دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے مذاکراتی عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا

مرکزی حکومت نے ملک بھر کی سیاسی وعسکری قیادت کی مشاورت اور متفقہ فیصلہ کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنایا۔


Shahid Hameed September 24, 2013
سوات میں فوجی جنرل کی شہادت کے بعد پشاور چرچ حملے نے طالبان سے مذاکرات کے عمل پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔فوٹو : فائل

ریاست کے باغیوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے امن کا قیام یقینی بنانا مشکل راستہ ہے۔

لیکن اس کے باوجود مرکزی حکومت نے ملک بھر کی سیاسی وعسکری قیادت کی مشاورت اور متفقہ فیصلہ کے ذریعے یہی راستہ اپنایا جس کے حوالے سے ابھی بہت سے امور طے ہونا باقی تھے کہ سوات میں فوجی افسروں کو شہید کر دیاگیا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی، اس کے بعد سانحہ پشاور پیش آگیا جس کے بعد یقینی طور پر وہ مذاکراتی عمل جس کی خواہش کا اظہار ملک بھر کی سیاسی قیادت نے کیا اور عسکری قیادت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ،کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ ایسے حالات میں عوام کی جانب سے اس مذاکراتی عمل کو وہ سپورٹ حاصل نہیں رہے گی ۔

جو ان واقعات سے قبل تھی ۔ اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ موجودہ حالات کے تناظر میں ملک بھر کی سیاسی قیادت کو ایک مرتبہ پھر اکھٹا کرتے ہوئے مذکورہ حالات کو ان کے سامنے رکھے گی تاکہ وہ اس ساری صورت حال کے تناظر میں پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے فیصلہ کریں جس میں یقینی طور پر ٹی ٹی پی کی جانب سے قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی جیسے مطالبات کو سامنے رکھاجائے گا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ جب خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی گزشتہ دور میں برسراقتدارآئی تو اس وقت اے این پی نے بے پناہ مخالفت کے باوجود سوات کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا اور یہ معاملہ نہ صرف مذاکرات تک محدود رہا بلکہ اس کو ایک معاہدہ کی شکل بھی دی گئی تاہم اس وقت کی صورت حال یہ تھی کہ ایک جانب تو سوات کے طالبان کی ڈور، وزیرستان سے ہلائی جارہی تھی اس لیے وہ بہت سے معاملات میں بے بس تھے کیونکہ اگرچہ فرنٹ پر تو سوات کے طالبان تھے تاہم معاملات کو وزیرستان اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا تھا ۔

یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے جبکہ دوسری جانب صورت حال یہ تھی کہ سوات کے طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو جانے کے بعد انہوں نے اپنے پائوں سوات سے بونیر اور بونیر سے آگے بڑھانا شروع کردیئے تھے اور معاملہ مارگلہ کی پہاڑیوں تک پہنچ گیا تھا جس کے باعث اس وقت کی حکومت کو کاروائی شرو ع کرنا پڑی اور آج بھی ویسی ہی صورت حال کا سامنا ہے کہ ملک بھر کی سیاسی قیادت نے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ان مذاکرات کے ذریعے ہی امن قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے بعد پہلے سوات میں عسکری قیادت کو نشانہ بنایاگیا اور پھر پشاور میں مسیحی برادری کو نشانہ بناتے ہوئے بین الاقوامی طور پر پاکستان کو اس انداز میں خراب کرنے کی کوشش کی گئی کہ قیام امن کے حوالے سے مذاکرات کی جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ کامیاب نہ ہوسکیں، حالانکہ آج مذاکراتی عمل براہ راست وزیرستان ہی کے ساتھ ہونا ہے تاہم اگر اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ یا تو ٹی ٹی پی یا ان کی کوئی ذیلی یا ملحقہ تنظیم دہشت گردی کی کوئی کاروائی کرتی ہے تو یہ بات پتا دیتی ہے کہ شاید وزیرستان والوں کی ڈور بھی کہیں اور سے ہل رہی ہے اسی لیے وہ بھی مذاکراتی عمل شروع کرنے کے حواے سے بے بس ہیں ۔

مذکورہ حالات میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوپائیں گے ؟اور اگر شروع ہوبھی جاتے ہیں تو کیا یہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے یا نہیں ؟یقینی طور پر یہ بڑے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم بعض حلقے یہ بھی کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ حکومت نے ملک بھر کی سیاسی وعسکری قیادت کی جانب سے قیام امن کے لیے مذاکراتی عمل شروع کرنے پر اتفاق کرنے کے باوجود مذاکرات شروع کرنے میں جو تاخیر کی اسی وجہ سے یہ ناخوشگوار واقعات پیش آئے جس سے امن کا قیام ایک مرتبہ پھر خواب بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تاہم اب بھی امید کی جارہی ہے کہ اگر طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات شروع ہوجائیں تو اس سے صورت حال میں بہتری آسکتی ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان چینلز اور افراد کا انتخاب جلدازجلد کرے جو مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھائیں گے تاکہ درست سمت کا تعین ہوسکے۔



البتہ صرف حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہی شروع کردینے کافی نہیں ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ دیگر معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا جن میں افغانستان میں امن کے قیام کے لیے جاری کوششیں اور قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بھی شامل ہیں اور اس سلسلے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان جن طالبان رہنمائوں کو رہا کر رہی ہے ان کو بھی اس سلسلے میں استعمال کیاجائے کیونکہ اگر ان کو استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے تو اس سے بھی حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں مرکزی حکومت بھی شاید ہی اچانک مذاکرات کا عمل شروع کر پائے اس کیلئے اسے لازمی طور پر ایک مرتبہ پھر سیاسی وعسکری قیادت کے ساتھ مشاورت کرنی پڑے گی۔ اس بات کا امکان ظاہر کیاجا رہا ہے کہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے واپسی کے بعد ہی اس حوالے سے معاملات واضح ہوں گے کہ مرکزی حکومت کیا پالیسی اپنانے جا رہی ہے۔

عام انتخابات کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابی مہم میں ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے کے حوالے سے دونوں پارٹیوں میں جو تلخی پیدا ہوئی تھی اس میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے اور جے یو آئی کے اپوزیشن بنچوں پر منتقل ہونے اور بعد میں ضمنی انتخابات میں لکی مروت اور ٹانک کی نشستوں پر جے یو آئی کی شکست اورتحریک انصاف کی فتح سے مزید اضافہ ہوا اور بظاہر یہی نظر آرہا تھا یہ سلسلہ آگے بڑھے گا تاہم انہی سطور میں کہا گیاتھا کہ یہ تلخی دونوں پارٹیوں کے قائدین عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن آپس کے رابطوں کے ذریعے کم اور بتدریج ختم کرسکتے ہیں اوراسی تناظر میں تحریک انصاف اور جے یو آئی کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ ہوگیا ہے جو اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس رابطے کے نتیجہ میں دونوں جماعتوں کے درمیان جمی برف پگھلنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے اس لیے کہ یہ بات ایک رابطہ تک ہی اٹکی ہوئی تھی اور وہ رابطہ ہوگیا ہے جسے بارش کا پہلا قطرہ کہا جاسکتا ہے۔

،گو کہ یہ رابطہ دوونوں پارٹیوں کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے حوالے سے نہیں ہوا بلکہ پشاور بم دھماکے کے تناظر میں ہوا ہے جس میں دونوں جانب کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں مل کر کام کرنا چاہیے کیونکہ آپس کے لاکھ اختلافات کے باوجود دہشت گردی کے حوالے سے تحریک انصاف اور جے یو آئی(ف)کی پالیسی ایک ہی ہے کیونکہ دونوں پارٹیاں اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ فوجی آپریشنز اور کاروائیاں بند ہونی چاہئیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرتے ہوئے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے اور ان مذاکرات کے ذریعے امن کا قیام ممکن بنایاجائے ۔ پشاور دھماکہ کے بعد صورت حال میں جو تبدیلی آئی ہے اس کے تناظر میں دونوں جماعتیں چاہیں گی کہ وہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی پالیسی ترتیب دیں اور اس تناظر میں ان کا یہ رابطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاہم مستقبل کے حوالے سے ضروری ہے کہ یہ رابطے جاری رہنے چاہئیں ۔

بدلتے ہوئے حالات میں ہر زبان پر ایک ہی سوا ل ہے کہ کیا اب طالبان کے ساتھ مذاکرا ت ہوپائیں گے یا حکومت ایک بڑی کاروائی کے احکامات جاری کرے گی تاکہ آپریشن کرتے ہوئے امن قائم کیاجائے تاہم یہ سوال نہ تو اتنا سادہ ہے کہ اس کا جواب فوری طور پر مل سکے اور نہ ہی اتنا آسان ہے کہ چند الفاظ میں اس کا جواب دیاجا سکے، اس پر یقینی طور پر حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مشاورت کرے گی اور اپنے پر بھی تولے گی کہ کس حد تک پرواز کی جاسکتی ہے اور اسی توازن اور طاقت کو دیکھنے کے بعد ان کے حوالے سے فیصلہ کیاجائے گا، جس کے حوالے سے وزیراعظم کا دورہ امریکہ بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ امریکی صدر سے ملاقات بھی کریں گے اور اقوام متحدہ سے خطاب بھی اور اس کے بعد جب وہ وطن واپس آئیں گے تو پھر یقینی طور پر وہ کوئی فیصلہ بھی کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں