہ ابتدائی دور میں ہم نے خودترغیبی کی کیا کامیاب مشقیں کیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر طلبا بھی ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہمیں کبھی بھی سبق کو رٹنے یا امتحانات کی تیاری میں دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہم اپنے اسباق بار بار نہیں دہراتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی ہر ٹیسٹ اور امتحان میں پہلی پوزیشن پر ہی براجمان رہتے، ہمارے ساتھی طلبا ہماری اس مستقل پوزیشن کو رشک اور حسد سے دیکھا کرتے تھے لیکن آج ہم اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیتے ہیں۔ ہماری اس کامیابی کے پیچھے بھی کسی حد تک خودترغیبی کا ہاتھ تھا۔ یہ تذکرہ ہم پہلے بھی کرچکے ہیں کہ سری علوم سے متعلق ہم نے 9 سال کی عمر سے پڑھنا شروع کیا تھا۔ اب جب کہ ہم ہپناٹزم اور خودترغیبی کے بارے میں کافی کچھ پڑھ چکے تھے تو اس جہت میں تجربات کرنے کا سوچا۔
ہم مطالعے سے پہلے خودترغیبی کے عمل سے گزرتے اور خود کو ہدایات دیتے جاتے کہ ہم جو کچھ بھی پڑھیں گے وہ ہمیں ازبر ہوجائے گا، یہی ترغیب مختلف جملوں کے ساتھ ہم بار بار اپنے ذہن میں دہراتے رہتے اور پھر پوری دلجمعی کے ساتھ مطالعے میں غرق ہوجاتے۔ حیرت انگیز طور پر مکمل اسباق ہمارے ذہن میں حرف بہ حرف منتقل ہوجاتے۔ یہاں بھی بہت سی باتیں قابل غور ہیں، اس دور میں ہماری ساتھی کتابیں ہی ہوا کرتی تھیں، موبائل اور انٹرنیٹ کا تو ذکر ہی چھوڑیے ٹی وی بھی لوگ فراغت کے وقت ہی دیکھا کرتے تھے۔ آج کی نسل کی طرح وقت کا زیاں اور فضول لغویات میں مصروف رہنا لوگ معیوب سمجھتے تھے، بچوں کو تربیت دی جاتی تھی کہ آوارہ گردی اور لچر و بیہودہ زبان استعمال کرنے والے شریف خاندان سے تعلق نہیں رکھتے اور بچے بھی خود کو اعلیٰ نسب ثابت کرنے کے لیے ہمہ وقت اپنی ذات کی اصلاح میں لگے رہتے تھے۔
جب دماغ لغویات سے پاک ہو اور شیطانی وسوسے ذہن پر سوار نہ ہوں تو یادداشت ویسے بھی خودبخود اچھی ہوجاتی ہے، ایسے میں مکمل کتابوں کا من و عن ذہن نشین ہوجانا بھی کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ لیکن آج کے دور میں نوجوان نسل نہ صرف موبائل اور انٹرنیٹ کے سحر میں مبتلا ہے بلکہ دیگر لغویات میں کھو کر خود کو فراموش کرچکی ہے، ذہن میں اتنا کچھ مواد موجود ہے کہ صحیح سمت میں سوچنا ممکن ہی نہیں رہا۔ یاد رکھیں پراگندہ خیالی کسی بھی قسم کے علم کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے نئے طالب علموں کو ہمیشہ ارتکاز توجہ کی مشقیں پہلے کرائی جاتی ہیں تاکہ وہ اس منتشر خیالی سے چھٹکارا حاصل کرکے ذہن کو یکسو کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ جب ذہن تمام تر سوچوں سے خالی ہوگا تب ہی ایک کارگر سوچ پیدا کی جاسکتی ہے۔ ہم تمام طالب علموں کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ ہپناٹزم یا ٹیلی پیتھی کی کوئی بھی مشق شروع کرنے سے پہلے ارتکاز توجہ کی مشقیں کریں۔ سانس اور ارتکاز توجہ کی مشقیں ان تمام تر علوم میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہمارا ایک ساتھی جو اسکول میں ہم سے آگے تھا اس پر ترغیب کے ذریعے یادداشت تیز کرنے کا تجربہ کیا۔ ابتدائی دور میں اس پر تنویمی نیند طاری کرنے میں تو ناکام رہے لیکن ترغیب کی اثر پذیری کے تحت وہ نہ صرف اسباق کو ہماری طرح ذہن نشین کرنے پر قادر ہوگیا بلکہ بورڈز کے امتحانات میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ یہ ہمارا کامیاب تجربہ تھا لیکن جو ہم بار بار استاد کی رہنمائی حاصل کرنے پر اصرار کرتے ہیں وہ بھی بتاتے چلیں۔ بے شک ہمارے یہ تمام تجربے کامیاب رہے لیکن استاد کی رہنمائی نہ ہونے کے باعث جزوی کامیابی ہی حاصل کرپائے، جو نقصان ہوا اس کا تذکرہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ اپنے جس ساتھی پر ہم نے ترغیب پذیری کا تجربہ کیا تھا وہ امتحانات کے بعد نہ صرف وہ تمام اسباق بھول گیا بلکہ اس کا بیان تھا کہ پیپر ختم ہونے کے بعد اسے ایسا احساس ہوتا تھا کہ جیسے اس کا ذہن سلیٹ کی مانند دھو ڈالا گیا ہو۔ حیرت انگیز طور پر اسے پیپر کے سوالات اور جوابوں کی تفصیلات بالکل بھی یاد نہ رہتی۔ یقیناً یہ بغیر کسی استاد کی رہنمائی کے تجربات کرنے کے سائیڈ ایفیکٹ تھے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)