سندھ اسمبلی اجلاس میں فریال تالپور کو لانے کی قرار داد منظور

یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ موجودہ سندھ اسمبلی اپنے پہلے پارلیمانی سال میں 234 دن سیشن میں رہی۔


G M Jamali August 28, 2019
یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ موجودہ سندھ اسمبلی اپنے پہلے پارلیمانی سال میں 234 دن سیشن میں رہی۔

سندھ اسمبلی کا دوسرا طویل ترین سیشن جاری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما فریال تالپور کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں نہیں لایا جا رہا اس حوالے سے سندھ اسمبلی نے گذشتہ ہفتے ایک قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فریال تالپور کو اسمبلی کے اجلاس میں لایا جائے۔

دوسری طرف کراچی میں صفائی مہم کے نام پر ایسی سیاست شروع ہو چکی ہے جس میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں بھی ملوث ہو چکی ہیں لیکن کراچی پر ابھی تک مچھروں اور مکھیوں کی یلغار جاری ہے۔ ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ بارش کے پانی کی ابھی تک کئی جگہوں سے نکاسی نہیں ہو سکی ہے اور گٹر ابل رہے ہیں ۔

سیاسی بے یقینی کا سندھ میں خاتمہ نہیں ہو رہاہے کیونکہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کسی بھی صورت حال کے لیے تیار ہیں ۔اس ماحول میں سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جو موجودہ اسمبلی کا دوسرا طویل ترین سیشن ہے۔

یہ سیشن 12 جون 2019 ء کو شروع ہوا تھا۔ اس سیشن کو 77 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ اسی سیشن میں مالی سال 2019-20 کو بجٹ بھی منظور ہوا لیکن سیشن ختم نہیں ہوا۔ اسی سیشن میں سندھ اسمبلی میں 12 اگست کو اپنا پہلا پارلیمانی سال بھی مکمل کیا لیکن سیشن جاری رہا ۔اس سے پہلے والا سیشن 130 دن تک جاری رہا تھا۔

یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ موجودہ سندھ اسمبلی اپنے پہلے پارلیمانی سال میں 234 دن سیشن میں رہی اور ان میں سے 131 دن اسمبلی کے اجلاس ( Sittings ) کے ہیں۔ اسمبلی کا مسلسل سیشن میں رہنا غیر یقینی سیاسی صورت حال کی نشاندہی کرتا ہے۔

سندھ میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کاکہنا یہ ہے کہ نیب کی تحویل میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو اجلاس میں لانے کے لیے اسمبلی کو سیشن میں رکھا جا رہا ہے۔ ایک دن کے اجلاس پر چالیس سے 50 ہزار روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ نیب کی تحویل میں اسپیکر اسمبلی آغا سراج درانی کی رہاش گاہ کو سب جیل قرار دیا گیا ہے اور وہ مسلسل اجلاس میں آ رہے ہیں جبکہ فریال تالپور کو اجلاس میں نہیں لایا جا رہا ہے ۔

گذشتہ ہفتے سندھ اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعہ فریال تالپور کو اجلاس میں نہ لانے پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ پروڈکشن آرڈر پر رکن اسمبلی کو اجلاس میں لانا ضروری ہے۔ پروڈکشن آرڈر پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ قرار داد کی منظوری کے باوجود فریال تالپور کو اسمبلی میں نہیں لایا جا رہا ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما آصف علی زرداری کو علاج کی مطلوبہ سہولتیں مہیا نہ کرنے پر احتجاج کر رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے قتل کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ صورت حال سندھ میں سیاسی بے چینی کو بھی جنم دے رہی ہیں۔

کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی زیدی کی قیادت میں صفائی مہم جاری ہے لیکن اس مہم کے دوران نالوں سے نکالا جانے والا کچرا ابھی تک سڑکوں، گلیوں، پارکس اور دیگر کھلی جگہوں پر پڑا ہوا ہے۔ حکومت سندھ اس کچرے کو شہر کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے رہی ہے۔

بارشوں کے بعد کراچی میں مکھیوں اور مچھروں کی یلغار ہے۔ بلدیاتی اداروں نے اگرچہ اسپرے مہم شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک اس کے اثرات نظر نہیں آ رہے ۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی نے گذشتہ ہفتے ایک اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ ، سندھ کابینہ کے دیگر ارکان، میئر کراچی وسیم اختر ، کراچی کی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے چیئرمینوں ، ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین ، ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کے لوگوں نے شرکت کی ۔

اس اجلاس میں کراچی شہر میں صفائی کی حکمت عملی طے کی گئی۔ حکومت سندھ نے صفائی مہم کی نگرانی کے لیے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں ضلعی کمیٹیاں بھی تشکیل دے دیں، جو 15 روز میں اپنی رپورٹ چیف سیکرٹری سندھ کو جمع کرائیں گی۔

سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو بہت زیادہ متحرک کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف سابق ناظم کراچی اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال بھی کود پڑے ہیں ۔ انہوں نے دعوی کیا ہے کہ وہ تین ماہ میں کراچی میں صفائی کرکے دکھا دیں گے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے بھی مصطفی کمال کو یہ ذمہ داری سونپ دی تھی مگر بعد میں ان کے آرڈر منسوخ کر دیئے۔

کراچی کی صفائی کے لیے وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں بھی ملوث ہو چکی ہیں۔ مگر ابھی تک یہ تعین نہیں کیا جا سکاہے کہ یہ کام کس کا ہے اور وہ کیوں نہیں کر رہا ہے ۔ یہ سیاسی مہمات مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔