حکومت اساتذہ اور والدین تعلیم کے معاملے میں سبھی غیر سنجیدہ

محروم طبقات کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے ان کے خاندانوں کے معاشی مسائل بھی حل کرنا ہوں گے


Rana Naseem September 22, 2013
محروم طبقات کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے ان کے خاندانوں کے معاشی مسائل بھی حل کرنا ہوں گے۔ فوٹو: فائل

HUNZA: ''تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔''، ''تعلیم ہی قوموں اور معاشروں کو مہذب بناتی ہے۔''

''آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ جہالت ہے۔''، ''تعلیم زندگی کیلئے تیاری نہیں بلکہ بذات خود زندگی ہے۔''، ''ایک انسان اس وقت تک معاشرے کے لیے مفید نہیں بن پاتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو۔''، ''پڑھی لکھی ماں ہی بہترین معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتی ہے۔''۔۔۔ یہ وہ رٹے رٹائے بیانات ہیں جو پبلک سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر تک ہر صاحب اختیار اور اقتدار کی زبان پر ہوتے ہیں۔ حکومتی اجلاسوں، جلسوں اور این جی اوز کی مہنگے ہوٹلوں میں تعلیمی کانفرنسز تک ہر مقرر جب بولتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر پاکستان میں تعلیمی بدحالی کا کوئی غم خوار ہی نہیں... لیکن افسوس! تعلیمی پسماندگی کے درد میں ڈوب کر کی جانے والی یہ تمام جوشیلی تقاریر صرف لفظوں کی حد تک محدود ہیں، عملی کوششوں سے ان کا دور دور کا کوئی رشتہ نہیں۔



قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک میں جتنی بھی تعلیمی پالیسیاں بنیں وہ کسی نہ کسی فرد واحد کی ذاتی پسند نا پسند یا نئے نئے تجربات کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ پبلک سیکٹر میں تو شعبہ تعلیم کا جو حال تھا سو وہ ہے ہی لیکن پرائیویٹ سیکٹر نے بھی اس کی بدحالی میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کا جو پودا لگایا گیا وہ آج تناور درخت بن چکا ہے۔ آج ہر گلی کی نکڑ پر قائم پرائیویٹ سکولز نے معیارِ تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا، لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، کیوں کہ پوچھنے والے تو خود اس پستی کے ذمہ دار ہیں۔ تعلیم انسان کو اپنی صلاحیت پہچاننے اور اس کی بہترین تربیت کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے اور یقینا ً تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہتر سماج اور ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کی کہانی میں تعلیمی اداروں کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جس قوم نے اس میدان میں عروج حاصل کیا، باقی دنیا اس قوم کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی گئی۔ جاپان اور اٹلی جیسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو راکھ کے ڈھیروں سے اٹھے اور دنیا بھر میںاپنا سکّہ منوا چکے ہیں۔

یہ بات قابل فخر ہے کہ پاکستان میں رائج تعلیمی نظام دنیا کے چند بڑے نظاموں میں سے ایک ہے۔ شعبہ تعلیم فوج کے بعد ملک کا سب سے بڑا ادارہ اور اساتذہ دوسری بڑی فورس ہیں جن کی تعداد 8لاکھ ہے اور اگر اس میں ملک بھر کے پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ کو بھی شامل کر لیا جائے جو تقریباً 8 لاکھ ہیں تو پھر یہ ملک کی سب سے بڑی فورس بن جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ51 ہزار پرائمری سکول، 14ہزار8 سو مڈل اور10ہزار سے زائد ہائی سکول رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ اداروں کی تعداد بھی ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن افسوس اتنا بڑا تعلیمی نظام اور فورس ہونے کے باوجود پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، دنیا کا ہر دسواں بچہ جو سکول نہیں جاتا پاکستانی ہے۔



پاکستان شرح خواندگی میں دنیا کے 162 اور پرائمری کی تعلیم کے معیار میں 116 ممالک سے پیچھے ہے۔ قیام پاکستان سے شرح خواندگی 16.4 سے 2009 تک 57 فیصد اور تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اب 58.5 فیصد تک پہنچائی جا سکی ہے۔ صوبائی سطح پر سب سے زیادہ شرح خواندگی (59فیصد) پنجاب اور کم بلوچستان میں (تقریباً 45فیصد) ہے۔ شہروں میں سب سے پہلا نمبر اسلام آباد کا ہے جہاں شرح خواندگی 82 فیصد ہے، پھر کراچی اور راولپنڈی 79 اور لاہور میں شرح خواندگی 77فیصد ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بحیثیت قوم ہماری مشکلات کے محرکات ہمارے نظام تعلیم کی خرابیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ آئیے ان محرکات کا جائزہ لیتے ہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ ملک میں شعبہ تعلیم کی زبوں حالی کی کیا وجوہات ہیں اور اس میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟



٭گو کہ پاکستان میں شعبہ تعلیم کے لئے بہت بڑا نظام موجود ہے لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ ہماری تعلیمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ جن شہروں میں ترقی کے آثار ہیں وہاں تو تعلیمی حالات کچھ بہتر ہیں لیکن دیہی علاقوں میں تعلیمی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ وہاں تعلیمی ادارے آسانی سے عوام کی پہنچ میں نہیں ہیں۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کو تو چھوڑیئے صوبائی دارالحکومت لاہور کے قریب واقع اضلاع گجرات، حافظ آباد، سرگودھا کے بہت سے دیہات ایسے ہیں جہاں آج بھی سرکاری تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔ اور ان اداروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کے بجائے ضم کرنے کی پالیسیاں اپناتے ہوئے کمی آتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی صرف بات کریں تو یہاں اساتذہ کی تعداد تو 3لاکھ 30 ہزار ہے لیکن سکولز چند سال میں ہی 85ہزار سے کم ہو کر 56 ہزار پر آگئے ہیں۔



پنجاب بھر میں 3 کروڑ 74 لاکھ 63 ہزار بچے سکولز میں داخل ہیں جن میں تعلیمی درجہ بندی کچھ یوں ہے کہ پرائمری میں 2 کروڑ 26 لاکھ 50 ہزار، سکینڈری 28 لاکھ 84 ہزار 4 سو جبکہ ہائی سکولز میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد 13 لاکھ 49 ہزار بنتی ہے۔ تعلیمی اداروں کی کمی کے مسئلہ کی تفہیم کو مزید آسان بنانے کے لئے یہ مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ حال ہی میں میٹرک کے نتائج کا اعلان کیا گیا، جس میں لاہور بورڈ سے ایک لاکھ 20 ہزار بچوں نے کامیابی حاصل کی لیکن لاہور کے 51سرکاری کالجز میں صرف 45 ہزار سیٹیں دستیاب ہیں، تو سوال یہ ہے کہ باقی 75ہزار بچے کہاں جائیںگے؟ جن کے والدین سکت رکھتے ہیں وہ تو پرائیویٹ کالجز میں چلے جائیں گے اور جن کے پاس نہیں وہ مجبوراً پھر تعلیم کو خیر باد ہی کہیں گے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ دیہی علاقوں میں اتنے فاصلے پر سکول و کالج بنائے جائیں کہ جن تک پہنچنا طلبہ و طالبات کے لئے باآسانی ممکن ہو۔



٭ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں والدین بچوں خاص کر بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ غربت اور مہنگائی کی وجہ سے وہ اپنے بچوں سے مزدوری کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں والدین کو رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کس طرح حصول تعلیم سے ان کے بچے بہتر انداز میں گھر چلا سکتے ہیں اور غربت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان بھی چھوٹ سکتی ہے۔ آگاہی مہمات چلانے کے ساتھ حکومت اگر حقیقتاً تعلیم کو اس ملک کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھتی ہے تو بچوں کو ماہانہ بنیادوں پر کم از کم اتنا وظیفہ تو دیا جائے جتنا کہ ایک بچہ ورکشاپ پر کام سیکھتے ہوئے گھر لا کردیتا ہے اور یہ بہت زیادہ نہیں بلکہ صرف 60 سے 100 روپے کے درمیان ہوگا۔ حکومت کو سوچنا ہو گا کہ اگر ڈینگی کے خاتمے کے لئے ایک ٹھوس، مضبوط اور تیز رفتار مہم چل سکتی ہے تو پھر جہالت کے خاتمے کے لئے بھی ہنگامی بنیادوں پر کام ہوسکتا ہے۔

٭ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر کاوش کرکے نصاب کی مہنگی کتابوں کو سستے داموں غریب عوام تک پہنچایا جائے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر نے 60روپے والی کتاب کو 85اور کچھ تو 60روپے سے133روپے تک پہنچا دیا ہے، جو کسی طور بھی غریب کی پہنچ میں نہیں۔



٭ ''مار نہیں پیار'' کی پالیسی پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ آج بھی دیہات کو چھوڑیئے بعض شہروں میں بھی اساتذہ بچوں کو ایسی جسمانی سزائیں دیتے ہیں جو انہیں تعلیم سے دور بھگانے کا سبب بن رہی ہیں۔

٭ گھوسٹ سکول یعنی ایسے تعلیمی ادارے جو صرف کاغذات کی حد تک موجود ہیں عملاً وہاں درس و تدریس کا نام و نشان تک نہیں اور تنخواہیں باقاعدگی سے سرکاری خزانہ سے وصول کی جا رہی ہیں۔ گھوسٹ سکولز کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا اور متعلقہ اداروں کو کارروائی کے احکامات جاری کر رکھے ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اب بھی ملک بھر میں تقریباً 13ہزار گھوسٹ سکول موجود ہیں۔



٭ دیہات میں موجود اساتذہ کی تعیناتی خالصتاً میرٹ پر نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے غیر تربیت اور کم تعلیم یافتہ اساتذہ سکول میں چلے جاتے ہیں اور نظام تعلیم کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ تعلیمی سال کے ایک بڑے عرصے میں ایسی سرگرمیوں میں مصروف کردیئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے سکولوں اور کالجز میں تعلیم دینے کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ الیکشن و امتحانی ڈیوٹی، پولیووخسرہ مہم، یوتھ فیسٹیول سمیت ہر قسم کی مہمات میں اساتذہ کو مصروف کردیا جاتا ہے اور طلبہ تعلیمی اداروں میں ان کا راستہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ چھوڑیں ترقی پذیر ممالک میں بھی اساتذہ کو رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن ہماری صورتحال یوں ہے کہ یہاں ایک استاد کو جو کچھ ملتا ہے، اسے معاوضے سے زیادہ محاصرہ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔



اس محاصرے میں ایک چھوٹا سا گندا مکان جس میں لوڈشیڈنگ سمیت فاقہ مستی جیسی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ نسل نو جس کے بارے میں یہ واویلا کیا جاتا ہے کہ اسی نے ملک سنبھالنا ہے(حالاںکہ اس میں صرف امراء کے 2فیصد بچے ہی آتے ہیں) کی زندگی بنانے والے استاد کی اپنی زندگی، تمام عمر بنانے اور بچانے میں صرف ہو جاتی ہے۔ استاد کا معاشرتی سٹیٹس دیکھ کر یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سرکار کو نہ تو لوگوں کی زندگی بنانے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی زندگی بچانے میں۔ اساتذہ کو اگر معاشرے میں کوئی مقام نہیں ملے گا تو ان کی دی ہوئی دانش پر کون طالب علم یقین کرے گا؟ اور طالب علم یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ جو چیز (مقام) دانشور کے پاس نہیں وہ ہمیں کیا دے گا۔ لہذا استاد کی معاشی آسودگی کے ساتھ ریفریشر کورسز اور سکول میں حاضری کو یقینی بنایا جائے۔



٭ تعلیمی اداروں میں فرنیچر، چاردیواری، بجلی، پانی اور ٹائلٹ سمیت دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان اس شعبہ کی زبوں حالی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے 9 فیصد سکول ذاتی عمارت، 37 فیصد چاردیواری، 34 فیصد پانی، 37 فیصد بیت الخلاء اور 59 فیصد بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔

٭ امتحانی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ طلباء و طالبات بغیر بجلی کے شدید موسمی حالات کا سامنا کرتے ہوئے پرچہ دینے کے مرحلے سے لے کر غلط نتائج بھگتنے تک کا سفر طے کرتے ہیں۔ امتحانی نظام کے بگاڑ کی وجہ سے طلبہ صرف تعلیم ہی سے نہیں بلکہ بعض تو زندگی سے ہی مایوس ہو جاتے ہیں۔



٭ یکساں نصاب و نظام تعلیم ملکی سمت کو درست پگڈنڈی پر چڑھا سکتا ہے اور اس سے نہ صرف امیر و غریب کا فرق ختم ہو گا بلکہ شرح کے ساتھ معیار تعلیم میں بھی بڑھوتری آئے گی۔ نصاب سازی کے دوران یہ خیال رکھا جانا چاہیے کہ نصاب میں ایسا تعلیمی مواد شامل کیا جائے جو پاکستانی عوام کو اپنے مذہب اور اقدار سے دور نہ کرے جبکہ حالیہ نصاب میں اس کا خیال بالکل نہیں رکھا جا رہا۔ نصاب میں دینی عقائد کی پاسداری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی ابھارا جائے۔ نظام تعلیم کا مقصد صرف کلرک پیدا کرنا نہ ہو بلکہ ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جس سے حب الوطنی میں بھی اضافہ ہو۔

٭ تعلیم کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ ایجوکیشن پالیسز تو بنتی ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد ہونے سے قبل ہی دوسری پالیسی آجاتی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ایجوکیشن پالیسی کے تحت جوسفارشات پیش کی گئیں ان میں سے صرف 25 فیصد اصلاحات پر عمل ہوا۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی طور پر مقررہ معیار کے مطابق قومی مجموعی پیداوار کے 4 فیصد تک لایا جائے اور پھر اس بجٹ کے شفاف استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کے لئے مختص کی جانے والی رقوم 1947ء سے اب تک کل قومی پیداوار کے 2.1 فیصد سے کبھی آگے ہی نہیں بڑھ سکی، حالاں کہ ہمارے وجود سے کٹ کر الگ ہونے والا حصہ بنگلہ دیش بھی تعلیم پر کل قومی پیداوار کا 2.6فیصد، برونائی 9.1فیصد، ملائیشیا 8.1فیصد اور بھارت 4.1 فیصد خرچ کرتا ہے۔



تعلیم کے حصول کا مقصد صرف معاشی ترقی نہیں بلکہ معاشرتی و اخلاقی اقدار کا بام عروج بھی اسی کے مرہون منت ہے۔ تعلیم شعوری ترقی کا نام ہے، یہ نہیں ہے تو پھر سنبل زیادتی کیس جیسے واقعات (جو پورے معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہیں) رونما ہوتے رہیں گے۔ عالمی معاہدوں کے تحت پاکستان کو 2015ء تک شرح خواندگی کو 88 فیصد تک لانا ہے، لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ جی ہاں یہ ممکن ہے اور اس کے لئے کسی قارون کے خزانے کی بھی ضرورت نہیں... بس پاکستان کے تمام امراء، سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹ، بزنس مین، سماجی رہنما اپنے بچوں کو بیرون ملک یا اندرون ملک بڑے بڑے اور مہنگے غیر ملکی اداروں کے بجائے سرکاری سکول میں داخل کروادیں۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہمیں فیس معافی اور مفت کتب کی ضرورت ہوگی نہ دانش سکول جیسے اربوں روپے مالیت کے منصوبے چلانے پڑیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ پاکستان میں معیاری تعلیم کے ساتھ شرح خواندگی 88 کے بجائے 98فیصد تک پہنچ جائے گا۔ کیوں کہ تب ہی تو مقتدر حلقوں کو پتہ چلے گا کہ ہمارے تعلیمی نظام کے اصل مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جائے گا؟

تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے ابتدائی تعلیم کو قومی امنگوں کے مطابق استوار کیا جائے، پروفیسرمحمداکرم چوہدری:

یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر و ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے پاکستان کے تعلیمی نظام کی پسماندگی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ نظام تعلیم میں سب سے زیادہ اہم چیز ابتدائی تعلیم ہے اور اسی کی بنیاد پر پورا تعلیمی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آج تک ابتدائی تعلیم کو قومی امنگوں کے مطابق استوار کرنے کی سعی ہی نہیں کی گئی۔ آج ہر بندہ بچے کو پیدا ہوتے ہی انگریزی سکھانا چاہتا ہے اور 17 بچوں میں سے 12بچے صرف انگریزی کی وجہ سے ہی تعلیم سے بھاگ جاتے ہیں۔ لہذا شرح خواندگی اور معیارِ تعلیم میں اضافہ کے لئے پرائمری سطح پر اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔



تعلیمی زبوں حالی کی دوسری بڑی وجہ دوہرا نظام تعلیم ہے، یکساں تعلیمی نظام نہ ہونے سے معاشرے میں احساس کمتری بڑھ رہا ہے اور نتیجتاً غریب کا بچہ بھی تعلیم سے دور جا رہا ہے۔ تیسری وجہ شعبہ تعلیم میں متعلقہ افراد کی عدم دستیابی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کا کہنا تھا کہ بحثیت قوم ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج اساتذہ طلبہ کو پڑھا رہے ہیں نہ ان سے کوئی پڑھنے والا ہے۔ فرائض کی ادائیگی میں دیانتداری پہلی شرط ہے اور یہی چیز کسی بھی کام کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شعبہ تعلیم میں مانیٹرنگ سسٹم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر بندہ اپنا کام دیانتداری سے کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں معیاری تعلیم کے ساتھ شرح خواندگی میں اضافہ نہ ہو۔ اساتذہ دیانتداری سے پڑھائیں اور مانیٹرنگ کرنے والے ادارے انصاف کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں