کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ کیلئے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت

ملک بھر کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی جشن آزادی یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا۔


Shahid Hameed August 21, 2019
ملک بھر کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی جشن آزادی یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا۔فوٹو: فائل

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیرکے سٹیٹس کی تبدیلی سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات پوری طرح خیبرپختونخوا میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ایک مرتبہ پھر وہی جذبات پیدا ہوئے ہیں جو 1948ء میں تھے جب قبائلی،کشمیر کو آزاد کرانے سری نگر تک پہنچ گئے تھے۔

یقینی طور پر ایسے ہی جذبات ملک بھر کی عوام میں بھی پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاں ملک کے دیگر حصوں میں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں اور جلوسوں واحتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا وہیں خیبرپختونخوا میں بھی ان کا انعقاد کیا جا رہا ہے، ملک بھر کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی جشن آزادی یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا اور پھر15اگست کو بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے میں بھی خیبرپختونخوا پیچھے نہیں رہا اور بلیک ڈے بھرپور طریقے سے منایا گیا جس میں تمام سرکاری ونیم سرکاری عمارات پر قومی پرچم سرنگوں رہا جو اس بات کا اظہار تھا کہ بھارتی اقدام پر پوری قوم غم وغصہ کر رہی ہے۔

ان حالات میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ خیبرپختونخوا کی جانب سے مشترکہ آوازعالمی برادری تک پہنچانے کے لیے صوبائی حکومت یا کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرے گی اور زیادہ امکان یہی ظاہر کیاجا رہا تھا کہ اس سلسلے میں پہل اور کوئی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کریگی۔

وزیراعلیٰ محمود خان اے پی سی بلائیں گے جس میں صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور تمام جماعتوں کے پارلیمانی قائدین شرکت کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے اور مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں آواز عالمی برادری تک پہنچائی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور صرف یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی ہو یا جمعیت علماء اسلام (ف)یا پھر مسلم لیگ (ن)،ان میں سے کوئی بھی پارٹی اس موقع پر تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں کر سکی جس کی بڑی وجہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جاری تحریک بتائی جا رہی ہے اور صوبائی قیادت اپنی پارٹیوں کی مرکزی قیادت کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟

اور ان اپوزیشن جماعتوں کی مرکزی قیادت اے پی سی کی صورت میں سامنے آئی ہے جس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے جو بھی کرنا ہے وہ بنیادی طور پر مرکزی سطح پر ہی کریں گی صوبائی سطح پر شاید ہی اپوزیشن جماعتیں کوئی اے پی سی وغیرہ کا انعقاد کریں البتہ احتجاجی مظاہرے اور جلوسوں کا انعقاد وغیرہ ضرور ہوتا رہے گا تاہم جہاں تک جماعت اسلامی کی بات ہے تو وہ اپنے طور پر احتجاجی پروگرام لے کر چل رہی ہے جو25 اگست کو پشاور میں عوامی کشمیر مارچ کا انعقاد کرنے جا رہی ہے جس سے پارٹی کے مرکزی امیر سراج الحق اور کشمیری قائدین بھی خطاب کریں گے جس کے بعد جماعت اسلامی ایسے ہی عوامی کشمیر مارچ کا انعقاد خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں کرنا چاہتی ہے جس کا اعلان 25اگست کے مارچ ہی میں ہوگا۔

دیگر سیاسی جماعتیں بھی کشمیر کے ایشو پر متحرک ضرور ہیں تاہم چونکہ وہ اپوزیشن کے مشترکہ پلیٹ فارم پر یکجا ہیں اس لیے ان کے پروگرام بھی مشترکہ طور پر ہی ہونگے جن میں جہاں کشمیر کا عنصر نمایاں ہوگا وہیں موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت کا رنگ بھی بڑا واضح ہوگا کیونکہ اپوزیشن جماعتیں کسی بھی طور وزیراعظم عمران خان اوران کی حکومت کو ڈھیل دینے کے لیے تیار نہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدام کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ملک کے اندر یکجہتی اور اتحاد واتفاق پیدا کرنے کے لیے اپوزیشن پر ہاتھ ہولا کیا جائے گا تاہم اپوزیشن کو کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے اپوزیشن بھی حکومت مخالف رویئے میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں۔

ایک جانب یہ صورت حال جاری ہے تو دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے سرکاری محکموں سے ایک سالہ کارکردگی کی جو رپورٹ مانگی تھی اس کی ڈیڈ لائن پوری ہوگئی ہے، سرکاری محکموں کی جانب سے جو رپورٹیں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کو ارسال کی گئی ہیں ان کی بنیاد پر صوبائی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ تیار کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو پیش کی جائے گی، انھیں یہ رپورٹ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے پیش کی جائے گی اور یہ رپورٹ عمران خان کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے تناظر میں صوبائی وزراء ،مشیروں اور معاونین خصوصی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے اور اسی کی بنیاد پر ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی کیاجائے گا۔

خیبرپختونخوا کی کابینہ میں ردوبدل کرنے،کچھ کو فارغ کرنے اور کچھ نئے چہروں کو کابینہ کا حصہ بنانے کی باتیں کب سے گرم ہیں لیکن کسی ایک وجہ یا دوسری وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ اب بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہو پائے گی۔معاملات کسی بھی رخ پر جائیں لیکن یہ نظرآرہا ہے کہ صوبائی حکومت کی ٹیم میں اضافہ ہوگا جو ایک جانب اگر قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان کی اسمبلی آمد اور حکومتی ٹیم میں شمولیت سے ہوگا تو دوسری جانب وزیراعلیٰ کے پاس گنجائش موجود ہے کہ وہ مشیروں اور معاونین خصوصی کے طور پر بھی اپنی پارٹی کے ارکان کو حکومتی ٹیم میں شامل کرتے ہوئے انھیں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دے سکتے ہیں۔

گزشتہ پرویزخٹک حکومت نے صوبائی اسمبلی میں غالباً پہلی مرتبہ پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر کرتے ہوئے حکومتی ٹیم کا حجم اچھا خاصا بڑھا دیاتھا، موجودہ وزیراعلیٰ محمودخان نے اگرچہ اپنے پیش روکے نقش قدم پر چلتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر پہلے سال کے دوران تو نہیں کیا تاہم اگر بات ایڈجسٹمنٹ کی آگئی تو اس بات کا امکان ہے کہ وزیراعلیٰ محمودخان بھی پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر کریں جس کی بدولت پی ٹی آئی کے کئی ارکان کی ایڈجسٹمنٹ ہوجائے گی جن میں بندوبستی کے علاوہ قبائلی اضلاع سے منتخب ہوکر آنے والے ارکان بھی شامل ہونگے۔

اگر وزیراعلیٰ محمودخان نے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کو بھی حکومتی ٹیم کا حصہ بنانے کافیصلہ کیا یا پھر ان میں سے کسی کی بطور پارلیمانی سیکرٹری تقرری کی تو اس صورت میں مسلم لیگ (ق)کے ایک رکن اور ایک آزاد رکن احتشام اکبر خان جو حکومت کے اتحادی اور حمایتی ہیں وہ بھی توقع رکھیں گے کہ انھیں بھی کسی نہ کسی حیثیت میں حکومتی ٹیم کا حصہ بنایا جائے اس لیے اس معاملے میں وزیراعلیٰ کو احتیاط سے کام لینا ہوگا کیونکہ کہیں دوسروں کو خوش کرنے کے چکر میں وہ اپنے ہی ناراض نہ کر بیٹھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں