عید قرباں اور کشمیر

عید قرباں کا مقصد بھی یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ساتھ اپنی خواہشات و انانیت کو قربان کیا جائے۔


Abid Mehmood Azam 1 August 15, 2019

عید قربان کے موقعے پر مسلمان اپنے مال اور اپنی خواہشات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ہر شخص میں کسی نہ کسی درجے میں قربانی ومحبت کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان زندگی میں مختلف قسم کے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔کبھی اسے جسم وجان کی اورکبھی مال کی قربانی اورکبھی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے۔

عید قرباں کا مقصد بھی یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ساتھ اپنی خواہشات و انانیت کو قربان کیا جائے۔ ناراضگیاں ہرگھر میں کسی نہ کسی سطح پر ہو ہی جاتی ہیں، مگر عید کا یہ دن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کے توسط سے ہم اپنی ذاتی رنجشوں، ناراضگیوں اور ایک دوسرے کی غلطیوں وخامیوں کو نظر انداز کرکے کھلے دل سے ایک دوسرے کوگلے لگا لیں۔

اگر انسان اس مبارک موقعے پر''انا'' کی قربانی کر لے تو نہ صرف بہت سی مشکلات سے چھٹکارہ پا سکتا ہے، بلکہ خدا کی بہت قربت بھی حاصل کرسکتا ہے،کیونکہ یہ ''انا'' ہی بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔اس کی وجہ سے انسان کی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔''انا'' بہت سے عزیز لوگوں کو چھین لیتی ہے۔ بہت سے رشتے ''انا '' کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔اس ''انا'' کی خاطر انسان خود بہت سے نقصان اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بہت سے نقصان دیتا ہے، اگر عید کے مقدس تہوار پر انسان ''انا '' کی قربانی بھی کر لے تو قربانی کی حقیقی روح کو پا سکتا ہے۔

عیدکے موقعے پر اخلاص کے ساتھ پسندکا جانور قربان کرنا خدا تعالیٰ کی قربت کا سبب ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے جتنی زیادہ قربانی کی جائے، اتنی ہی قربت حاصل ہو گی، لیکن بدقسمتی سے بعض لوگوں نے قربانی کے اس اہم فریضے کو محض ایک دنیاوی تہوار بنا دیا ہے، جس سے اس فریضے کی ادائیگی کا مقصد پورا نہیں ہو پاتا۔اگرچہ اچھے سے اچھے جانورکی قربانی کرنا افضل ہے، لیکن آج کل نمودونمائش کے لیے قربانی کے انتہائی مہنگے جانوروں کی قربانی کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔روح عبادت پر نمود ونمائش غالب آگئی ہے۔

بہت سے لوگ نمود ونمائش اور تفاخرکے لیے قربانی کرتے ہیں۔ نمود ونمائش کے لیے قربانی کے انتہائی مہنگے جانوروں کی خریداری سے گریزکرنا چاہیے،کیوں کہ اس سے ایک طرف مالی طور پرکمزور لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے تو دوسری جانب ریاکاری قربانی کا اجروثواب بھی ضایع کردیتی ہے، اگر توکوئی شخص محض اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرتا ہے تو یہ اس کی خوش بختی ہے اور اگر شہرت کے لیے کرتا ہے تو خدا کے نزدیک اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندرکی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ آج ہمارا معاشرہ آپس میں اختلافات، تعصبات اور افرا تفری اور انتشارکا شکار ہے، اپنے علاوہ کوئی کسی دوسرے کی بات تک کو تحمل وبرداشت سے سننا نہیں چاہتا۔اس کا واحد سبب ہمارے نفس کی سرکشی ہے اور یہ تہوار ہمیں اپنے نفس کو دوسروں کے لیے قربانی دینے کا درس دیتا ہے۔ عیدالاضحی ہمیں آپس میں پیارومحبت اور اتحاد ویکجہتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ سب ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کریں۔اچھے برے وقت میں کام آئیں، دوسروں کو بھی آپس کے اختلافات اور نفرتوں کو بھلانے کا درس دیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں، جس کا تقاضا ہمارا دین کرتا ہے۔

مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل تہوار، عید الاضحی کے موقع پر ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو ہرگز نہیں بھول سکتے،کیونکہ ہرکشمیری کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے اور برسوں سے کشمیری عوام بھارتی ظلم و ستم کے باوجود پاکستان کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہارکرتے آ رہے ہیں۔خوشی کے اس موقع پر بھی سفاک مودی حکومت اور بھارت کی درندہ صفت فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم اور ستم اور سفاکیت و درندگی کے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔

عیدکے موقع پر جہاں ایک طرف دنیا بھر میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے محبوب جانوروں کی قربانی کر رہے ہیں، دوسری طرف ہمارے کشمیری بھائی اپنی جانوں کی قربانی دے کر عید منارہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے روزانہ آزادی کے متوالوں کے جنازے اٹھنا معمول کی بات ہے۔ بھارتی فوجی نہتے کشمیریوں پرگولیاں برسا کر اپنی بزدلی کا اظہار کرتے ہیں، جب کہ حریت پسند کشمیری آزادی کی خاطر بہادری کے ساتھ سینہ تان کر جان کا نذرانہ دیتے ہیں۔ غیورکشمیری نہ تو پہلے کبھی بھارتی مظالم کی وجہ سے آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہوئے ہیں اور نہ ہی اب دستبردار ہوسکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی درندوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔

ڈیڑھ لاکھ سے زاید حریت پسند کشمیری مختلف جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں اور ہزاروں کی عزتیں پامال کی گئیں۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف کارروائیاں اور ان کی شہادت کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔کئی دہائیوں سے ظلم وستم کا یہ سلسلہ مسلسل چلا آرہا ہے۔کشمیریوں کی ہر عید جان کی قربانیاں دیتے گزر جاتی ہے، مگر اب کی بار تو بھارت نے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے کا نیا منصوبہ بنا لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات فوجیوں کی تعداد تقریبا 10 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، لیکن مزید 50 ہزار فوجی وہاں تعینات کیے گئے ہیں۔ کشمیری عوام کی نسل کشی کی مکمل تیاری کر لی گئی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ شدت پسند ہندو لیڈر شپ کا ہمیشہ سے خواب رہا ہے، جسے انڈیا کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی نے پورا کیا ہے۔ انتہا پسند مودی کی خواہش ہے کہ کشمیرکے باہر سے شدت پسند ہندوؤں کو وہاں لا کر بسایا جائے، جس سے چند سال میں کشمیر میں مسلمان اکثریت اقلیت میں بدل جائے۔

بھارت کو جموں وکشمیر کی حیثیت کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے تھا، مگر اس نے کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے پہلے سے طے کردہ منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ بھارت کی جانب سے پیدا کردہ حالات نہ صرف برصغیر، بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی برادری کو بھارت کے اس مجرمانہ اقدام کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو کشمیری عوام کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں بند اور انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دینے پر مجبورکرنا چاہیے۔

یہ محض زمین کے ایک ٹکڑے کا جھگڑا نہیں، بلکہ ایک قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔ بھارت کے اس اقدام سے کشمیریوں کی جدوجہد پر کوئی فرق پڑنا ممکن نہیں ہے، بلکہ اس سے کشمیری مزید مشتعل ہوں گے۔ ان کے جذبہ حریت کو مزید جلا ملے گی اور نہتے ہونے کے باوجود بھارتی سفاک فورسز کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔

(ان شاء اللہ۔ )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں