کب کب قیامت ٹوٹی

کوئٹہ اور اس سے محلقہ قصبے زلزلے کی سب سے متحرک فالٹ لائن چمن پر واقع ہیں۔


سید بابر علی September 25, 2013
قیام پاکستان اور اس قبل اگر زلزلوں کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ زلزلے بلوچستان میں ہی آئے ہیں۔ فوٹو: آن لائن

زلزلے زیرزمین موجود پلیٹوں میں ہونے والی حرکت کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایسی قدرتی آفت ہے، جو خشکی پر ہو تو چند ہی لمحوں میں فلک بوس عمارتوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیتی ہے اور اگر یہ آفت سمندر میں برپا ہو تو طوفانی موجیں اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو نیست و نابود کردیتی ہیں۔

پاکستان میں زلزلوں کی تاریخ
قیام پاکستان اور اس قبل اگر زلزلوں کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ زلزلے بلوچستان میں ہی آئے ہیں اور گذشتہ ایک دہائی میں ریکٹر اسکیل پر 8 سے 6 شدت رکھنے والے تقریباً گیارہ زلزلے بلوچستان میں تباہی پھیلا چکے ہیں جب کہ چند دن قبل آنے والے زلزلے کا مرکز بھی بلوچستان کا علاقہ ''آواران'' تھا۔ سطح زمین سے 20 کلومیٹر گہرائی میں آنے والے 7.7شدت کے اس زلزلے میں تادم تحریر 265 سے زاید افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس زلزلے کے جھٹکے کراچی، لاہور، حیدرآباد اور لاڑکانہ میں بھی محسوس کیے گئے۔ تاہم جانی نقصان صرف آواران کے علاقے میں ہوا۔

31مئی 1935
بلوچستان چمن فالٹ پر ہونے کی وجہ سے ماضی میں بھی زلزلوں کا مرکز رہا ہے۔ جغرافیائی زبان میں چمن فالٹ دراصل ایک ایسا مقام ہے جہاں ''انڈو آسٹریلین پلیٹ''، ''یوریشین پلیٹ'' سے الگ ہوتی ہے۔

کوئٹہ اور اس سے محلقہ قصبے زلزلے کی سب سے متحرک فالٹ لائن چمن پر واقع ہیں۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک زلزلہ 31 مئی 1935 کی شب کوئٹہ میں آیا تھا۔ 7.7 شدت کے اس زلزلے نے چند ہی لمحوں میں نیند کی وادی میں کھوئے کوئٹہ کے ہزاروں شہریوں کو موت کی وادی میں پہنچا دیا۔

زلزلے کا مرکز قصبے علی جان سے چار کلو میٹر دور جنوب مغرب میں سطح زمین سے 15کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ اس زلزلے نے کوئٹہ شہر اور اس سے محلقہ علاقوں کو صفحۂ ہستی سے تقریباً مٹا دیا تھا۔ اس ہلاکت خیز زلزلے کے نتیجے میں تیس سے ساٹھ ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے، جب کہ زلزلے سے، مواصلات، ٹریفک اور ریلوے کا نظام بری طرح تباہ اور ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔

28نومبر 1945
کوئٹہ شہر کے باسی ابھی تک 1935میں آنے والے زلزلے کے صدمے سے باہر بھی نہیں آسکے تھے کہ 28 نومبر 1945کو ایک بار پھر بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی میں آنے والے8.1 شدت کے زلزلے سے پیدا ہونے والے سونامی نے مکران اور پسنی کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچادی۔ اس زلزلے میں چار ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ زلزلے کا مرکز مکران کے ساحل سے15کلو میٹر سمندر میں تھا۔



28دسمبر1974
اٹھائیس دسمبر 1974کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخواہ) کے پُرفضا پہاڑی مقام ہنزہ، ہزارہ اور وادی سوات میں آنے والے 6.2شدت کے زلزلے نے 5,300 سے زاید افراد کو ہلاک اور سترہ ہزار سے زاید کو زخمی کردیا تھا۔ زلزلے کا مرکز35.1 ڈگری شمال اور72.9 ڈگری مشرق میں تھا۔ سب سے زیادہ نقصان زلزلے کی وجہ سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور چٹانوں کے گرنے سے ہوا تھا۔ زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی کارروائی بھی بہ ذریعہ ہیلی کاپٹر کی گئی تھی، کیوں کہ لینڈ سلائیڈنگ نے متاثرہ علاقوں تک جانے والے تمام زمینی راستے بند کر دیے تھے۔

8 اکتوبر2005
آٹھ اکتوبر 2005 کا دن پاکستان کی تاریخ کے لیے ایک سیاہ ترین دن ثابت ہوا۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں آنے والی اس قدرتی آفت نے ہزاروں افراد کولقمئہ اجل بنادیا اور لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا تھا۔ زلزلے کا مرکز آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد سے 19کلومیٹر دور شمال مشرق میں 10کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ 7.6 شدت کے اس زلزلے نے مظفر آباد، بالا کوٹ، اسلام آباد، اور دیگر کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں اسی ہزار سے زاید افراد جاں بحق اور ایک لاکھ 38ہزار افراد شدید زخمی اور 35لاکھ سے زاید افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ زلزلے کی تباہ کاریوں میں مزید اضافہ اسی دن آنے والے 147آفٹر شاکس نے بھی کیا، جن میں سے کچھ آفٹر شاکس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.2 تک تھی۔ اس زلزلے نے ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع پہاڑوں کی اونچائی میں بھی چند میٹر کا اضافہ کردیا تھا۔ اس زلزلے کے جھٹکے تاجکستان، مغربی چین اور افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔

29اکتوبر2008
29اکتوبر2008کو ایک بار پھر 6.4شدت کے زلزلے نے صوبہ بلوچستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں 215قیمتی انسانی جانوں کا نقصان اور ایک لاکھ بیس ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز کوئٹہ شہر سے ایک سو دس کلومیٹر دور شمال میں سطح زمین سے دس کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ، زیارت، پشین، قلعہ عبداﷲ، مستونگ، سبی، بولان، کچلاک اور لورالئی میں محسوس کیے گئے تھے۔ تاہم اس زلزلے میں زیادہ تر جانی اور مالی نقصان زیارت کے مضافات میں واقع دو دیہات میں ہوا۔

18جنوری2011
جنوری2011 میں کوئٹہ شہر میں ایک بار پھر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جن کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.2ریکارڈ کی گئی۔ اس زلزلے میں دالبندین کے علاقے میں مٹی کے بنے تقریباً دو سو گھر ڈھے گئے تھے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز سطح زمین سے 84 کلومیٹر گہرائی میں ہونے کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس زلزلے کے جھٹکے بحرین، متحدہ عرب امارات، ایران، افغانستان اور بھارت میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق زلزلے کے یہ جھٹکے ''انڈین پلیٹ''،''عربین پلیٹ'' اور ''انڈین پلیٹ'' میں ہونے والے حرکت کی وجہ سے محسوس کیے گئے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں