پشاور اور نیروبی حملوں میں اسٹرٹیجک تعلق موجود ہوسکتا ہے

حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے ملوث نہ ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، ذرائع


Latif Chaudhry September 23, 2013
حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے ملوث نہ ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، ذرائع. فوٹو: فائل

سانحہ پشاور اور کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں صومالی انتہا پسند تنظیم الشباب کے حملے میں کہیں کہیں کوئی اسٹرٹیجک تعلق موجود ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

نیروبی میں غیر مسلموں کو مسلمانوں سے الگ کر کے قتل کیا گیا جبکہ پشاور میں تاریخی پاکستان چرچ کو خودکش حملے کیلیے منتخب کیا گیا۔ اس حملے میں گہری منصوبہ بندی نظر آتی ہے اور یہ کثیر الجہتی مقاصد کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق چرچ حملے کے ماسٹر مائنڈ القاعدہ کے نیٹ ورک سے وابستہ لوگ ہو سکتے ہیں جبکہ ہدف تک پہنچنے کیلیے پاکستان کی کسی کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیم کو استعمال کیا گیا۔ خودکش دھماکے چونکہ پشاور میں ہوئے لہٰذا پہلی نظر کالعدم تحریک طالبان پر اٹھتی ہے لیکن فی الحال طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

ذرائع کاکہنا ہے کہ اس حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے ملوث نہ ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ القاعدہ نیٹ ورک آزادانہ کارروائی کرتا ہے اور وہ اس خطے میں جنگ ختم نہیں کرنا چاہتا۔ القاعدہ کیلیے وطن کی اہمیت نہیں۔ وہ امریکا کو زیادہ سے زیادہ محاذوں پر الجھانا چاہتی ہے۔ اس کیلیے پاکستان کا استحکام اہم نہیں بلکہ اس کیلیے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں کی طرح امریکا کے لیے میدان جنگ بن جائے۔ یوں القاعدہ اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کے لیے میدان جنگ وسیع ہو جائے گا اور امریکا پر جنگی بوجھ مزید بڑھ جائے گا جو بالآخر اس کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔



سانحہ پشاور کے بعد پاکستان بہت مشکل میں پھنس گیا ہے۔ اتوار کو شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ بھی ہوا ہے۔ اب طالبان سے مذاکرات بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ تحریک طالبان پاکستان بھی دلدل میں پھنس چکی ہے اور حکومت کیلیے بھی مذاکراتی دلدل سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ سانحہ پشاور ایسے نازک وقت پر ہوا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف امریکا پہنچ چکے ہیں۔ پشاور میں مسیحی برادری کے قتل عام نے نواز شریف کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے، وہ اپنے دورہ امریکا کے دوران شاید وہ مقاصد حاصل نہ کر سکیں جس کی منصوبہ بندی کر کے وہ وہاں گئے تھے۔

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے متوقع ملاقات میں بھی ان پر دہشت گردوں کیخلاف سخت پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا جائے گا۔ سانحہ پشاور کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف کیلیے عالمی برادری کو طالبان سے مذاکرات کے سامنے پر مطمئن کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اب وزیراعظم نواز شریف پر شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن آپریشن کے لیے دبائو بہت بڑھ جائے گا اور ان کے لیے یہ دبائو برداشت کرنا شاید ممکن نہ رہے۔ آصف زرداری نے اپنی صدارت کے آخری گھنٹوں میں بلاول ہائوس لاہور میں سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے غیر رسمی ملاقات میں خبردار کیا تھا کہ انھیں پاکستان میں شام جیسے حالات پیدا ہونے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں