حمیدی اور رشید جونیئر
ہمیں اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ ہم بنوں کے کس تاریخی مقام پر رہائش پذیرہیں۔
وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ چار پانچ لڑکوں کو پرنسپل کے آگے اس الزام میں پیش کیاگیا کہ وہ فٹ بال کھیل رہے تھے۔ کل پانچ لڑکے تھے،پوچھنے پر ہرلڑکے نے بتایا دیا کہ وہ کس پوزیشن پرکھیل رہے تھے۔ پانچواں لڑکا خاموش تھا، اس سے بھی پوچھا گیا کہ تم کس پوزیشن پر کھیل رہے تھے۔
اس نے کہا، کسی بھی پوزیشن پر نہیں۔ بلکہ میں ہی تو وہ بدنصیب ''فٹ بال''تھا جس سے یہ لوگ کھیل رہے تھے۔ہم بھی جب اپنی پوزیشن کے بارے میں سوچتے ہیں تو زندگی کے اس وسیع وعریض گراونڈ میں ہماری حیثیت بھی''فٹ بال''کی رہی ہے جس سے ہر ہر طرح کے کھلاڑی جی بھر کرکھیل لیتے تھے۔بلکہ کھیلتے بھی اتنے زیادہ نہیں تھے ''پنلٹی کک''لگایا کرتے تھے۔
کیونکہ فٹ بال اور ہاکی کا کھیل بھی اس عجیب وغریب اصول پرکھیلا جاتاہے کہ غلطی یا فاؤل کھلاڑی کرتے ہیں اور پنلٹی کک یا پنلٹی اسٹروک ''بال''کوپڑتا ہے جو سراسر بے قصورہوتاہے۔یہ کھیلوں کا موضوع اس لیے سامنے آگیا کہ گزشتہ روز ہم نے ایک تاریخی شخصیت حمیدالدین عرف ''حمیدی''کی وفات کی خبرسنی جو ایک زمانے میں ملک بھرکا ہیروتھا جو اس ہاکی ٹیم کا کپتان تھاجس نے اولمپک میں پاکستان کے لیے ہاکی کا ورلڈکپ شاید پہلی بار جیتاتھا، ان دنوں گراونڈ کے پنلٹی ککس اور پنلٹی اسٹروکس کی برکت سے ہم بنوں شہر میں ٹھیک حمیدی کے گھر کے سامنے رہتے تھے۔کیوں رہتے تھے ،کیسے رہتے تھے اور اپنے گاؤں نوشہرہ سے اتنی دور بنوں میں ہمیں کس کک یا اسٹروک نے پہنچایا تھااسے رہنے دیجیے لیکن حمیدالدین عرف حمیدی کے والد ''عبداللہ جان وکیل''کے گھر کے سامنے رہتے تھے۔
عبداللہ جان وکیل خود بھی اپنے علاقے کی مشہور شخصیت تھے جوبنوں کے اسپتال روڈ پراپنے بڑے سے حویلی نماگھر میں رہتے تھے۔اس کے سامنے والی گلی کے نکڑ پرہماری رہائش بھی ایک ٹوٹے پھوٹے اور جھولتے ہوئے گھر میں تھی۔جس کے نیچے والے گیراج میں ہم مصالحہ کوٹتے اور ڈبوں میں بند کرتے تھے۔حمیدی کوہم نے صرف ایک بار دور سے دیکھا تھا کیونکہ وہ اپنی فوجی ملازمت کے سلسلے میں ہمیشہ باہررہتے تھے۔ ورلڈکپ جیتنے کے بعد بنوں میں ہاکی کا کریز ہوگیاتھا جوکسی حدتک اب بھی ہے۔ جگہ جگہ بچے سڑکوں پرہاکی کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس زمانے میں دوسرے بہت سارے لڑکوں میں سے ایک حمیدی کا سب سے چھوٹا بھائی''رشید''بھی تھا جو بعد میں رشیدجونئیر کے نام سے ہاکی اسٹار اور ہیرو بن گیا تھا لیکن اس زمانے میں چودہ پندرہ سال کا ایک شریر لڑکاتھاجس کی شرارتوں سے ہم اتنے نالاں تھے کہ کبھی کبھار اسے پیٹ بھی ڈالتے تھے۔
اس کا ایک اور ساتھی تھا غیاث الدین جس کا تعلق ہماری گلی کے ایک بڑے گھرانے سے تھا۔ عبداللہ جان وکیل کا گھرانا وکیلوں کا گھرانا تھا اور غیاث الدین کا گھرانا ڈاک خانے والوں کا گھرانا کہلاتاتھا کیونکہ اس گھرانے کا سربراہ اپنے وقت میں پوسٹ ماسٹر رہاتھا۔غیاث الدین اور رشید اس محلے کے باقاعدہ چھوٹے ''دادا''تھے۔کسی کی مجال نہیں تھی ان دونوں کا سامنا کرنے کی۔صرف ہم تھے جن کی پیش دستی اور دھول دھپا کاوہ برا نہیں مانتے تھے، شاید پشاور کے مہمان یا شاعر ہونے کی وجہ سے۔ان دونوں کو ٹیوشن دینے کے کے لیے مشہور ومعروف ریاضی کے استاد میرقلم خان نیازی آتے تھے جن کا بیٹااعجازنیازی بعد میں ٹی وی کا مشہورپروڈیوسر بنا۔
ہمیں اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ ہم بنوں کے کس تاریخی مقام پر رہائش پذیرہیں۔ایک طرف حمیدی اور رشیدجونئیر کا گھر سامنے تھا تو آگے جو ایک گلی بنوں سے باہرجاتی تھی وہ شہر سے ملحق ایک گاؤں تک جاتی تھی جس کا نام اب یاد نہیں لیکن ہم وہاں ڈاکٹراسلم کی ہمراہی میں ایک عالم قاضی عبدالرحمان یا حبیب الرحمان کے پاس جاتے تھے جن کا فرزند پشاور یونیورسٹی کے عربی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ قاضی مجیب الرحمان ہوئے تھے اور پھر ان کا بیٹا ''قاضی محب''تھا جو حمیدی اور رشید کی طرح ہاکی اسٹار اور کپتان بناتھا۔
لیکن نہایت دکھ کے ساتھ یاد آتا ہے کہ بھرپورنوجوان ہاکی اسٹار ایک گیند لگنے کی وجہ سے غالباً گھٹنے پرکینسر کا شکار ہوئے اور نوجوانی میں اپنے والدین کے ساتھ ساتھ بہت سارے پرستاروں کو بھی سوگوار کر گئے۔حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں ہمیں احساس تک نہیں تھا کہ ہم اس چھوٹی سی سڑک اسپتال روڈ پرکتنے نابغہ لوگوں کے درمیان رہتے تھے۔اور ڈاکٹراسلم خان تو ہم نے ذکر ہی نہیں کیا جوبنوں میں ہمارے دوست،بھائی سرپرست اور رہنما ورہبر تھے۔
ڈاکٹراسلم کوبنوں میں اگرصحافت کا بانی کہاجائے تو بے جانہ ہوگا۔انھوں نے سب سے پہلا ہفت روزہ پرچہ ''ہلال نو''نکالا تھا جس کے لیے انھوں نے پشاور سے جمیل اخترنام کے صحافی کوبنوں بلوایا تھا۔ ہلال نو ایک نہایت خوبصورت اور موقر مجلہ تھا۔جوبعد میں ایوب خان کا سرکھاکر بندہوا۔ ہم نے صرف اس کی فائلیں دیکھی تھیں۔ڈاکٹراسلم خان خودلکھنے والے نہیں تھے لیکن ان کی سرپرستی نے بہت سارے لکھنے والے اور صحافی پیدا کیے جن میں سے ایک یہ خاکسار بھی ہے۔ان کے دو بیٹے اکرم خان اور اجمل قمر صحافی ہوئے اور دو چھوٹے بیٹے انورخان اور افضل خان سول سروس میں اپنے نقوش چھوڑگئے۔
بریگیڈئر انور ہی پشاور میں ''نادرہ''کے بانی ہیں۔اور افضل خان سیکریٹری کے عہدے پرمختلف محکموں سے ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری ریٹائرڈ ہوئے اور ایک وقت میں ''سیاسی بیانات''کا مرکزی نکتہ بھی بنے۔یہ توسب ہوا لیکن اس کالم کے لکھنے کا باعث بریگیڈئر ''حمیدی'' کی وفات کی خبرہے،جو ایک سنگل کالمی چھوٹی سے خبر بن گئے،شاید کسی نے پڑھی بھی نہ ہو۔حالانکہ وہ بہت کچھ لکھنے اور لکھانے کے قابل تھے لیکن کہاجاتاہے کہ تھانیدار کی بیوی کی موت کاجنازہ اس کے اپنے جنازے سے بہت بڑا ہوتاہے۔
نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خونچکاں مژگان سوزن کو