بڑی طاقتوں کی چھوٹی اور اوچھی حرکتیں
ہمارے ارباب اختیارکو جان لینا چاہیے کہ کشمیریوں سے بے وفائی پاکستان سے بے وفائی کے مترادف ہوگی۔
ISLAMABAD:
ملکی اور بین الاقوامی افق کو جانچنے کے بعد یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں مفاد سے بڑا رشتہ کوئی نہیں ہوتا ، انسانیت کا رشتہ بھی اس کے آگے ہیچ ہے۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک کے حالات و واقعات پر نگاہ کی جائے تو ہماری اس بات کا ٹھوس ثبوت سبھی کو مل جائے گا۔
بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر اور آزاد کشمیر کی سویلین آبادی کے خلاف حد درجہ جارحیت اور درندگی کی نئی لہر ہمیں یاد دلا رہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد ایٹمی جمہوریت کشمیر میں وہی غلطی دہرا رہی ہے جو افغانستان میں روس (سوویت یونین) اور امریکا نے کی تھی، یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت کے ظالم اور جنونی حکمران کشمیر میں وہ کرنے جا رہے ہیں جو 1948 میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
اب تک بھارت ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید اور ان گنت لوگوں کو اندھا اور معذور بناچکا ہے اور ان کی قیادت کرنے والوں کو پابند سلاسل رکھا ہوا ہے۔ حالات ہرگزرتے دن کے ساتھ ایسا رخ اختیارکرتے دکھائی دیتے ہیں جو نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ بھارت کے سیکولرازم اور جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے، آئین کو پاؤں تلے روند کر اقوام متحدہ کی قراردادیں کوڑے دان میں پھینک دی گئی ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ دونوں ملکوں کے عوام غربت کی چکی میں بری طرح پسے ہوئے ہیں،اس جنگ سے جنازے اٹھانے کے سوا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آنیوالا۔ دلخراش حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ایشو پر اقوام عالم انتہائی لاچار بنی ہوئی ہے اور اس نے پاکستان اورکشمیری عوام کا ساتھ نہ دیا، امریکا اس حوالے سے ہمیشہ دو رخی یا منصفانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، ایسے میں پاکستانی عوام اور شاید ارباب اختیار بھی ایک صدمے کی کیفیت میں ہیں اور یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ 72 برسوں کی کشمیر پالیسی چند ہی دنوں میں اتنی بڑی ناکامی سے کیسے دوچارہوگئی؟
سبھی کے علم میں ہے کہ کشمیریوں کا جرم آزادی اور حق خود ارادیت ہے۔ بھارت انھیں سب کچھ دینے کے لیے تیار ہے لیکن کشمیریوں کو صرف اور صرف آزادی چاہیے۔ اپنے آئین کو پامال کرکے اور نئی چالیں چل کر کشمیر کو بھارت نے ہڑپ توکرلیا لیکن اس کے لیے کشمیرکو ہضم کرنا ممکن نہ ہوگا، بھارت کچھ بھی کرلے کشمیری اپنی آزادی اس سے چھین کر رہیں گے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بندوق کی گولی اور توپ کے گولوں یا بموں سے آزادی کی لہرکو نہیں دبایا جاسکتا اور نہ ہی لوگوں کے دل ودماغ کو مسخرکیا جاسکتا ہے۔ قتل وغارت گری، شہادتیں، کرفیو، جیلیں سب کی سبھی آزادی کے آتش فشاں کو مزید بھڑکاتی اور تحریک آزادی یا حریت پسندی کی رفتارکو تیز ترکرتی ہیں۔
وقت نے ہر بار یہ سچ ثابت کیا ہے کہ ہتھیاروں کی طاقت سے اکثریت پر اقلیت کا ظلم کئی قوموں کے زوال کا سبب بن چکا ہے۔ روس (سوویت یونین) جیسی سپرپاورکا بکھر جانا ماضی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ لیکن بیشتر طاقتور قوموں نے روس کے زوال سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایسے ممالک میں امریکا، اسرائیل اور بھارت سرفہرست ہیں۔ امریکا نے افغانستان میں وہی حرکت وہی غلطی کی جو سوویت یونین نے افغانستان میں کی تھی۔ سوویت یونین کے زوال نے آزادی کی کئی تحریکوں کو نئی زندگی بخشی۔انھی میں سے ایک کشمیر کی تحریک آزادی بھی تھی۔
امریکا نے بھی افغانستان میں مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرکے افغانوں کو اپنا غلام بنانے میں کامیابی حاصل نہ کی۔ روس دس سال کے بعد افغانستان سے بھاگا، امریکا اٹھارہ سالوں کے بعد بھاگ رہا ہے۔ وہ امریکا جس نے اقوام متحدہ کے ذریعے افغان طالبان کو دہشتگرد قرار دلوایا تھا، آج امریکا انھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ الغرض یہ کہ عالمی تاریخ اس قسم کے سیکڑوں تجربات اور مہمات کی گواہ ہے اور ان کی چھوٹی اور اوچھی و بہیمانہ حرکتوں کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کرچکی ہے۔اس کے باوجود جابر حکمران یا بڑی طاقتیں ان غلطیوں کو دہرانے سے باز نہیں آتیں۔
بھارتی حکمران اور اس کی حواری پارلیمنٹ نے نیا قانون پاس کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ لیکن کشمیری اس عظیم دھوکے کو کبھی قبول نہیں کریں گے کہ تحریک آزادی اب کشمیریوں کے خون میں اتر چکی ہے۔ اس لیے بھی کہ کشمیریوں سے بھارتی دھوکے، فراڈ اور ظلم و ستم کی کہانی بہت ہی پرانی اور طویل ہے، لیکن تاریخ عالم گواہ ہے کہ قربانیاں ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہیں اور ظلم کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے کہ موجودہ دنیا معاشی اور فوجی طاقتوروں کی دنیا ہے اور اسی قوت سے فائدہ اٹھا کر بھارتی وزیر اعظم نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے اور خاکم بدہن لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام کرنے والی ہے۔
ہم اپنے آنسوؤں کو اپنی آنکھوں کی دہلیز سے باہر نہ آنے دیتے مگر بھارتی مظالم اور جارحیت نے ہماری یہ کوشش ناکام بنادی۔ بھارت کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ اسلام آباد میں راتوں رات را کے ایجنٹوں نے مہا بھارت کے بڑے بڑے پوسٹر لگا دیے۔ متعدد بار سرحدی خلاف ورزیوں کے جواب میں وطن عزیزکی طرف سے صرف اور صرف احتجاج کے سوا کچھ نہیں کیا جاتا۔ آخر ہم کب تک 5 فروری کو ''کشمیر ڈے'' نہیں بلکہ محض اسے ایک عام تعطیل کے طور پر مناکر اپنی سستی دنیا بھرکو دکھاتے رہیں گے؟
ہم اپنے وجود کی پوری طاقت اور سچائی سے یہ کہتے ہیں کہ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ مگر بسا اوقات قیام امن کے لیے بھی دشمن کا منہ توڑنا یا اس کا بازو ناکارہ کردینا ضروری ہوتا ہے۔ پھر بھارت کشمیرکے حوالے کے علاوہ بھی ہمارے اندر در آیا ہے، اب اسے پوری طاقت سے اس کی حرکتوں کا جواب دینا وقت کی اکلوتی ضرورت بن گیا ہے۔ وطن عزیز اور اس کی فورسز اب ہر وہ حربہ استعمال کر لے جس سے بھارت کو اندازہ ہوجائے کہ ہم زندہ قوم ہیں اور بہادری ہماری میراث ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم کشمیریوں کے لیے اسی طرح کھڑے ہو جائیں جیسے پاکستان کے لیے ہمارے جذبات ہیں۔
ہمارے ارباب اختیارکو جان لینا چاہیے کہ کشمیریوں سے بے وفائی پاکستان سے بے وفائی کے مترادف ہوگی۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بالآخر کشمیریوں کی اپنی ہی جدوجہد قربانیوں اور خون سے صبح آزادی طلوع ہوگی لیکن ہمیں اپنی شہ رگ کو 72 سال تک بھارتیوں کے ہاتھوں گروی رکھنے سے چھیننا ضروری ہوگیا ہے اور قوت کے دانش مندانہ استعمال کے علاوہ ہمارے سفارت کاروں کو اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کرکے بیرونی دنیا کو مودی سرکارکا اصل چہرہ دکھانا ہوگا، دنیا بھر میں کشمیر میں سنگین انسانی المیوں کے وقوع پذیر ہونے کے حوالے سے تشویش کا اظہارکیا جا رہا ہے۔
ان حالات میں اچھی حکمت عملی خارجہ محاذ پر مزید کامیابیوں کی راہ ہموار کرسکتی ہے، حالات کا تقاضا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے قومی حکمت عملی وسیع تر مشاورت کے ذریعے تشکیل دی جائے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی برادری کو بھی اس حوالے سے نوٹس لینا چاہیے اور سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو کشمیری عوام کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں بند اور انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دینے پر مجبور کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ محض زمین کے ایک ٹکڑے کا جھگڑا نہیں ایک قوم کے مستقبل کا سوال ہے جس کی تیسری نسل آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس حوالے سے لاکھوں جانوں کی قربانی دے چکی ہے۔