ہندو مت کی تشکیل

فارسی ماخذات سے معلوم ہوتاہے کہ ’’انڈیا‘‘ بھی فارسی ہی سے لیاگیا اوراس کے آغازمیں ’ایچ‘‘ کو’آئی‘ سے تبدیل کردیاگیا۔


اکرام سہگل August 29, 2019

کئی قارئین کے لیے یہ بات تعجب خیز ہوگی کہ اٹھارہویں انیسویں صدی سے قبل ''ہندوازم'' یا ہندومت کی اصطلاح وجود نہیں رکھتی تھی۔ ہندوستان کا سماج واضح طور پر ذات پات میں تقسیم ہے اور ہمالیہ سے لے کر کیپ کومورین تک سیکڑوں مقامی دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی ہے۔

ان مختلف خطوں کے باسیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن انھیں ایک مشترکہ دھرم کا حصہ بتایا جائے گا اور اسے ''ہندوازم'' یا ہندو مت کا نام دے دیا جائے گا۔ برصغیر کے مختلف علاقوں میں مذہبی پیشوائیت کے دعوے دار ہندوستانی برہمنوں کو آج بھی یہ بات گراں گزرتی ہوگی کہ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والوں کا شمار بھی اسی دھرم کو ماننے والی فہرست میں ہوتا ہوگا جہاں ان کا نام بھی لکھا جاتا ہے ۔ خیر، انھوں نے لکھنے پڑھنے اور فہرستیں تیار کرنے کا جھنجھٹ ہی کب پالا ہے۔

'ہند' اور 'ہندو' کے لفظ بھی ہندوستان سے باہر فارس کے علاقے سے یہاں آئے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق فارسی لفظ ہندو سنسکرت کے لفظ سندھو کی تبدیل شدہ صورت ہے، جس میں'س'' کی جگہ 'ہ' نے لے لی۔ 850سے 600قبل مسیح کے دوران اسکو پارپولا نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ اسی لیے رگ وید میں بیان کی گئی ''سپتا سندھوا'' (سات دریاؤں کی سرزمین) کو آوستا میں ''ہپتا ہندو'' لکھا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں حملہ آور ہونے والے فارسی فاتحین نے اسے ہندوستان کا نام دیا۔

اس کا مقامی نام بھارت تھا۔ فارسی ماخذات سے معلوم ہوتا ہے کہ ''انڈیا'' بھی فارسی ہی سے لیا گیا اور اس کے آغاز میں 'ایچ'' کو 'آئی' سے تبدیل کردیا گیا۔ برطانوی مداخلت سے قبل ہندوستان میں پرستش کی رائج رسومات کوئی باقاعدہ نظام اعتقاد نہیں رکھتی تھیں۔ ایک ہی خطے میں سانپوں اور کائنات کی حقیقت مطلق کی پرستش کی جاتی تھی اور کبھی تو ایک ہی وقت میں ایک شخص ان دو الگ الگ تصورات پر یقین رکھتا تھا۔ مذہبی کتابیں سنسکرت میں تھیں، ان تک ہر کسی کی رسائی نہیں تھی اور صرف برہمنوں ہی کو یہ زبان آتی تھی اور ان کے علاوہ کسی کو یہ زبان سیکھنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

آج بھی جب عام آدمی سنسکرت میں مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے کسی برہمن کو اپنے گھر بلاتا ہے تو وہ اپنے آباؤ اجداد کی اسی روایت پر عمل کرتا ہے۔ کڑی مذہبیت کے بجائے اس کی حیثیت صرف معمول کی مذہبی رسومات تھیں۔ مسلمانوں کے بارے میں بھی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختلف کتابوں میں تاثر دیا جاتا ہے کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا، اس کے برخلاف ایران اور وسطی ایشیا سے آنے والے صوفیا نے یہاں خانقاہیں تعمیر کیں اور لنگر اور تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ اپنے پاس آنے والوں سے یکساں سلوک کرتے تھے۔

ان کی دیکھ بھال کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگ اسلام کی جانب متوجہ ہوئے۔ راجستھان کے کچھ معاصر محققین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض علاقوں میں جب انھوں نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان تو ان کا جواب تھا''ہم ہندومسلمان ہیں''۔ یہ لوگ صوفی بزرگوں کے مزارات پر حاضری بھی دیتے اور مقامی دیوی کے لیے بلی بھی چڑھاتے ہیں۔ انھی حالات کے پیش نظر 1927میں تبلیغی جماعت قائم کی گئی۔ اس جماعت کا بنیادی مقصد تبدیلی مذہب کے بجائے مسلمان کہلانے والوں کو اپنے تصور اسلام کے مطابق مذہبی تعلیمات سے آشنا کرنا تھا۔

برطانوی پہلے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں کاروبار کے لیے ہندوستان آئے۔ 1765میں انھیں مغل دربار سے اپنے زیر انتظام علاقوں سے محصول جمع کرنے کا پروانہ ملا۔ اس کے بعد سے کمپنی نے ایک انتظامی ادارے کی حیثیت اختیار کرلی اور اس کے افسران نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہندوستانی سماج اور رسومات کا گہرائی سے جائزہ لینا شروع کردیا۔ اٹھارہویں صدی میں یہاں مذہب کی رائج صورت، دیوی دیوتاؤں ، مکاتب فکر اور فرقوں کی بہتات نے انگریز کو حیرت زدہ کردیا۔

انھیں ہندوستانی ثقافت کو بہت قریب سے دیکھنے کے مواقعے میسر آئے۔ مزید یہ کہ یورپ میں روشن خیالی کی تحریک نے یورپیوں کے جہاں بینی کے تصورات کو یکسر تبدیل کردیا۔ انھوں نے یہ تسلیم کرنا شروع کردیا کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے اور سبھی کی ابتدا بربریت تھی اور سبھی تہذیب کا سفر کر رہے ہیں۔ ابتدائی چند یورپی اور برطانوی اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستانیوں کی طرح بہت سی اقوام ترقی کے اس سفر میں پیچھے رہ گئی ہیں۔ دنیا کو دیکھنے کے اس نئے تناظر نے علمِ بشریات(اینتھروپولوجی) کو جنم دیا۔

جس میں مختلف اقوام کی تہذیب کے سفر میں صورت حال کا جائزہ لیا جانے لگا۔ اس شعبہ علم کے تحت اقوام اور معاشروں کی زمرہ بندی کی گئی۔ بہت سے برطانوی افسران نے مشغلے کے طور پر یہ علم سیکھا اور ہندوستانی سماج اور رسومات کی زمرہ بندی کی۔ ظاہر ہے کہ یہ زمرہ بندی یورپی طریقے پر کی گئی تھی۔ انھوں نے ''مذہب'' کو ایک طرز حیات کے بجائے ، ہندوستان میں بھی مذہب کو مسیحیت کی طرح اکائی تصور کیا۔ یورپ میں وہ اسلام سے معاملہ کرچکے تھے اور اس کے لیے بغض بھی رکھتے تھے۔ اب انھوں نے اسلام کے علاوہ دیگر مذہبی رسومات کی زمرہ بندی بطور الگ مذہب کے کرنا شروع کردی۔

انگریز اسکالرز کے ترجموں سے پہلے اٹھارہویں صدی تک صرف اونچی ذات کے مٹھی بھر ہندوستانی ہی بھگ وت گیتا کے بارے میں جانتے تھے۔ انگریز اسکالروں نے اسے ہندو مت کی مقدس کتاب کے طور پر پیش کیا۔ سہولت کے ساتھ بھانت بھانت کے عقائد و رسومات کو ایک زمرے میں رکھنے کی خاطر انگریزوں کو بائبل سے موازنہ کرنے کے لیے کسی مذہبی کتاب کی تلاش تھی۔

لیکن تمام مذہبی کتب سنسکرت میں تھیں اور وہ یہ زبان جانتے نہیں تھے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اونچی ذات کے برہمنوں نے پہلے ان مذہبی متن کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا جس کے بعد مستشرقین نے انھیں انگریزی روپ دیا۔ اس کے نتیجے میں ایسا انقلاب برپا ہوا جس کا موازنہ بائبل کے لاطینی سے مقامی زبانوں میں ترجمے کے اثرات سے کیا جاسکتا ہے۔ جو مذہبی کتب اور متن رسائی سے باہر تھے، وہ انگریزی جاننے والے ہر فرد کی پہنچ میں آگئے۔

انگریزوں نے جدید علم سکھانے کے لیے ہندوستانی روایات کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔انیسویں صدی کے وسط سے انگریزوں نے تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کیے جن کے بارے میں 1835میں تھامس بی میکالے نے کہا تھا''(ان اداروں کے قیام سے) ہم ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے اور ہمارے محکوم لاکھوں افراد کے درمیان ترجمانی کا کردار ادا کرے۔ یہ ایسے افراد پر مشتمل طبقہ ہوگا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی لیکن اپنے ذوق، آراء، اقدار اور فکر کے اعتبار سے انگریز ہوں گے۔''

اسی لیے انگریزی زبان اور یورپی انداز کی زمرہ بندی کی بنیاد پر انیسویں صدی میں ہندوستانی مذہب کی تشکیل میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی، جب ہندوستان پہلی بار مغرب اور قومیت سے متعلق اس کے عالم گیر نظریات سے متعارف ہوا تو اس کے نتیجے میں ہندوازم یا ہند مت کا تصور وجود میں آیا۔ اس کے فوری بعد نو ایجاد ''ہندوازم'' میں اصلاحات اور اس کی عظمت رفتہ کی بازیافت کی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا۔ برطانوی مطلق العنانیت اور مسیحی مشنریوں نے اس تحریک کو مزید بڑھاوا دیا۔

(یہ کالم سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل اور برلن کی ہمبلوٹ یونیورسٹی کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سابق سربراہ بیٹینا روبوٹکا کے اس موضوع پر لکھے گئے سلسلۂ مضامین کا پہلا حصہ ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں