تعمیری تصور جو راستہ دکھاتا ہے
وہ جب بھی REM Sleep کے مرحلے میں پہنچتی ہو گی جس میں گہری نیند اور خواب دیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ اپنے ایک کالم میں خوابوں کا ذکر کیا تھا۔ دراصل وہ کوشش دریا کو کوزے میں سمونے کے برابر تھی۔ کچھ موضوع وسعت اور معنویت کے اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ قارئین نے بھی اس تشنگی کو محسوس کیا اور فرمائش کی کہ خوابوں کے حوالے سے انھیں مزید کچھ معلومات فراہم کی جائے۔ کالم پڑھنے کے بعد ایک لڑکی نے سوال کیا کہ اسے خواب کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ میں چونکہ اسے بہت قریب سے جانتی ہوں۔ اس کے اندر کے الجھاؤ کا پتہ اس کے چہرے کے تاثرات سے ملتا ہے۔ میں نے کہا ''تمہاری نیند پھر پرسکون نہیں ہو گی۔''
''آپ کو کیسے پتہ چلا؟'' اس نے حیران ہو کر کہا۔
''خواب دیکھنے کے لیے پرسکون نیند چاہیے'' میرا جواب سن کر وہ بولی ''ہاں نیند کے دوران میں بار بار چونک کر جاگ جاتی ہوں۔''
''تمہیں خود سے ملاقات کے لیے بھی وقت نہیں ملتا ہو گا'' تو اس نے کہا کہ ''یہ حقیقت ہے کہ میں مشینی دور کا حصہ بن گئی ہوں اور اپنی ذات تک کو فراموش کر بیٹھی ہوں۔''
وہ جب بھی REM Sleep کے مرحلے میں پہنچتی ہو گی جس میں گہری نیند اور خواب دیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس کی آنکھ کھل جانے کی وجہ سے وہ خواب دیکھنے سے محروم ہوجاتی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ تعمیری تصور پر مبنی خواب خود آگہی کا ردعمل ہیں۔ ہمارے مشاہدات و تجربات جو لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں، جنھیں ہم بھول جاتے ہیں مگر ہمارے عمل اور ردعمل لاشعور سے جڑے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر باپ اپنے بچوں سے سخت رویہ رکھتا ہے کیونکہ بچپن میں اس کے والد نے اس کے ساتھ سخت رویہ رکھا تھا لہٰذا لاشعور میں محفوظ تلخ تجربات حال کے لمحوں سے جھلکنے لگتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں، میں نے لیوسڈ ڈریمنگ(Lucid Dreaming) کا ذکر کیا تھا۔ یہ خواب خود آگہی کا نتیجہ ہیں۔ جس میں خواب دیکھنے والا شعوری طور پر محسوس کرتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ خواب روشن ہوتے ہیں۔ مناظر کی آوازیں ان خوابوں میں متحرک اور حقیقت کے قریب تر ہوتی ہیں۔ یہ خواب مضبوط تصور کی طاقت سے عبارت ہیں۔
خیال اور تصور اس وقت طاقت بنتے ہیں جب انسان کے پاس جذبے کی سچائی ہو۔ آپ نے Fancy (قیاس) کا لفظ تو سنا ہو گا۔ یہ ایک ایسی سوچ یا خیال ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک پرفریب خیال ہے۔ جسے حقیقت میں بدلنا ناممکن ہے۔ کیونکہ یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے کہ وہ کون سا خیال یا تصور ہے جو ناممکن کی سرحدوں کو عبور کر لیتا ہے۔ تخلیقی سوچ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ Imaginations (تصورات) زندگی کو مکمل طور پر بدل دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لفظ فینسی کے مقابلے میں وسیع اور جامع ہے۔ شاعری اور ادب ان تخلیقی تصورات کے اردگرد گھومتے ہیں مگر لیوسڈ ڈریمنگ کے لیے تصور کی طاقت درکار ہوتی ہے۔ یہ تصور وہاں کام کرتا ہے جو خواہشیں دائرہ اختیار میں ہوتی ہیں۔ یہ خواب روزمرہ کے حالات و واقعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جن میں بعض اوقات وہ خواہشات جو پوری ہوتی دکھائی دیتی ہیں جو عام زندگی میں متوقع نہیں ہیں۔ ایک قیدی کھلی فضاؤں کے خواب دیکھتا ہے۔ اکثر ان لوگوں سے خواب میں ملاقات ہو جاتی ہے جو دور جا چکے ہیں۔ خود کو فضاؤں میں لڑتے ہوئے دیکھنا۔ ایسی خوبصورت جگہیں یا مناظر دیکھنا جہاں عام زندگی میں جانے کا تصور نہیں کر سکتے۔
یہ خواب زیادہ تر روز مرہ کے معاملات کے بارے میں ہوتے ہیں۔ یا وہ خواہشیں جو ممنوعہ قرار دی جاتی ہیں وہ انسان خواب میں پوری ہوتے دیکھتا ہے۔ جیسے کسی بچے کو کسی بھی طبی مسئلے کی وجہ سے کھیل کود سے روک دیا جاتا ہے اور اسے فٹ بال کھیلنے کا جنون ہے تو وہ اپنے خوابوں میں خود کو فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھے گا۔ ممکن ہے وہ بچہ دوبارہ فٹ بال نہ کھیل سکے مگر یہ خواب اس کی تحلیل نفسی کا سبب بنتے ہیں۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے مضمون نظر سے گزرا جسے ایکسیڈنٹ کے بعد ڈاکٹرز نے کہہ دیا تھا کہ وہ اب کبھی بھی نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ اس حادثے میں اس کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہوئی تھی۔ لیکن اس شخص نے لیوسڈ ڈریمنگ کی مدد سے ناممکن کو ممکن میں بدل دیا اور وہ دوبارہ چلنے پھرنے لگا۔ انسان چونکہ اپنے خیال کی حقیقت کو تبدیل کرنے پر قادر ہے۔ وہ جب حالات و واقعات کو ایک ہی انداز سے دیکھنے کے بجائے انھیں سوچ کے مختلف تناظر میں دیکھنا شروع کرتا ہے تو اسے بعض اوقات مشکل ترین مسائل کا حل بھی مل جاتا ہے۔ یہ خواب Visual Imagery بصری تصور کے تابع ہیں۔ لہٰذا خواب کے ماحول، واقعات اور حالات شعوری کوشش سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
خواب دیکھنے کے حوالے سے ماہر نفسیات مستقل اپنے نظریے متعارف کرواتے رہتے ہیں۔ ایک مکتبہ فکر یہ کہتا ہے کہ خواب دیکھنے کے لیے نیند کا پرسکون دورانیہ چاہیے۔ جب ہم گہری نیند کی طرف جاتے ہیں تو اس دورانیے کو REM Sleep کا مرحلہ کہا جاتا ہے۔ جس میں خواب نظر آتے ہیں۔ یہ تخلیقی عمل کا مرحلہ کہلاتا ہے، جہاں سوچ و حقائق کے درمیان ایک رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ کچھ ماہر نفسیات خواب کو حقیقت پسندی، منطق، تجسس اور تخیل پسندی سے منسوب کرتے ہیں۔
خوابوں کو اگر سمجھا جائے تو وہ تعمیری سوچ کو جنم دیتے ہیں۔ وہ واضح ہوتے ہیں اور زندگی کو راستہ دکھاتے ہیں۔ لیکن اگر لاشعور کے پیغام کو نظرانداز کیا جائے تو وہ ڈراؤنے خوابوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس صورت حال میں خواب دھندلی اور مبہم نوعیت اختیار کر لیتے ہیں۔ ڈراؤنے خواب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لاشعور میں چھپے کچھ مسائل ایسے ہیں جو اپنا حل چاہتے ہیں۔ جو ذہن میں مستقل انتشار پھیلاتے رہتے ہیں۔ لیوسڈ ڈریمز کی خاص بات یہ ہے کہ خواب ذہن میں کسی سافٹ ویئر کی طرح فٹ کیے جاتے ہیں جس کے توسط سے انسان من پسند نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ شعور جب کوئی لائحہ عمل تیار کر لیتا ہے تو خواب بھی اس مقصد کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ ذہن بار بار اس مقصد کو دہراتا ہے اور یقین کی پختگی خواب کو حقیقت میں بدل دیتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عفوان شباب میں دیکھے گئے خواب عمل کی تاثیر رکھتے ہیں۔ گیارہ سال سے اٹھارہ سال تک والدین بچوں کے قریب رہیں، اور زندگی کے تمام معاملات میں ان کا ساتھ دیں تو بچے بھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ اس عرصے میں والدین اور بچوں کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جو والدین کی دوری اور بے جا تنقید کی وجہ سے جڑ پکڑ لیتا ہے اور بچے بھی راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ اور بری صحبت اختیار کر لیتے ہیں۔ والدین اگر بچوں سے ان کے خوابوں کے بارے میں معلوم کریں گے تو انھیں وہ خواب سن کر رہنمائی ملے گی کہ ان کے بچے کی ذہنی سطح کیا ہے اور لاشعور میں محفوظ بچے کے تجربات و مشاہدات اس کی شخصیت کی تعمیر میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔
بچہ اگر ڈراؤنے خواب دیکھ رہا ہے تو وہ کہیں نہ کہیں عدم تحفظ کا شکار ہے۔ لیکن میں نے اپنے اردگرد بہت کم والدین کو دیکھا ہے جو اپنے بچوں کے ذہنی طور پر قریب ہوتے ہیں۔ بچے کے ساتھ ذہنی قربت اگر ایک بار مستحکم ہو جائے تو والدین جسمانی طور پر ان سے دور بھی ہوں تو وہ اچھا احساس اور یقین نئی نسل کی رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ لیکن اگر والدین کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے خواب سن سکیں تو وہ بچوں کو ڈریم ڈائری ترتیب دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ اور ان کے خوابوں کو شیئر کر کے انھیں سمجھ سکتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں ان کی بہترین رہنمائی کر سکتے ہیں۔ دراصل ہم جس تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ تبدیلی پختہ عادات کے حامل افراد نہیں لا سکتے۔ لیکن نئی نسل تبدیلی لے کر آتی ہے اگر ان کی پرورش اخلاقی قدروں اور نفسیات کے اصولوں پر کی جائے تو مستقبل آج سے بہتر اور مختلف ہو گا۔
ڈبلیو۔ ایس اسٹونر(W.S Stoner) اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ''میں نے اپنی بیٹی کی پرورش تصورات قوت کے توسط سے کی۔ میں نے اسے غور کرنے کی عادت ڈالی۔ مگر کئی والدین بچوں کی باتیں رد کر کے ان سے یہ خزانہ چھین لیتے ہیں۔ جیسے میرے سامنے ایک بچی نے شام کے وقت والدہ سے کہا کہ وہ دیکھیں آسمان پر گلابی بادل گلابی آئسکریم جیسے دکھائی دیتے ہیں تو ماں نے ایک دم اسے ڈانٹ دیا یہ کہہ کر کہ کیسی پاگل ہو ، جو بادلوں کو آئسکریم سے ملاتی ہو۔ اس کے بعد بچی ایک دم خاموش ہو گئی۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو اظہار کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ اور والدین کو ان کے تصوراتی خیال سننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی تعمیری تصوراتی سوچ آگے بڑھنے کے لیے اپنا راستہ خود بناتی ہے۔