سچ بولنا ممکن نہیں رہا
اس میں کلام نہیں کہ پاکستانی معاشرہ آج انتہا پسندی کا شکار ہے
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جو سماج کی عکاسی کرتا ہے، صحافی لوگوں کو معلومات فراہم کرتا ہے، خاص طور پر سچ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس راہ میں اس کے اور اس کے گھر والوں کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے، ان تمام خطرات سے بے نیاز وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں تک سچ پہنچا دیتا ہے۔ صحافت معاشرے کے کچلے ہوئے عوام کی ترجمانی کرتی ہے۔ جب ظلم کے ستائے ہوئے لوگ صحافت کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو میڈیا بلا خوف و خطر ان کی داستان غم و مظلومیت کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے جس سے مظلوم کو انصاف ملتا ہے۔ میڈیا سچ کی تلاش میں جن با اثر شخصیات کو بے نقاب کرتا ہے تو پھر وہ اپنے زر خرید کارندوں کے ذریعے مذکورہ صحافی، اخبار اور ٹی وی چینل کو سبق سکھانے میں لگ جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی اینکر خاتون کو جان سے مارنے اور ان کے گھر والوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی ہے جب انھوں نے اس کی شکایت اعلیٰ حکام سے کی اور تحفظ طلب کیا تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سیاسی مفادات غالب ہیں جس کی بنا پر اس نے صحافت چھوڑنے اور دھمکیوں کے باعث پاکستان سے جانے کا فیصلہ کیا ہے جسے میڈیا کے لوگ افسوسناک قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس واقعے کے بعد تمام صحافیوں کو اسٹینڈ لینا چاہیے اور جو لوگ دھمکیاں دے رہے ہیں ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، اپنے مسائل کو مشترکہ طور پر حکومت کے سامنے رکھنا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی ٹھیک ہی کہا ہے کہ ہم نے گولیاں یا تلواریں تو چلانی نہیں ہیں، اپنے حقوق کے لیے بہتر حکمت عملی مرتب کرنا ہمارا حق ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب اس طرح کا کوئی معاملہ ہوتا ہے تو اس سے انفرادی طور پر نمٹا جاتاہے، تجزیہ کار کا کہنا درست ہے کہ یہ نوجوان مرنے کے لیے صحافی نہیں بنتے، اطلاع کا حق مہیا کرنے کے لیے صحافی بنتے ہیں۔ صحافیوں کو اپنا بندوبست خود ہی کرنا پڑے گا۔ اسی پروگرام میں اینکر پرسن نے کہا کہ مجھے کسی نے دھمکی تو نہیں دی لیکن ایک سیکیورٹی ادارے نے جے آئی ٹی شیئر کی کہ آپ کو کراچی میں خطرہ ہے، آپ کراچی سے چلے جائیں، میں نے ایک وزیر سے پوچھا، پولیس سے پوچھا، لیکن کسی نے بھی اس جے آئی ٹی کی تصدیق نہیں کی اور یہی کہا کہ ہمیں اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔
در اصل صحافت کی آنکھیں ہمیشہ سچائی پر جمی ہوتی ہیں اور کان سچ سننے کے عادی ہوتے ہیں۔ مقدس صحافت تحقیق کیے بغیر من گھڑت خبریں شایع و نشر نہیں کرتی وہ بلا روک ٹوک لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ انھوں نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ حق و سچائی پر مبنی ہے اور یہی صحافت کا مشن ہے۔ اس کے بعد کیا صورت حال ہوتی ہے اس کا اندازہ ایک عام فرد نہیں لگا سکتا۔ پھر مختلف طریقوں سے صحافت پر حملے کروائے جاتے ہیں۔ جس کے لوازمات کچھ یوں ہیں۔ ٭ اشتہارات کی بندش ٭فوٹو گرافروں، کیمرہ مینوں کی پٹائی اور کیمروں کو توڑنا اور تصویریں ضایع کرنا٭ سرکاری اجلاسوں کی خبروں سے بے خبر کرنا٭ ہاکروں سے اخبارات کے بنڈل چھین کر آگ لگا دینا٭ ٹی وی چینلوں کو گھیر لینا ان پر فائرنگ کرنا، دفتر کو آگ لگا دینا، آفس میں توڑ پھوڑ کرنا٭ صحافیوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کرنا۔ ان کے علاوہ سماجی اور کاروباری پریشانیوں میں مبتلا کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود صحافی اپنے فرائض سے غداری نہیں کرتا لیکن اس کی بڑی مظلومیت یہ ہے کہ کسی بھی طرف سے اس کے حق میں آواز بلند نہیں کی جاتی۔
جس طرح ہر شعبہ ہائے زندگی میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح شعبہ صحافت کو بھی تنقید اور الزامات کا سامنا ہے، اسے شفافیت پر توجہ دینا چاہیے۔ ہمارے ہاں زرد صحافت کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ زرد صحافت ایک دھبہ ہے۔ اس کے لیے خواہ ملک و قوم کے مفادات کا سودا ہی کیوں نہ کیا جائے۔ زرد صحافت کی بنیاد منافقت اور سوداگری پر ہوتی ہے جتنا شکر ڈالو اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے جو لوگ من پسند خبروں پر صحافت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے وہی لوگ اپنے خلاف بیانات کو زرد صحافت کا نام دے دیتے ہیں۔
اس میں کلام نہیں کہ پاکستانی معاشرہ آج انتہا پسندی کا شکار ہے، میڈیا کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ سو فیصد سچ بولے، یہ ایک رسک تو ہے مگر یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ صحافت میں سچائی ملکی بقا اور معاشرتی استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ یہ سوچ من و عن درست نہیں ہے کہ جو چیز بکتی ہے میڈیا اسی پر کام کر رہا ہے اگر سو فیصد ایسا ہوتا تو آج عالمی سطح پر صحافیوں کے لیے12خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان 8 ویں نمبر پر نہ ہوتا۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کی رپورٹ کے مطابق عراق گزشتہ برس کی طرح اس سال 2013میں بھی سر فہرست ہے جب کہ 2012 میں پاکستان 10 ویں نمبر پر تھا لیکن صحافیوں کے لیے بڑھتے خطرات اور ہلاکتوں کے باعث 8 ویں نمبر پر آ گیا ہے جہاں 2012 کو 13صحافی ہلاک کیے گئے تھے۔ دنیا بھر میں سال 2012 کو 67 صحافی ذمے داریاں سر انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
عراق 2003 میں امریکی تسلط کے بعد سے لے کر اب تک صحافیوں کے لیے مہلک ترین رہا ہے۔ فہرست میں عراق پہلے، صومالیہ دوسرے، فلپائن تیسرے، سری لنکا چوتھے، کولمبیا پانچویں، افغانستان چھٹے، میکسیکو7 واں، پاکستان 8 واں، روس 9 واں، برازیل10 واں، نائیجیریا11 واں اور بھارت کا 12 واں نمبر ہے۔ جب کہ تازہ ترین صورت حال کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں شورش زدہ ملک شام میں ہو رہی ہیں۔ رواں سال 2013میں پاکستان میں 7 صحافی ہلاک کیے گئے ہیں، اس طرح ان دنوں فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کس حد تک مستحکم ہے؟ اور دہشت گرد کتنے طاقتور ہیں۔ ہمارے یہاں سیاست پر دہشت گردی غالب ہے۔ اس لیے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کو نامعلوم لکھا اور پکارا جاتاہے۔ شاید اس میں جان بخشی ہے جب کہ میڈیا بے خبر نہیں بلکہ با خبر ہے اور ہر واقعے پر نظر رکھتا ہے۔