مژگاں تو کھول
یہ وہ پہلا سیلاب بلا تھا جس کا شہر کراچی نے سامنا کیا، اس کے بعد سے اب تک کراچی کے سر سے کیسے سیلاب گزرے ہیں۔
صدیوں پرانی بات ہے، بحیرہ عرب کے کنارے مچھیروں کی ایک بستی کھارو ماچھی تھی جو زمانے کے زیر و زبر سے گزرتی ہوئی مائی کولاچی اور پھر کرانچی کے نام سے یاد کی گئی۔ ایک پرسکون اور سوتی جاگتی بستی جسے آباد کرنے میں ہندو، پارسی اور انگریز سب ہی شامل تھے۔ انگریزوں نے کراچی کو 1839 میں فتح کیا، چند توپیں چلیں، جس قلعے کا بہت شہرہ تھا، وہ ریت کا ڈھیر ثابت ہوا۔ یوں کسی زیادہ مار کاٹ کے بغیر انگریز اس پر قابض ہو گئے، اس کے بعد اس ساحلی شہر کی قسمت بدلتی چلی گئی۔
انگریزوں کی فتح سے پہلے یہ 1811 ۔ 1812 کی بات ہے جب آس پاس کے علاقوں میں بھیانک قحط پڑا، ہر طرف سے لوگوں نے سندھ اور کراچی پر یلغار کی۔ بھوک سے بے شمار لوگ پَرلوک سدھار گئے، ان میں سے جو مسلمان تھے وہ جنت کو گئے۔ ایسے میں کراچی کے دو دیالو دھنوان سیٹھوں دریانومل اور سیٹھ لعل منی داس تھے جو ان خبروں کا خنجر نہ سہہ سکے۔ ان کے گودام اناج سے بھرے ہوئے تھے، ان دونوں سیٹھوں نے اناج کے اپنے گودام لوگوں کے لیے کھول دیے۔ وہ لوگ جنھیں اناج دیا جا رہا تھا ان میں ہندو، مسلمان، سکھ یا دوسرے لوگوں کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ ہر ضرورت مند کو روزانہ سیر بھر باجرا یا چاول دان میں دیا جاتا۔
یہ سلسلہ صبح سے رات تک جاری رہتا۔ بہت سے ایسے لوگ جو شہر میں نام دار تھے، وہ اپنے پٹکوں اور اجرکوں سے اپنا چہرہ چھپائے آتے اور خاموشی سے خیرات لے کر چلے جاتے۔ اس کے باوجود کچھ عزت داروں کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرم آتی تھی۔ یہ بات سیٹھ لعل منی داس اور سیٹھ دریانومل کو معلوم ہوئی تو انھوں نے حکم دیا کہ گوداموں کے چراغ رات میں گل کر دیے جائیں اور آنے والوں کی جھولیاں بھر دی جائیں۔ یہ تاریخ پڑھتے ہوئے مجھے لکھنو کے نواب آصف الدولہ یاد آئے جنھوں نے قحط سالی کے زمانے میں اپنے لوگوں کی دست گیری کے لیے بڑا امام باڑہ تعمیر کرایا تھا اور وہاں بھی اشراف کی امداد کے لیے رات کو چراغ اور ہنڈے گل کردیے جاتے تھے۔
بات ہو رہی تھی سندھ کے دو سیٹھوں کی۔ کہا جاتا ہے کہ شہر کے معذوروں کے لیے انھوں نے یہ انتظام کیا تھا کہ انھیں گھر بیٹھے اناج پہنچا دیا جائے، یہ نہ ہو کہ وہ اپنی مجبوری یا شرم و حیا کے سبب گھر بیٹھے رہ جائیں اور باجرے یا چاول کی رسد سے محروم رہ جائیں۔ دان پُن کا یہ رویہ اس نئی بستی میں آکر آباد ہونے والے پارسیوں تک دراز ہوا۔ ان کی داد و دہش نے جدید انداز اختیار کیا۔ انھوں نے پاٹھ شالے، اسکول، کالج، ڈسپنسری اور اسپتال کھولے۔ ان کی یہ خدا ترسی صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھی، جانوروں کے لیے بھی انھوں نے پیاؤ بنائے اور اسپتال بنائے۔
یوں ایک چھوٹی سی ساحلی بستی ایک جمے جمائے شہر میں بدل گئی۔ اس شہر کو انگریزوں نے فتح کیا تھا لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ فاتح اپنے مفتوح کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں۔ انگریزوں کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا۔ انھوں نے سندھ اور کراچی کو فتح کیا اور پھر اسے ''ملکہ مشرق'' کے نام سے پکارا۔ یہ پیش گوئی کی آنے والی دہائیوں میں یہ شہر ایشیا کے اہم ترین شہروں میں سے ہوگا۔ انھوں نے اس شہر کی زمین پر کیسی کیسی عمارتیں بنائیں، اسے سجایا اور سنوارا، ایک نئی بود و باش سے اسے آشنا کیا۔ پرانے کراچی کی یادوں کی جھلک دیکھنی ہو تو پیر علی محمد راشدی کی تحریر پڑھیے۔ وہ لکھتے ہیں:
''کیا حال سناؤں پرانے کراچی کا؟ لفظوں کے لباس میں اس ماحول کو سامنے نہیں لا سکتا۔ وہ کراچی شہر نہ تھا، گلشن تھا، گلستان تھا۔ آبادی ڈھائی تین لاکھ کی تھی۔ صفائی میں پورے برصغیر میں پہلے نمبر پر۔ دو تین لاکھ کی آبادی خوش حال، صاف ستھری اور عمدہ تھی جسے اپنے شہر کی شان کا پورا احساس تھا۔ لوگ سڑکوں پر نرمی سے قدم رکھتے تھے جیسے پیروں کے نیچے پھول بچھے ہوں، یعنی سڑکوں تک کا احترام ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ بڑی بات یہ کہ نہ جیب کتروں کا خوف تھا، نہ چھرا بازوں، نہ لٹیروں کا، نہ مسجدوں سے جوتیاں چرانے والوں کا، نہ فقیروں کا، نہ مکھیوں کا، نہ مچھروں کا۔ اس قسم کے لوگوں یا کیڑے مکوڑوں کو جرأت ہی نہ ہوتی تھی کہ کراچی کا قصد کریں۔''
پیر علی محمد راشدی کو کئی دوسروں کی طرح کراچی سے سچا عشق تھا۔ وہ کراچی کی الفنسٹن اسٹریٹ اور اس پر قائم بڑی بڑی دکانوں کا ذکر بڑے چاؤ سے کرتے ہیں۔ ڈوسل، بلس، سیٹھ نسروان جی مہتا اور کئی دوسرے پارسی تاجر جن کے نام کا شہر اور صوبے میں ہی نہیں ممبئی میں بھی ڈنکا بجتا تھا۔
راشدی صاحب اپنے اس مضمون میں کراچی اور سندھ سے نامی گرامی لوگوں، استادوں، مائی جیٹھی، سپاہی ملانی، میر ایوب خان کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے کراچی میں انجمن ترقی اردو کی پہلی شاخ کھلوائی۔ وہ اردو اور فارسی ادب کے رسیا تھے۔ سندھی کے عشاق میں ان کا شمار ہوتا تھا اور بقول راشدی صاحب، ان کی رحلت کے بعد سندھ کی ٹوپی میں جو پھول ٹکا ہوا تھا، وہ گر پڑا اور ان کی کمی کوئی شخص پوری نہ کر سکا۔
کراچی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کے چاہنے والے اس پر جان نثار کیے دیتے تھے، ایسے میں اس شہر کو برصغیر کی تقسیم کا سامنا کرنا پڑا۔ لٹے پٹے فساد زدہ انسانوں کا شہر کراچی نے سامنا کیا۔ ہمیں عمومی طور پر بتایا جاتا ہے کہ جنوری 1948 میں جو فسادات ہوئے، ان میں انسانی جانوں کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا لیکن سندھ کے نامور دانشور سوبھو گیان چندانی کی یاد داشتیں ہمیں کچھ اور کہانی سناتی ہیں۔ وہ اپنی بلڈنگ میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے جب انھیں لوگوں کے لڑنے اور چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیں۔
ابھی وہ فیصلہ ہی کر رہے تھے کہ کیا کریں جب ان کی چھوٹی بیٹی نے دوڑ کر انھیں بتایا کہ نیچے گلی میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ سوبھو صاحب لپک کر گیلری تک گئے اور انھوں نے ''مارو، کاٹو، لوٹو'' کی آوازیں سنیں اور پھر کم عمر نوجوانوں کو باورچی خانوں سے برتن بھانڈے، الماریاں اور چھوٹی میزیں اٹھا کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔ پھر پاکستان ریلوے کا ایک مسلمان کارکن وزیر خان انھیں گھسیٹ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ فوراً یہاں سے نکلو۔ وہ وزیر خان کے پرزور اصرار پر اپنا گھر چھوڑ کر اس کے گھر میں پناہ لیتے ہیں۔
سوبھو صاحب کمیونسٹ تھے، انھوں نے اپنے سیاسی نقطہ نظر کے مطابق لوگوں کو ہندو اور مسلمان کی عینک سے نہ دیکھا۔ 6 جنوری 1948 کو وہ انسانوں کی خیر مانگتے رہے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتے رہے۔
یہ وہ پہلا سیلاب بلا تھا جس کا شہر کراچی نے سامنا کیا، اس کے بعد سے اب تک کراچی کے سر سے کیسے سیلاب گزرے ہیں۔ نفرت اور عداوت کے سیلاب، خوں ریزی اور قتل و غارت گری کے سیلاب اور آسمان سے برسنے، زمین سے ابلنے والا وہ سیلاب جس نے ہمارے شہر کو غارت کردیا۔ (جاری ہے)