مذہبی کشیدگی کے مہیب سائے۔۔۔

پشاور سانحے کے خلاف گرفتاریاں، سوگ اور مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔


Rizwan Tahir Mubeen September 24, 2013
اہدافی کارروائیوں کے باوجود کراچی میں قتل و غارت جاری ہے۔ فوٹو : فائل

دل دوز سانحہ پشاور پر ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔

متحدہ قومی موومنٹ، پیپلزپارٹی اور اے این پی نے بھی سانحے کے خلاف سہ روزہ سوگ کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ وقوعے کے روز ہی شہر قائد میں مختلف مقامات پر عیسائیوں نے اس وحشیانہ دہشت گردی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ کئی مقامات پر صورت حال کشیدہ بھی رہی۔ بالخصوص کورنگی میں مسجد کے قریب ہونے والے ایک تصادم کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔ جس سے صورت حال بگڑ گئی، جس سے نہ صرف علاقہ مکینوں میں خوف وہراس پایا جاتا ہے بلکہ عشروں سے سیاسی، لسانی، فرقہ ورانہ آگ میں جلنے والے شہر میں مذہبی کشیدگی کے خوف ناک خدشات بڑھ گئے ہیں۔ جس پر فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے، ورنہ خدانخواستہ مصائب میں دھنسا یہ شہر ایک اور مصیبت میں گِھر سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں شہر قائد کا سیاسی منظر نامہ خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ بدامنی پر الطاف حسین کی طرف سے فوج بلانے کے مطالبے کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ وفاق کی جانب سے عدالت میں ایک نئی تنظیم ''مہاجر ریپبلکن آرمی'' نامی تنظیم کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا۔ اسی اثنا میں عدالت عظمیٰ میں بندرگاہ سے اسلحے کے19 ہزار کنیٹینر کی گُم شدگی کے معاملے نے اس تلاطم کو اور بڑھا دیا۔ بعد میں وفاق کی جانب سے ''مہاجر ریپبلکن آرمی'' والی رپورٹ عدالت سے واپس لینے کا کہا، تاہم اس کے درست ہونے پر اصرار باقی ہے، وزیرداخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کا تعلق متحدہ سے نہیں۔ شہر میں جاری رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں پر متحدہ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔ اس دوران گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی بیرون ملک روانگی کے بعد استعفے کی خبریں آئیں تاہم دس روز بعد انہوں نے واپس آکر ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔

الطاف حسین کے کراچی میں فوج کے مطالبے پر صوبے میں حکم راں پیپلزپارٹی ہی چراغ پا نہیں ہوئی، بلکہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے بھی اس مطالبے کی بھرپور مخالفت کی۔ پیپلزپارٹی نے اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا۔ جماعت اسلامی کے راہ نما محمد حسین محنتی نے کہا کہ فوج طلب کرنے کا مطالبہ غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہے۔ اس دوران عدالت عظمیٰ میں کراچی بدا منی کیس کی سماعت کے مختلف دور ہوئے، جس میں ''مہاجر ریپبلکن آرمی'' نامی تنظیم، براستہ سمندر اسلحہ آنے اورکراچی کی بندرگاہ سے اسلحے سے بھرے نیٹو کے 19 ہزار کنیٹنر غائب ہونے کی بازگشت سنائی دی۔ عام تاثر یہی ہے کہ کراچی میں اسلحہ زمینی راستے سے لایا جاتا ہے، لیکن اس بار یہ سنا گیا کہ کراچی میں نہ صرف اسلحہ بہ ذریعہ بندرگاہ لایا گیا، بلکہ یہ اسلحہ بلوچستان اور وزیرستان تک استعمال ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس کے حکم پر نیٹو کنٹینر گُم شدگی پر کمیشن تشکیل پاچکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل رضوان اختر کا موقف ہے کہ اسلحے سے بھرے یہ کنیٹینر سابق دورمیں غائب ہوئے، یہ کنٹینر کراچی میں نہیں کھولے گئے اور یہاں سے دوسرے شہروں میں منتقل ہوئے اور بعد میں یہ اسلحہ یہاں لایا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وزیرستان میں بھی امریکی فوج کے استعمال شدہ اسلحے کے کنٹینرپکڑے گئے تھے۔ کراچی بدامنی کی حالیہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کراچی میں 33 ہزار مفرور ملزمان کی گرفتاری اور شہر کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے کہا کہ کراچی کے ہر گھر میں اسلحہ موجود ہے۔

اس سے قبل بھی ایسی غیر مصدقہ اطلاعات آتی رہی ہیں کہ نیٹو کے اسلحے کے کنٹینر غائب ہوئے ہیں، لیکن اس بار عدالت میں اس معاملے کے آنے سے اس کی اہمیت بڑھ گئی۔ دوسری طرف سابق وفاقی وزیر برائے جہازر رانی بابر غوری نے اس حوالے سے کہا ہے کہ مجھ پر 19 ہزار کنٹینر بندرگاہ سے نکلوانے کا الزام غلط ہے۔ کنٹینر کی کلیئرنس ایف بی آر دیتا ہے اور کسٹم اور اینٹیلی جنس ایجنسیاں اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ وزیر جہاز رانی و بندرگاہ یا اس کی وزارت ایک کنٹینر بھی بندرگاہ سے نہیں نکلوا سکتی۔ ہمارا کام صرف انتظامی امور دیکھنا ہوتا ہے۔ عدالت اسلحہ کنٹینر معاملے کی تحقیقات کرائے۔ انہوں نے خود پر لگائے گئے تمام الزامات کا سامنا کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ متحدہ نے مہاجر ریپبلکن آرمی کو 1992ء میں لگائے گئے ''جناح پور'' کے الزام کی طرح کا ایک شوشا قرار دیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی میں اسلحے کی فراوانی اسّی کی دہائی سے شروع ہوئی۔ بندرگاہ سے نیٹو کے19 ہزار کنٹینر غائب ہو جانا بہت حساس معاملہ ہے اور یہاں سے وزیرستان تک اس اسلحے کا استعمال ہونا اس بھی زیادہ حساس، بظاہر یہ سب نہایت گنجلک اور پیچیدہ ترین معاملات دکھائی دیتے ہیں۔ ڈی جی رینجرز کا یہ کہنا کہ یہ کنٹینر بِنا کھلے باہر منتقل ہوئے اور پھر باہر سے اسلحہ کراچی آیا، بہت زیادہ اہم ہے۔ مبصرین کے مطابق ابھی تک جتنے واقعات سامنے آئے، ان میں اسلحہ باہر سے آتا ہوا ہی پکڑا گیا، یہاں سے باہر لے جانے کا کوئی واقعہ درج نہ ہو سکا۔

نیٹو کا اسلحے سے لدا ایک کنٹینر بھی بندرگاہ سے نکل جانا، اور اس کے بعد اس کا ملک کے دوسرے کونے میں پہنچ جانا اور اس کا باضابطہ انکشاف اتنے عرصے بعد ہونا بہت دھماکا خیز ہے کہ ایسے ایک یا دو نہیں بلکہ 19 ہزار کنٹینر غائب ہوئے ہیں۔ اس کی ضرور بہ ضرور تحقیقات کی ضرورت ہے، کیوں کہ شہر میں جدید ترین اسلحے کی فراوانی دیکھتے ہوئے، مکمل طور پر اس بات کو رد کرنا بھی آسان نہیں لگتا۔ قبل ازیں وزیراعظم کے دورے کے موقع پر کل جماعتی کانفرنس میں تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے شہر کی صورت حال پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا اور فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔

کراچی میں جاری اہدافی کارروائیوں پر متحدہ نے احتجاج کے دوران واضح طور پر موقف اختیار کیا ہے کہ ان تمام کارروائیوں میں مہاجر علاقوں اور آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، دوسری طرف صوبائی حکومت کسی مخصوص طبقہ آبادی کو نشانہ بنانے کی سختی سے تردید کر رہی ہے۔ شہر میں قیام امن کے لیے کارروائیاں بھی جاری ہیں اور دہشت گردوں کی وارداتیں بھی مختصر وقفے کے بعد بدستور جاری ہیں۔ ان کارروائیوں کے دوران متحدہ کے سابق رکن صوبائی اسمبلی ندیم ہاشمی کی گرفتاری پر شہر میں شدید احتجاج کیا گیا، ندیم ہاشمی کو کچھ دن بعد عدم ثبوت کی بناپر رہا کردیا گیا۔ اس دوران صوبے میں گورنر راج کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے وفاق میں حکم راں جماعت نواز لیگ کے کراچی کے صدرنہال ہاشمی نے کہا ہے کہ وہ اس کی مخالفت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم سندھ میں پیپلزپارٹی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے اندرون سندھ میں گرفتار کارکنوں کے حوالے سے احتجاج کا عندیہ دیا اور وزیراعظم سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ دنوں لیاری میں اپنے گھر کے قریب پراسرار طور پر قتل کیے جانے والے پیپلزپارٹی کے راہ نما ظفر بلوچ کے قتل کا مقدمہ متحدہ کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کے خلاف درج کر لیا گیا ہے، جسے متحدہ کی جانب سے انتقامی کارروائی قرار دیا گیا ہے، جب کہ ظفر بلوچ کے والد کا موقف ہے کہ نبیل گبول مقتول کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ دوسری طرف پولیس کا دعوا ہے کہ ظفربلوچ اپنے ہی کچھ ساتھیوں سے اختلاف پر نشانہ بنائے گئے۔پیپلزپارٹی کراچی کے صدر عبدالقادر پٹیل اور سیکریٹری نجمی عالم نے ظفر بلوچ کے قتل کی شدید مذمت کی۔ پیپلزپارٹی (ش ب) کی سربراہ غنویٰ بھٹو نے مرتضیٰ بھٹو کی برسی کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں حکمرانوں کا ہاتھ ہے، غریب علاقوں میں کارروائی کی جارہی ہے، کام یاب نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں