کشمیری بنیادی ضرورتوں سے محروم
مسلم حکمرانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی بے چارگی کو دیکھتے ہوئے خاموشی کی چادر تان لی اور اپنے لبوں پر مہر لگالی ہے۔
آج کشمیر میں کرفیو لگے 12 دن گزر چکے ہیں کشمیری بہن بھائی ضروریات زندگی سے محروم کردیے گئے ہیں، ہو کا عالم ہے، گہرا سناٹا اور گھروں میں معصوم بچوں کی قلقاریوں کی جگہ دودھ کی طلب نے انھیں سسکنے اور رونے پر مجبور کردیا ہے۔
انسانیت کے خدمت گار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، سلامتی کونسل، اقوام متحدہ، ریڈ کراس، این جی اوز ان فلاحی اداروں نے مقبوضہ کشمیر میں جاکر بھوکے پیاسے بچوں کو کھانا اور دوائیں فراہم نہیں کی ہیں، ضعیف، معذور، چھوٹے، بڑے سب ہی اندھیر نگری کے قیدی بن گئے ہیں۔
بھارتی یوم آزادی پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا ہے اور یوم سیاہ منایا گیا، پاکستان میں بھی جگہ جگہ سیاہ لباس اور سیاہ پٹیاں باندھ کر بھارتی دہشت گردی اور اس کے ظلم کا چہرہ بے نقاب کیا ہے، مسئلہ کشمیر پر 50 سال بعد سلامتی کونسل کا اجلاس ہونے جا رہا ہے، اگر انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے تب اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے گو کہ پوری دنیا اور امن کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، بھارتی فوجیوں نے پیلٹ گن کا استعمال دیدہ دلیری سے کیا ہے، ہزاروں لوگوں کے چہروں کو چھلنی کردیا اور بینائی ضایع کی گئی، کشمیری اسلحے سے محروم ہیں جب کہ ان کے پاس جدید اسلحہ ہے وہ پتھر مارتے ہیں اور یہ اسلحے کے ذریعے ان نوجوانوں کی جان لیتے ہیں۔
جن کا کوئی قصور نہیں، سوائے اس کے کہ وہ آزادی کے متوالے ہیں اور پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں ان کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم ہے اس کی سزا یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو بھارتی فوجی پکڑ کر لے جاتے ہیں اور تشدد کرکے شہادت کے درجے پر پہنچا دیتے ہیں۔ کشمیری اپنوں کے جنازوں کو کاندھا دیتے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے تھک چکے ہیں، آنسو خشک ہوگئے ہیں۔ بھارت 72 سال سے مسلسل کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے، ماؤں کے کلیجوں کو ہتھیاروں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے، باعفت خواتین کی عزت کو پامال کر رہا ہے اور اب تو اس نے اپنے طور پر تاریخ ہی بدل دی۔
اپنے لیڈروں کو جھوٹا ثابت کر دکھایا ہے پنڈت جواہر لال نہرو کی ان تقاریر کی دھجیاں بکھیر دیں جن میں انھوں نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق فیصلہ کریں گے جو وہ چاہیں گے، بار بار معاہدے بھی ہوئے جنرل پرویز مشرف اور سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اسی لیے ہوئے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو اور کشمیری جو سالہا سال سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں انھیں زندگی گزارنے کے لیے مکمل آزادی حاصل ہو۔ پھر شملہ معاہدہ بھی ہمارے سامنے ہے گزشتہ سات عشروں سے کشمیریوں کا مقدمہ کسی نہ کسی طرح لڑا جا رہا ہے لیکن ایسا پہلی بار ہوا۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے خطرناک کھیل کھیلا اور جغرافیائی محل وقوع کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ دراصل مودی جی کو ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات نے خوفزدہ کردیا اور انھوں نے ایک ایسا فیصلہ کرکے تاریخ کا رخ موڑنے کی کوشش کی جو ان کے ہی گلے کا پھندہ بن گیا اور ذلت آمیز شکست مودی اور بی جے پی کا مقدر بنے گی۔ ظلم ایک دن ضرور رنگ لاتا ہے اور اللہ رب العزت ہر رات کے بعد صبح کا سورج طلوع کرتا ہے۔
مسلم حکمرانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی بے چارگی کو دیکھتے ہوئے خاموشی کی چادر تان لی اور اپنے لبوں پر مہر لگالی ہے۔ مجال ہے جو انھوں نے فلسطین، بوسنیا اور کشمیر کے حالات پر آواز اٹھائی ہو۔ یہ خاموشی اور بے حسی دشمن کو نڈر بنا دیتی ہے جس طرح ہسپانیہ میں ہوا۔ ہسپانیہ میں 800 سال حکومت کرنے والوں کو سمندر کی نذر کردیا گیا ایک بچہ بھی نہ بچا، دھوکہ دے کر انھیں جہازوں میں بھر کر روانہ کیا گیا کہ انھیں پناہ دی جائے گی۔ اور جب اندلس کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو بربروں نے عربوں کا قتل عام شروع کردیا، اندلس کے باشندے بھی ان کے ساتھ ہولیے اسی دوران یمنی اور مصری عربوں میں خانہ جنگی اور اندلس میں خونریزی شروع ہوگئی۔
اندلس کے بربر شروع میں بربر حکومت کے خلاف اٹھے تھے لیکن پھر ان کی مخالفت عربوں تک وسیع ہوگئی اور انھوں نے جلیقیہ اور استزقہ وغیرہ سے جہاں جہاں عرب آباد تھے ان کو نکال کر قتل عام شروع کردیا اور عرب ہر طرف سے اکٹھا ہوکر اندلس میں جمع ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب قیروان کے عرب اس وقت خطرہ محسوس کرنے لگے جب بربر نے شامی فوج کو شکست دے دی۔ اور قیروان سے تین میل کے فاصلے پر خیمہ زن ہوئے۔ اب جنگ کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
علما جہاد کرنے کی ترغیب اپنی تقاریر کے ذریعے دے رہے تھے، خواتین بھی پرجوش تھیں وہ اپنی عزت اور شکست کا احساس دلا رہی تھیں کہ ہارنے کے بعد کچھ نہیں بچتا ہے، عزت، جان و مال، اقتدار، آزادی سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے، اسی وجہ سے عرب اس جانبازی سے حملہ آور ہوئے کہ تلواریں ٹوٹ گئیں اور بربر کی ٹڈی دل فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ عربوں نے دور تک ان کا تعاقب کیا اور قتل کرکے ان کا نام و نشان مٹا دیا اس جنگ میں دو لاکھ کے قریب بربری کام آئے اور شمالی افریقہ میں ان کی قوت ٹوٹ گئی۔
آج بھی مسلم ممالک صرف اور صرف اپنے مفادات کی بات کرتے ہیں نہ جہاد پر ان کا یقین ہے اور نہ مسلمانوں کی جان و مال کا خیال۔ اگر خیال یا یقین ہے تو وہ جانتے ہیں کہ جہاد کا حکم اللہ نے دیا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور جنگ بدر کا واقعہ بھی منافقت اور جہاد کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے تو قرآنی تعلیمات کے تناظر میں بھلا کون سا مسلمان ایسا ہوگا جو جہاد کی فرضیت پر یقین کامل نہ رکھتا ہو؟
لیکن کیا کیا جائے دنیا کی طلب نے اسلامی احکامات کی روگردانی کرنے پر مجبور کردیا ہے عیش و عشرت نے غفلت کا غلاف بصیرت و بصارت پر چڑھا دیا ہے۔ امت مسلمہ کا ہر فرد اس بات پر ضرور غور کرے۔ آج دوسرے اسلامی ممالک سپر پاور طاقتوں کے ہاتھ پامال ہوئے، کل اللہ نہ کرے ہماری باری بھی آسکتی ہے۔ اس لیے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا ہو جائے تب ہمارے کشمیری بھائیوں کی طرح کوئی اس قدر کرب سے نہیں گزرے گا۔
بھارت ایک بددیانت، طمع پرست اور غیر مہذب ملک ہے، اس کے غاصبانہ عمل نے مقبوضہ کشمیر میں مساجد میں عید کی نماز پر بھی پابندی لگا دی لیکن بہادر جری کشمیری جن کی عظمت، ہمت اور شجاعت کو سلام کہ وہ کرفیو کے باوجود نماز جمعہ اور عید کی نماز کے لیے جوق در جوق باہر نکلے، سر پر کفن باندھ کر پھر وہی ہوا بھارتی افواج نے عبادت کرنے والوں پر گولیاں برسائیں اور کئی نوجوان شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ یہ کیا جانیں جذبہ ایمان اور شوقِ شہادت کیا چیز ہے؟
دواؤں اور خوراک کی قلت نے قحط جیسی صورتحال پیدا کردی اور بھارتی سپریم کورٹ نے انصاف کا خون بے دردی سے بہایا۔ کیا یہ انسان نہیں ہیں؟ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ اتنا ظلم نہ کریں کہ خود بھی انھی حالات کا شکار ہوجائیں۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے، ہر عروج کو زوال ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان کا بچہ بچہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے۔