کشمیر ہم اور نند کشور وکرم
دنیا کو یہ پیغام ملے گا یا پہنچایا جائے گاکہ اصل میں پاکستان کا مسئلہ بھی بھارت کی طرح کشمیر کی زمین ہے۔
جس طرح اُردو ڈائجسٹ اور الطاف حسن قریشی لازم و ملزوم کہے اور سمجھے جاتے ہیں کم و بیش اسی طرح الطاف بھائی اور اُن کی تنظیم ''پائنا'' ہر قومی نوعیت کے مسئلے پر سب سے پہلے دانشوروں کو ایک جگہ جمع کرکے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اور تعمیری طریقِ کار کی تلاش کا بیڑہ اُٹھاتے ہیں۔
26اگست کو اسی روایت کی تجدید کے لیے انھوں نے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے دفتر میں احباب کو اس حوالے سے مدعو کیا کہ موجودہ صورتِ حال میں کشمیر پالیسی پر نہ صرف حکومتِ وقت کو اہلِ دانش کے مشورہ اور تعاون سے آگاہ کیا جائے بلکہ ایک ایسی کل پاکستان کانفرنس کا بھی انعقاد کیا جائے جو اس ضمن میں باہمی غورو فکر اور مشورے سے ایسی سفارشات بھی مرتب کرے جن میں عوامی جذبے، قومی حمیت اور اجتماعی دانش تینوں کی بھرپور نمایندگی ہو، یہ محدود محفل گویا اُس مجوزہ بڑی کانفرنس کے اسکوپ، وقت ، مقام ، ایجنڈے اور شرکاء کی تفصیلات طے کرنے کے لیے تھی۔
سو گفتگو کا موضوع زیادہ تر یہی رہا کہ سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اندریِں حالات ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ اور یہ کہ ہمارے عمل اور ردعمل کا طریقِ کار کیا ہوناچاہیے ؟ اس بات پر بھی اتفاقِ رائے کیا گیا کہ ہمیں ایٹمی جنگ کا تذکرہ کسی بھی حوالے سے نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے نفسیاتی طور پر عالمی رائے عامہ ا ور انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں شش و پنچ میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور یوں کشمیری عوام کو وہ ہمدردی زیادہ شدت کے ساتھ نہیں مل سکتی۔
جس کے لیے اس وقت ایک بہتر صورتِ حال گزشتہ پچاس برس میں پہلی بار دیکھنے میں آرہی ہے اور دوسری طرف حکومتِ وقت کے اس عمومی روّیئے میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ وہ کشمیریوںکے حقِ خود ارادیت کی حمایت سے زیادہ اس بات پر زور دیے جارہی ہے کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی کی کوئی کوشش کی تو اُسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
بات اور جذبہ اپنی جگہ پر درست سہی لیکن اس وقت زیادہ ضرورت مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حقوق اور اُن پر روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھانے اور ''کشمیر'' ہمارا ہے '' یا ''کشمیر بنے گا پاکستان'' کے نعرے لگانے کے بجائے اس بات پر عالمی رائے عامہ کو یکجا کرنے کی ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف کشمیریوں کی مرضی اور اجتماعی رائے کے مطابق ہونا ہے ظاہر ہے کہ ایسا ہوجانے کی صورت میں یہ مسئلہ ہماری توقعات کے مطابق اپنے آپ حل ہوجائے گا بصورتِ دیگر دنیا کو یہ پیغام ملے گا یا پہنچایا جائے گاکہ اصل میں پاکستان کا مسئلہ بھی بھارت کی طرح کشمیر کی زمین ہے کشمیری عوام اور اُن کے حقوق نہیں۔
اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ ہمیں جذبات سے ہٹ کر معروضی صورتِ حال، اُس کے تقاضوں اور معاشی اعتبار سے بھارت کے ہم سے بہت زیادہ مضبوط اُن رشتوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ جن سے ملحقہ مفادات کا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ہے اور بدقسمتی سے اس فہرست میں ہمارے مسلمان دوست ممالک ایک دو کے علاوہ بھارت دوستی میں سب سے پیش پیش ہیں اور یہ بھی کہ اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ہو ، عالمی عدالت انصاف یا کوئی اور فورم سب کے سب نہ صرف لمبے اور پیچیدہ راستے ہیں بلکہ اگر یہ آپ کے حق میں فیصلہ دے بھی دیں تب بھی ان کے پاس اپنے فیصلے کو منوانے کی طاقت اور میکنزم نہ ہونے کے برابر ہے۔
جس کی ایک زندہ مثال 72 سال سے موجود اور منظور سلامتی کونسل کی وہ قرار دادیں ہیں جن پر آج تک عمل تو درکنار کوئی بھی اہم ملک اُس کے بارے میں بات تک کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ مودی سرکار کے اس غیر آئینی اور ظالمانہ اقدار کے ردِعمل میں اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان نام نہاد بڑے ملکوں کے ساتھ پوری دنیا کے دانشور اور بالخصوص انسانی حقوق کی حمایت میں آواز اٹھانے والے لوگ کھل کر بھارت کی مذمت کر رہے ہیں اور چونکہ دنیا کے بیشتر ممالک کی حکومتیں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے عوام کی رائے کو وزن اور اہمیت دیتی ہیں اس لیے یہ واحد ہتھیار ہے جو فی الوقت ہمارے حق میں استعمال ہوسکتا ہے۔الطاف حسن قریشی صاحب نے بھی اپنی اختتامی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اس مجوزہ کانفرنس کی بنیاد اس ایک نقاطی ایجنڈے پر رکھنی چاہیے تاکہ مسئلے کے عملی حل کی طرف اجتماعی پیش رفت کی جاسکے۔
جیسا کہ میں نے گزشتہ کسی کالم میں انصاف پسند اور حق پرست بھارتی اہلِ قلم اور دانشوروں کے حوالے سے ذکر کیا تھا کہ اُن میں سے بیشتر اپنی حکومت کے اس اقدام سے نالاں اور کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے حامی ہیں اور اس ضمن میں ہمیں اُن کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے جس بھارتی قلم کار نے سب سے پہلے فون پر مجھ سے اس موضوع پر بات کی وہ نند کشور وکرم تھے۔
ان کا آج نوے برس کی عمر میں انتقال ہوگیا ہے اُن کی تحریروں سے تو میری پرانی واقفیت تھی لیکن اُن سے براہِ راست ملاقات چند برس قبل اُردو مجلس دوحہ قطر کے سالانہ پروگرام میں ہوئی جہاں وہ اپنا عالمی ادبی ایوارڈ وصول کرنے کے لیے تشریف لائے تھے اُن سے مختلف موضوعات پر تفصیلی بات چیت رہی وہ بہت محبتی اور دھیمے مزاج کے کمٹڈ ادیب تھے اور عمر کے اس حصے میں بھی اُردو ادب کی ترویج و ترقی کے ساتھ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود رشتہ جوڑے ہوئے تھے۔
چند ماہ قبل وہ کسی کانفرنس کے سلسلے میں لاہور تشریف لائے تو عزیزی سونان اظہر کے گھر پر اُن سے آخری ملاقات ہوئی ۔ دعا ہے کہ رب کریم اُن کی روح پر اپنا کرم فرمائے کہ وہ ایک اچھے ، بھلے مانس اور اُس کے بندوں سے پیار کرنے والے انسان تھے اور رنگ و نسل ، مذہب اور عقیدے کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام انسانوں اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والوں میں سے تھے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ صرف عالمی رائے عامہ کا بھرپور اور مسلسل دباؤ ہی کشمیریوں کو اُن کا حق دلوانے کا بہترین اور موثر راستہ ہے ۔