جامعہ کراچی سال میں دو بار ایم فل داخلے
وفاقی اور صوبائی حکومتیں، جامعہ کراچی کے اس فیصلے کو سراہیں اورپاکستان کی اس سب سے بڑی جامعہ کو وہ تمام مدد فراہم کریں
لاہور:
ایک حالیہ خبرکے مطابق جامعہ کراچی نے سال میں ایک کے بجائے دو بار ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے دینے کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے موجودہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر خالد عراقی اس سلسلے میں مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک اچھا تعلیم دوست فیصلہ کیا۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے یہ خبر یقینا خوشی کا باعث ہو گی۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ کراچی شہرکی آبادی کے اعتبار سے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے مناسب مواقع نہیں ہیں، میڈیکل، انجینئرنگ سمیت ریسرچ کے لیے مختلف شعبوں میں داخلوں کے خواہش مند محدود نشستیں ہونے کے باعث داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں طلبہ کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے اخراجات بھی برداشت کرنے کو تیار ہوتی ہے اور ان کے نمبر بھی فرسٹ کلاس ہوتے ہیں مگر تعلیمی پالیسیوں اور دیگر مسائل کے باعث طلبہ کی بڑی تعداد اپنے علم حاصل کرنے کا خواب پورا نہیں کر پاتی۔ اس ضمن میں جامعہ کراچی کا مذکورہ فیصلہ قابل ستائش ہے کہ وہ اعلیٰ علمی تحقیقی مواقعوں میں اضافہ کرنے کے لیے سال میں دو بار داخلے دینے کا فیصلہ کر رہی ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، جامعہ کراچی کے اس فیصلے کو سراہیں اور پاکستان کی اس سب سے بڑی جامعہ کو وہ تمام مدد فراہم کریں جس سے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی سہولت اور علم حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کر سکے۔ جامعہ کراچی نہ صرف تمام ملکی جامعات کے مقابلے میں زیادہ شعبہ جات رکھتی ہے بلکہ یہاں تمام صوبوںکے طلبہ کو میرٹ کی بنیاد پر داخلے حاصل کرنے کے مواقعے بھی فراہم کرتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ جامعہ دو کروڑ آبادی والے شہرکراچی کے طلبہ ہی کو نہیں بلکہ پاکستان کے کونے کونے میں رہنے والے طلبہ کو یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے خوش آمدید کہتی ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد اب جب کہ اختیارات صوبائی حکومت کے پاس آ گئے ہیں لہذا صوبائی حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ سندھ کے تعلیمی اداروں خصوصاً اس ملک کی بڑی جامعہ ، جامعہ کراچی پر خصوصی توجہ دے اور تعلیم دوست فیصلے کرے۔ یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ ماضی قریب میں وزیراعلیٰ سندھ اور ڈاکٹر عاصم کی خصوصی دلچسپی کے باعث تحقیق کرنے والے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے پی ایچ ڈی الاؤنس میں اضافہ کیا گیا تھا اور اس ضمن میں الگ سے جامعہ کراچی کو فنڈ جاری کیے گئے تھے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ یہ فنڈ مستقل بنیادوں پر فراہم کیے جائیں تا کہ یہ الاؤنس جامعہ کراچی کے اساتذہ کی تنخواہوں کا مستقل حصہ بن سکے۔
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں اعلیٰ تعلیم ، تحقیق اور تعلیمی اداروں کا بڑا بنیادی کردار ہوتا ہے، اگر تعلیمی اداروں کے مسائل حل نہ کیے جائیں تو تعلیمی ادروں میں اچھی تعلیم اور تحقیق کبھی بھی ممکن نہیں ہوتی۔ ماضی کی حکومتی پالیسیوں کے سبب ہمارے تعلیمی ادارے مسائل کا شکار رہے ہیں اور اب تو اعلیٰ تعلیمی ادارے اس قدر مسائل کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس تحقیق کے لیے بھی فنڈ نہیں ہوتے۔ جامعہ کراچی میں بھی تحقیق کے لیے فنڈکی شدیدکمی نظر آتی ہے جس کے باعث سارا بوجھ طلبہ کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے یوں تحقیق کی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔
مذکورہ بالا مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمرانوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ دونوں کو اپنی اپنی جگہ کوششیں کرنی چاہییں۔ جس طرح جامعہ کراچی نے سال میں دوبار داخلے دینے کی یہ فیصلہ کیا ہے اسی طرح اگر ان شعبوں میں بھی داخلوں کے لیے نشستیںدگنی کر دی جائیں جہاں طلبہ کی بڑی اکثریت داخلہ لینا چاہتی ہے مگر کم نشستوں کے باعث محروم رہ جاتی ہے اور پھر یہ تعداد نجی تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے رجوع کرتی ہے۔
یوں طلبہ کی ایک بھاری تعداد ان نجی تعلیمی اداروں میں بھاری فیسوں کے عوض ابلاغ عامہ، بی بی اے، ایم بی اے، کمپوٹر سائنس وغیرہ میں تعلیم حاصل کرتی ہے، اگر ان جیسے مقبول شعبوں میں داخلوں کے لیے دستیاب نشستیں بڑھا دی جائیں تو ایک جانب طلبہ برادری کو فائدہ ہو گا اور دوسری طرف ان کی فیسوں سے جو آمدنی ہو گی، اس سے جامعہ کے مالی بحران میں کمی واقع ہو سکے گی، اس عمل سے شام کے پروگرام میں تو فائدہ زیادہ ہو گا مگر صبح کے پروگرام میںطلبہ کو سہولیات فراہم کرنے میں کچھ مالی مسائل بھی درپیش ہونگے مثلا ً طلبہ کے لیے لیب کے سامان وغیرہ کے لیے تاہم حکومت کی جانب سے مالی تعاون فراہم کرنے سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں، یوں دونوں کے باہمی تعاون سے طلبہ اور تعلیمی سرگرمیوں کو فائدہ ہی پہنچے گا۔
اصولی بات تو یہ ہے کہ صحت اور تعلیم جیسی سہولتوں کی فراہمی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے اور جو ریاستیں حکمرانوں کی تبدیلوں کے باوجود ان سہولیات کو عوام تک پہنچانے کا مربوط نظام رکھتی ہیں وہی ترقی کرتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہر آنے والا حکمران دعوے تو بہت کرتا ہے مگر عمل کرتا نظر نہیں آتا یا پھر سب سے آخری ترجیح کے طور پر تعلیم کو اہمیت دیتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے بھی آنے سے قبل تعلیم کو اپنی اول ترجیح ظاہرکیا تھا مگر عملاً لگتا ہے کہ تعلیم بھی ان کی ترجیح میں سب سے آخری نمبر پر ہے۔
ابھی کل ہی ایک پروفیسر صاحب ذکرکر رہے تھے کہ ان کی تنخواہ میں اضافہ پانچ فیصد ہوا تھا مگر ٹیکس بڑھا کر ساتھ فیصد منہا کر لیا گیا، گویا ایک استاد کی تنخواہ ہی کم کر دی گئی جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ حالیہ چند مہینوں میں مہنگائی کس قدر بڑھی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم جب اساتذہ کی تنخواہیں بھی کم کر دیں تو ملک میں تعلیمی معیار بڑھانے کے حکومتی دعوؤں کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر کھوکھلے ہیں۔
اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کے اساتذہ اپنے اس پی ایچ ڈی الاؤنس کی فراہمی کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں جو بہت پہلے ہی خود حکومت نے منظور کیا تھا۔ جامعہ کراچی کے پی ایچ ڈی کے ایک طالبعلم نے ہمیں بتایا کہ ان کا تھیسیس امریکا میں کسی پروفیسر کو بھیجا گیا تھا جب ان پروفیسر کی جانب سے کافی وقت گزرنے کے باوجود رپورٹ نہیں آئی اور ان سے رابطہ کیا گیا تو مذکورہ پروفیسر نے شکوہ کیا کہ ان کے پاس جامعہ کراچی کے مزید چند اور طلبہ کے تھیسیس آئے ہوئے ہیں مگر جامعہ کراچی نے ابھی تک ماضی میں چیک کیے گئے تھیسیس کا مشاہیرہ بھی نہیں ادا کیا، اب کیا میں اپنی جیب سے نجی کورئیر کا خرچہ برداشت کر کے رپورٹ بھیجوں؟
بقول اس طالب علم کے اس اطلاع کے بعد ان تمام طلبہ نے اپنی جیب سے چندہ کر کے مذکورہ پروفیسرکو رقم بھیجی تو ان کا مسئلہ حل ہوا۔ یہ واقعہ کس قدر افسوسناک ہے کاش ہمارے حکمران تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور اس ملک و قوم کی حقیقی ترقی کے لیے حقیقی اقدامات کریں اور تعلیم کے ضمن میں گرانٹ میں اضافے جیسے بنیادی کام کر کے اپنے قول کو فعل سے ہم آہنگ کریں۔