عالمی لیڈر خاموش بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے بھارت کی شدید مذمت

مودی اور امیت شاہ کے ہوتے بھارت سیکولر ملک نہیں رہا،واشنگٹن پوسٹ، بھارتی حکومت بدمعاش بن گئی،نیویارک ٹائمز


وقاص اصغر August 16, 2019
ہندتوا کے قریب جارہے ہیں،ٹورنٹواسٹار،انتخابات میں فائدہ ہوسکتا ہے،بی بی سی (فوٹو: فائل)

بھارتی وزیراعظم مودی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کو اس کے ہندونیشنلسٹوں میں چاہے کتنی ہی پذیرائی ملی ہو لیکن عالمی میڈیا اسے قبول کرنے کو قطعاً تیار نہیں۔

دنیا کے تمام بڑے اخبارات اور چینلز نے اس کی مذمت کی ہے لیکن میڈیا کی اس چیخ وپکار کے باوجود عالمی لیڈر اس پر خاموش ہیں کیونکہ انھیں انسانی حقوق، جمہوریت اور دوسری فضولیات سے زیادہ بھارت کی بڑی مارکیٹ کی فکر ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر واشنگٹن پوسٹ کی ایڈیٹر ملی مترا نے اپنے ایک مضمون میں مودی کے حالیہ اقدامات کو جابرانہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی بھارت کو غیرجمہوری ملک بنا رہے ہیں۔

اخبارگارڈین کے مطابق کشمیری مسلمانوں کو ریاستی ہندوتوا کا سامنا ہے۔مودی اور امیت شاہ کے ہوتے ہوئے بھارت میں اب جمہوریت اور سیکولرزم نہیں رہا۔مقبوضہ کمشیر میں سیاسی لیڈروں کو گھروں میں قیدکرکے بھارتی حکومت لوگوں کی آواز کو نہیں دبا سکتی۔

نیویارک ٹائمز میں بھارت کی ایوارڈ یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے نے لکھا ہے کہ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن سے لگتا ہے کہ بھارتی حکومت بدمعاش بن چکی ہے جس نے کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزاد حیثیت کے خاتمے کے بل کی پارلیمنٹ سے منظوری پر یوں ڈیسک بجائے گئے جیسے کہ کوئی کالونی فتح کرلی ہو۔انہوں نے کشمیری پنڈتوں کی مدد میں ناکامی پر بھی تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ ان کی آڑ لیکر کشیری حریت پسندوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ بھارت میں اور لوگ بھی اپنے حقوق اور آزادیوں کیلیے آوازیں بلندکرتے رہتے ہیں لیکن کشمیریوں کے معاملے میں بھارتی حکومت کے معیارات مختلف ہیں۔

کینیڈا کے اخبار''دی گلوب اینڈ میل '' نے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ مودی اپنی جمہوری کامیابی کی آڑ میں خود کو ایک مرد آہن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اخبار نے کشمیر کو کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں چلنے والی تحریک سے تشبیہہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی نے کشمیرکی آزادانہ حیثیت ختم کرکے لبرل جمہوریت کے بالکل الٹ قدم اٹھایا ہے ۔

اخبار ٹورنٹو سٹار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ بھارت جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے کشمیر پربراہ راست تسط جما کر خطرناک اور فیصلہ کن غیر جمہوری راستے پر گامزن ہوچکا ہے ۔کشمیر میں کرفیو، سنسرشپ،افواج کی تعداد میں اضافہ کرنے جیسے معاملات میں کشمیریوں سے کسی نے نہیں پوچھا ۔بھارت میں کشمیر واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔کشمیر میں کیے جانے والے اقدامات سے ہی بھارت کے سیکولرزم کے معیارات کا پتہ چلتا ہے۔وہاں مودی کے اقدامات پریشان کن ہیں۔

اخبارنے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی سرکا ر بھارت کو متنوع اور سیکولر اقدار کے حامل ملک کے درجہ سے دور لے جاکر ہندتوا نظریات کے قریب لے جارہے ہیں۔

برطانوی اخبار آبزرور نے لکھا ہے کہ مودی حکومت نے ہرچیزالٹ کر رکھ دی ہے ۔کشمیر کے حوالے سے اقدامات پر نہ تو حریت قائدین اور نہ ہی بھارت نوازسیاستدانوں سے کوئی مشورہ کیا گیا نہ ہی کشمیریوں سے پوچھا گیا۔سب اپنے گھروں میں نظربند ہیں۔

اخبارکے مطابق آئین میں تحریف کرتے وقت نہ تو شملہ معاہدے کی پروا کی گئی نہ ہی اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں کودیکھا گیا۔کشمیریوں سے ان کا حق خود اختیاری چھین لیا گیا۔مودی نے اپنے آپ کو غلط راستے پر ڈال لیا ہے۔صرف یہ کہ دینا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے وہاں 70 سال سے جاری جدوجہد کی حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے ۔اخبار نے اس معاملے میں برطانیہ ، امریکہ اور یورپی یونین کی لاپرواہی پر بھی تنقید کی ہے ۔

امریکہ اور یورپی یونین نے دہلی سے جاری اپنے بیانات میں کشمیرکودوطرفہ مسئلہ قراردیا ہے جبکہ برطانیہ کا جواب بھی بہت کمزور سامنے آیا ہے ۔مودی کی زیادتیوں کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔اس سے اقوام متحدہ کی اتھارٹی، عالمی قانون اورنام نہاذقانون کی حکمرانی پر مبنی گلوبل آرڈر پر بھی حرف آتا ہے۔اس معاملہ پر ذرا بھی غورنہیں کیا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج میں اضافہ کرنے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوگی،جمہوری مذاکرات کی جگہ مذہبی اور نسلی شناخت کے نظریات کو ہوا ملے گی۔ایسی دنیا میں مودی جیسےہندو انتہاء پسند اور مسلمان دشمن بی جے پی میں شامل اس کے ساتھی ہی فٹ قرار پائیں گے۔

بی بی سی کیلئے لکھنے والی ماہرتعلیم سمانترا بوس نے لکھا ہے کہ 2002ء میں جب ابھی مودی سیاست میں اتنے آگے نہیں آئے تھے آر ایس ایس نے مقبوضہ کشمیرکو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کے بقول کمشیرمیں کھیلی جانے والی شطرنج کی یہ چال ہوسکتا ہے اکتوبر میں بھارت کی بعض ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کیلئے ہو اور اس سے کچھ عرصہ کیلئے لوگوں کی توجہ بھارت کی گرتی ہوئی معیشت سے ہٹ جائے لیکن اس کشمیر میں جو شورش اٹھے گی مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کیلئے اسے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔

دریں اثناء بی بی سی ، الجزیرہ اور رائٹرز کی کشمیرکے حوالے سے رپورٹوں جنہیں بھارتی حکومت نے جعلی قراردیا تھا بھارت کی ایک ویب سائٹ Alt News نے درست قراردیتے ہوئے بھارت کے تردیدی دعوؤں کی نفی کی ہے ۔اس کے بعد بھارتی حکومت بھی اپنی غلطی تسلیم کر رہی ہے۔

عالمی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی غلط حرکات سے پوری طرح آگاہ ہے لیکن عالمی لیڈروں کو وہاں کے انسانی حقوق ،جمہوریت اور دوسری فضولیات سے زیادہ بھارت کی بڑی مارکیٹ کی فکر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔