ڈاکٹرائن
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی حالانکہ اس ملک میں عوام کے جمہوری ، سیاسی اور معاشی حقوق کی بات کرنا جرم بنا دیا گیا ہے۔
ہم ایسے غیر ترقی یافتہ سماج اکثرو بیشتر زبان و بیان کے معاملے میں عجیب الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں، شاید کہ ترقی نہ کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جب ہم ترقی کرتی ہوئی تیزرفتار دنیا کا مقابلہ نہیں کر پاتے تو ''بھاگتے چورکی لنگوٹی'' کی مانند ہم تیز رفتار دنیا کی زبان یا لفظ کی لنگوٹ پکڑکر خود کو ترقی یافتہ دنیا کی فہرست میں لا کر اپنے اصل کو بھی بھلا بیٹھتے ہیں۔
مثلاً آج کل ایک جنگی اصطلاح ''کنوینشنل وار''کا بڑا غلغلہ ہے حالانکہ اچھا خاصا اسے ہم ''صلیبی جنگ'' کہا کرتے تھے، اسی طرح کسی سپہ سالار کی جرات اور حوصلہ مندی کے فیصلوں کو ہم '' زیرک فیصلے'' کہا کرتے تھے، مگرکیا کریں کہ ترقی کرتی دنیا ہماری صلیبی جنگ کی اصطلاح کو بھی روند چکی ہے تو ''زیرک فیصلے'' کرنے والے کی اصطلاح کو بھی ہمارا طعنہ بنا کر اپنی ترقی یافتہ اصطلاح ''ڈاکٹرائن'' نافذ کردی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ جس طرح حکیم سے ڈاکٹرکہلانا بہتر سمجھا جانے لگا ہے، اسی طرح شاید ''زیرک'' کی جگہ ''ڈاکٹرائن'' بہتر سمجھی جانے لگی ہو، حالانکہ آج بھی نباض حکیم کی مہارت اور تشخیص کے مقابلے میں بہت سے افراد پوچھ گچھ کے بعد لکھے گئے ڈاکٹری نسخوں کو ''کم علمی'' سے تعبیر کرتے ہیں، مگر مریض سے مکمل تشخیص کا چلن ہے کہ چلے ہی جا رہا ہے، جب کہ سرمایہ دار دنیا حکما کی جڑی بوٹیوں کے عرق کو جدید طریقے سے گولیوں کی صورت میں بیچ کر جدید سرمایہ کاری کے ترانے اور منافعے کے قصے سنائے چلے جا رہے ہیں۔
اب ڈاکٹر یا فارماسسٹ کی بلا سے مریض شفایاب ہوتا ہے یا مزید بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے، ایسی ہی''ڈاکٹرائن'' کی اصطلاح بیشتر سالوں سے سرمایہ دار دنیا نے متعارف کروائی ہے جو کہ ہمارے ہاں''زیرک'' کے مقابلے میں بڑے دھڑلے سے چلتی چلی جا رہی ہے بلکہ سماج میں مراعات یافتہ طبقے کی پہچان بنا کر محروم و محکوم عوام پر تھوپ دی گئی ہے، جسے عوام نا سمجھ کر بھی ٹوٹے پھوٹے انداز سے اگلتے ہی رہتے ہیں۔
ہماری تحریر میں ''ڈاکٹرائن'' کے تذکرے کی ذمے داری ہم سے زیادہ نجی ٹی وی کے خبروں میں تواتر سے اصطلاح ''ڈاکٹرائن'' کا تذکرہ ہے۔
ہم ایک نیم سیاسی سے فرد کو ملک کی سلامتی سے زیادہ بھلا کس کی حاجت ہو سکتی ہے، ہم تو بہت خوش ہوئے کہ جب ہماری غیر منتخب اطلاعاتی وزیر نے یہ بتایا کہ اب ملک کی تمام قوتیں ایک پیج پر ہیں اور اب مستقبل میں عوام کی بھوک ننگ اور افلاس مکمل طور سے ختم ہو جائے گا اور ملک کے ہر غریب کے گھر میں دودھ کی نہریں کھودی جائیں گی تاکہ عوام کو دودھ ایسی نعمت فوری طور سے میسر آسکے، اب ہماری وزیر کے اس بیان پر چند جلنے والوں نے یہ تبصرہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی معاشی پالیسیوں سے ''غریب'' ہی نہیں رہنے دے گی تو یہ بھی ایک عوامی رائے ہے جسے حکومت نے نہایت خندہ پیشانی سے سن لیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں کشمیرکی آزادی کے نام پر غریبوں کا صفایا ہی کر دے۔
میری سمجھ میںیہ نہیں آتا کہ ہمارے جلدی کے مارے عوام کو موجودہ حکومت سے آخر خیرکی توقع کیوں ہے، شاید ہمارے عوام اب تک اس امر سے لاعلم ہے کہ منتخب کرائی گئی حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے قطعی نہیں لائی جاتیں ، بلکہ حکومتوں کو اس لیے لایا جاتا ہے تاکہ حکمران طبقے میں نئی بھرتی کے ذریعے نئے حکمران طبقات پیدا کیے جائیں جو کہ حکمران اشرافیہ کی تمام تر سہولیات اور مراعات کا خیال رکھیں۔
ہمارے ہاں نجانے کیوں عوام کی بھوک و پیاس اور ان کی معاشی نا ہمواری یا بیروزگاری کا رونا رو روکر عوام کو سہارے کا محتاج کردیا جاتا ہے اور وہ اپنی جمہوری آزادی اورخوشحالی کے حصول میں پھر سے انھی سیاسی جماعتوں کو منتخب کردیتے ہیں جو اسمبلی میں جا کر عوام کے حقوق بجائے حکمران طبقات کے حقوق کی جنگ لڑتے رہتے ہیں اور عوام کو لولی پوپ دینے کے لیے جذباتی بیان یا پریس کانفرنس کر کے بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔ اب بھلا پنجاب اسمبلی میں وزیراعظم کے نوٹس کے بعد بھی اسمبلی ارکان اور وزرا کی مراعات میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا ، مگر مجال کہ کسی بھی عوامی نمایندے کے سر جوں رینگی ہو۔ بس عوام ہے کہ بھوکی رہے، افلاس زدہ رہے اور معاشی چکی میں پستی رہے اور پر فریب نعروں میں اپنا مقدر تلاش کرتی رہے وگرنہ بیروزگاری اور معاشی قتل کے ساتھ آئی ایم ایف کے نافذ کردہ ٹیکس دیتی رہے۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی حالانکہ اس ملک میں عوام کے جمہوری ، سیاسی اور معاشی حقوق کی بات کرنا جرم بنا دیا گیا ہے، جہاں عوام کو اپنے احتجاج کرنے کے آئینی حق کو انگریز کے قانون دفعہ144کے تحت روندا جائے تو بھلا اس دیس میں عوام کے علاوہ صرف ''ڈاکٹرائن'' ہی پر گفتگو ہو سکتی ہے، اور کمبخت ''ڈاکٹرائن'' کی اصطلاح اتنی مشکل ہے کہ عوام اسے سن کر صرف ہکا بکا سے ایک دوسرے کو تکے جا رہے ہیں کہ تین برس بعد اس مردوئی ''ڈاکٹرائن'' سے نجانے کیا نکلے،کیونکہ اب تک حکومتی وزرا اورحکومتی دانشوروں تک ''اصطلاح ڈاکٹرائن'' مکمل طرح آشکار نہیں ہو پائی ، بلکہ اس خوبصورت لفظ کی تراوٹ ہی سے حکومتی دانشور ایسی مست کیفیت میں جا چکے ہیں کہ کوئی عوام کو یہ نہیں بتا رہے کہ ''ڈاکٹرائن''کا جن کس کروٹ بیٹھے گا یا اس ''ڈاکٹرائن'' سے وہ کونسا ڈاکٹر نکلے گا جو عوام کی منتخب کردہ پارلیمان اور ان کے نمایندوں کی آزادی کا وہ''سیرپ'' دے گا۔
جس کے پینے سے عوام کی پارلیمان آزادانہ اور عوامی فیصلے کر سکے گی اور اس قابل ہوسکے گی کہ کاغذ کے ٹکڑے ایسی حیثیت کے آئین کو اس کی اصل قوت میں نافذ کروا سکے گی، اگر واقعی ''ڈاکٹرائن'' کی توسیع آئین ساز اسمبلی میں احتساب اور عوامی مسائل کا کوئی مضبوط نظام دے جاتی ہے تو ہمیں اس ''ڈاکٹرائن'' کی توسیع پرکوئی اعتراض نہیں۔