چیئر مین نیب کی خالی کرسی

احتسا ب کا غیر جا نبدار ادارہ اوراس کا کو ئی نیک نام سربراہ ہمیں پسندنہیں،چیئرمین نیب کاعہدہ چار ماہ سے خالی پڑاہے...


Aslam Khan September 24, 2013
[email protected]

احتسا ب کا غیر جا نبدار ادارہ اوراس کا کو ئی نیک نام سربراہ ہمیں پسندنہیں،چیئر مین نیب کا عہد ہ چا ر ماہ سے خالی پڑا ہے، حزب اختلا ف اور حکو مت کسی نیک نام اور مو زوں شخصیت کے نام پر متفق نہیں ہو سکیں۔ عدلیہ بحا لی تحر یک کے ولو لہ انگیز اور تاریخ سا زدور میں کیسی کیسی نا بغہ روزگار شخصیات پر دہ اسکرین پر نمودار ہوئی تھیںجو اب گو شہ عا فیت میں اپنی خیر منارہی ہیں۔مو جو دہ جمہور ی نظا م کی آزما ئش اور قوم کا امتحا ن 11/12/13یعنی 11دسمبر 2013کے بعد شر وع ہو گا جب غر یبو ں، مسکینوں ،لا چا ر اور بے بس عو ام کا خدائے مہر با ن کے بعد سب سے بڑاسہارا چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری ریٹا ئر ہو نے کے بعد واپس کو ئٹہ چلے جائیں گے اور تا ریخ کے منفر د''جوڈیشنل ایکٹو ازم''کا سنہر ا با ب بند ہو جا ئے گا ۔

جس کے بعد دکھی قو م کے زخمو ں پر نمک چھڑکنے والے تو بہت ہو ں گے لیکن مر ہم رکھنے والا شاید کو ئی نہ ہو۔چیئر مین نیب کا خا لی عہد ہ پر کر نے کے لیے چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی دی گئی مد ت کب کی ختم ہو چکی ہے لیکن سید خو رشید شاہ اور جناب وزیر اعظم کی براہ راست ملا قا تیں بھی با رآور نہیں ہو سکیں ۔چیئر مین نیب کے لیے سب سے پہلے رانا بھگو ان داس کا نا م نامی سا منے آیا تھا جسے تو قعا ت کے عین مطابق حکو مت اور حز ب اختلاف نے مکمل اتفا ق رائے سے مستر د کر دیا تھا ۔

وجہ اس کی یہ تھی کہ جنا ب وا لا!حکمر ان اور حز ب اختلاف رانا بھگوان داس کی اصول پسندی سے خو فز دہ تھے۔ انھیں یا د تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور عدلیہ کے خلا ف جنر ل پر ویز مشر ف اور ان کے ساتھیوں کی سازشو ں کو نا کا م بنا نے میں رانا بھگو ان داس نے بنیا دی کر دار ادا کیا تھا ۔چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی معطلی اور ان کے خلا ف ریفرنس کے دوران رانا بھگو ان داس بھارت میں تھے ۔واپسی پر قائم مقا م چیف جسٹس کا عہد ہ سنبھا لتے ہی انہو ں نے فل کو رٹ طلب کر کے سپر یم کورٹ جو ڈیشل کو نسل کی کار روائی روکنے کی آئینی درخواست کی سما عت شر وع کر کے اس ریفر نس کو بد نیتی پر مبنی قر ار دے کر چیف جسٹس کو بحا ل کر نے کا تاریخی حکم جاری کر دیا تھا ۔ رانا بھگو ان داس کو ہما رے جمہور یت پسند مہر با ن کیسے پسند فر ما سکتے ہیں کیونکہ سچا اور کھر ا احتسا ب کسی کو بھی پسند نہیں ۔رانا بھگو ان داس چیئر مین نیب بننے کی صورت میں سپر یم کورٹ کاجوڈیشل ایکٹوازم نیب میں شروع ہو جاتا جو کار حکمرانی کے لیے خطر نا ک ثابت ہو سکتا تھا۔

اس طر ح سا بق چیف جسٹس اجمل میا ں کے نا م پر وزیر اعظم نو از شر یف نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ انہو ں نے چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی معطلی کے حکم نامے پر بطو ر سیکر ٹر ی قا نو ن دستخط کیے تھے۔ پر ویز مشرف کے اس دور پر آشوب میں جسٹس اجمل میاں سیکریٹری قانون ضرور تھے لیکن چیف جسٹس افتخا ر چوہدری کے خلا ف پر ویز مشر ف کی اس مہم جو ئی کو رکوانے میں نا کا م ہو کر چھٹی پر چلے گئے تھے۔ اس لیے چیف جسٹس کی معطلی کے حکم نا مے پر کسی قائم مقام سیکریٹری قا نو ن کے دستخط تھے ۔

ویسے عد لیہ کے خلا ف پر ویز مشر ف کی اس مہم جوئی کے دوران وفاقی وزیر قا نو ن کو ن تھا، زاہد حامد ، اگر نو از شر یف نا معلو م وجو ہا ت یاخد ما ت کی بناپر انھیں قبو ل کرسکتے ہیں تو جسٹس اجمل میا ں میں کیا خر ابی ہے ۔

جسٹس ریٹائرڈ اجمل میاں پر اعتراضات اور تحفظات کا تعلق ڈیڑ ھ دہا ئی قبل 1998کے ان واقعات سے جڑاہو ا ہے جب سجا د علی شاہ کوان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا جس کے بعد جسٹس اجمل میا ں چیف جسٹس بنے تھے۔ اس وقت انھوں نے انسداد دہشتگردی کی عد التو ں کے قیا م اور طر یق کا ر پر اعتراض کیا تھا ۔جس کے بعد جسٹس اجمل میاں کی تاریخ پید ائش کے حو الے اخبا رات میں پر اسرار خبر وں کا سلسلہ شر وع ہوگیا تھا۔ 20جنو ری 1998کو چیف جسٹس اجمل میا ں کے بارے میں ایک خبر شا یع ہوئی تھی۔ جس پر مشاورت کے لیے اس وقت کی عدلیہ سے متعلقہ ایک شخصیت نے اس کا لم نگا ر کو طلب کیا تھا، یہ پیغام بر ادرم رفا قت علی لے کر آئے تھے، جو اب مد تو ں سے ہمیں خیر آباد کہہ کر لند ن میں دل لگا ئے بی بی سی کے لیے کا م کر رہے ہیں ۔چیف جسٹس اجمل میا ں نے اس لغو معاملے کو آگے بڑھا نے کے بجائے اس پر مٹی ڈال دی تھی ۔ پھر آسما ن نے یہ بھی دیکھا کہ جناب نواز شریف کو فو ری انصاف کی نا م نہا د عد التو ں نے سز ا سنائی جن پرجسٹس اجمل میا ں نے اعتراض کیا تھا۔ان واقعات کو مدتیںبیت گئیںہیں۔ سچ بات تو یہی لگتی ہے کہ رانا بھگوان داس ہو ں یا اجمل میا ں کو ئی بھی آزاد منش منصف کسی کو بھی پسند نہیں ۔4ما ہ گز ر گئے چیئر مین نیب کی کر سی خا لی پڑی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں