جب حشر اٹھے گا تو انصاف کرو گے
بلند آہنگ ’’عاصمہ جہانگیر‘‘ کی کمی اعلیٰ عدلیہ کے ججز بھی محسوس کرنے لگے ہیں
عالمی سیاست پر امریکی اثرات، انسانی حقوق کی پامالی اور امریکی مفادات کے تحت ملکوں اور خطوں کو حالت جنگ میں رکھنے اور مختلف ممالک کی جغرافیائی تبدیلی ایسے اقدامات یا امریکی سازش کوکافی حد تک عالمی شہرت یافتہ دانشور نوم چومسکی دنیا کے سامنے لائے ہیں،گو میں ذاتی طور سے نوم چومسکی کے بہت سے تجزیوں سے متفق نہیں مگر اس کے باوجود نوم چومسکی نے جو دیکھا اور سمجھا وہ انھوں نے نہایت دیانتداری سے دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ تاریخ میں کردار بنانیوالے وہی اہل دانش سر خرو رہے ہیں۔
جنہوں نے اپنی رائے پرکوئی دباؤ نہیں آنے دیا اور یہ کام نوم چومسکی نے نہایت دلیری سے کیا۔ ارادہ تو تھا کہ نوم چومسکی کی Failed States کے تناظر میں آج کل ہمارے ارد گرد منڈ لاتے ، امریکی پینٹا گون کے ان فیصلوں اور احکامات کا ذکرکروں جن کا براہ راست شکار ہمارا وطن مارشل لا دور میں ہوا اور پھر سے ہو رہا ہے جس میں نوم چومسکی نے ایک نتیجے پر پہنچنے کی راہ فراہم کی ہے مگر اس سے زیادہ میرے وطن میں اہم معاملہ معاشی، سیاسی اور جمہوری انصاف کی فراہمی کا ہے جس میں بھوک، بیروزگاری، جمہوری آزادی اور بغیر دباؤ انصاف کی فراہمی ہے جو دن بدن کم ، بے وقعت اور حکمران طبقے کے لیے غیر اہم ہوتا جا رہا ہے جسکے نتیجے میں ناکام ریاست کا تصور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔
ہم قانونی اور صحافتی اقدارکی بنا عدالت میں چلنے والے مقدمات پر رائے یا تبصرہ اس وقت تک نہیں کرتے جب تک معزز عدالت وہ فیصلہ '' پبلک '' نہ کر دے ، یہ جہاں قانون کی بالادستی کی جانب اشارہ ہے وہیں صحافتی دیانتداری بھی اس کے ساتھ نتھی سمجھی جاتی ہے۔
لاہور اور پنجاب سمیت بجٹ پر عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے اور گیس و بجلی کے بلوں میں اضافے پر مختلف وکلا نے عدالتوں میں اپیل داخل کی اور حکومت کو عوام دشمن اقدامات لینے سے روکنے کی استدعا کی مگر ہنوز بیروزگاری، گیس اور بجلی سمیت اشیائے ضروریہ کی آسمان تک پہنچی قیمتوں پرکسی بھی معزز عدالت نے اب تک حکومت سے نہ پوچھا کہ عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ کیوں لادا جا رہا ہے، کیوں اس ملک میں زرعی زمینیں ریاستی قبضے میں لے کر ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگتا؟ احتساب اور کرپشن کے شورکو عمومی طور سے عوامی مسائل حل نہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، سو اب بھی وہی ہو رہا ہے۔
اب مدینے کی ریاست بنانیوالوں کی بد قسمتی ہی کہیں کہ ریاست مدینہ کے خواب سے پہلے ہمارے موجودہ حکمرانوں کو لانیوالے پہلے ہی عوام کو بہلاؤے کے مختلف لسانی اور مذہبی منجن بیچ چکے تھے، سو ہمارے سیاسی نووارد حکمران منہ پھاڑے ہکابکا سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھے جا رہے ہیں اور کرپشن ،کرپشن کا راگ الاپ رہے ہیں جس سے عوام پریشان اور عاجز ہیں مگر مجال کہ ''ریاست مدینہ '' کی داعی تبدیلی سرکار عوامی حوالے سے باخبر رہے؟ ریاست مدینہ کے جدید پاکستانی ''والی ریاست'' کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ ریاست مدینہ والا عدل و انصاف کا نظام نافذ کرینگے۔
تاکہ یہاں طاقتور بھی قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے مگر نتائج '' والئی مدینہ'' کی مرضی اور منشا کے بر عکس آ رہے ہیں، ہمارے ایک مبینہ ویڈیو اسکینڈلائزڈ جج کا نواز شریف کے بارے میں متنازعہ فیصلہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سپرد کر دیا مگر متعلقہ جج کے حوالے سے سپریم کورٹ فیصلے کے یہ ریمارکس تاریخ کا حصہ بن گئے کہ '' متعلقہ جج نے تمام ججزکا سر شرم سے جھکا دیا'' مگر جب '' والئی مدینہ'' کے ہر دلعزیز بابر اعوان کے نیب کیس سے بریت اسی جج نے دی تو ریاست کے اردلیوں کو کوئی شرم نہ آئی جب کہ سپریم کورٹ فیصلے میں اس متعلقہ جج کو عدلیہ کے لیے '' کلنک کا ٹیکہ '' قرار دیا مگر مجال جو بریت والے بابر اعوان عدلیہ اور انصاف کا سر بلند کرتے اور متعلقہ جج کے فیصلے کو ری ٹرائیل کرواتے مگر جناب اب چلن یہ ہے کہ جو فیصلہ ریاست مدینہ کے کسی بھی ہرکارے کے حق میں ہو وہ ''قانون کی بالادستی'' ہے وگرنہ عدالتوں کے دیگر فیصلوں پر ریاست مدینہ کا احتجاج اور اپیلیں ہی نظر آتی ہیں۔
اب ریاست مدینہ کے متولیوں کی ایسی خواہشات پر انصاف صرف لہو لہان نہ ہو تو کیا ہو؟ مگر اب بھی یہ سماج تمامتر ریاستی جبر اور ریاستی خواہشات کے مقابل جرأت اور استقامت کے ساتھ حق کی روشن خیال قوتوں کے طلوع ہونے کی امید پیہم لیے کھڑا ہے جس میں جرأتمند وکلا عابد حسن منٹو ، سینئر صحافی آئی اے رحمان ، حسین نقی، احمد علی کرد ، رشید اے رضوی اور حامد خان سمیت پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین امجد شاہ اور سپریم کورٹ بارکے صدر امان اللہ کنزانی متحرک ہیں اور چاہتے ہیں کہ انصاف کی راہ میں حائل مشکلات ختم ہوں تاکہ سماج میں عدلیہ ایک باوقار ادارے کے طور پر جانی جائے اور عوام انصاف کے حصول میں کسی شکوک کا شکار نہ ہوں جسکا عملی مظاہرہ پاکستان بار کونسل کے امجد شاہ اور سپریم کورٹ بار کے امان اللہ کنزانی نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ہونیوالے جج شیخ عظمت سعید کے فل کورٹ ریفرنس میں تقریرکرتے ہوئے کیا۔
امجد شاہ نے اعلیٰ عدلیہ کے جج اور چیف جسٹس کی موجودگی میں برملا عدلیہ کے زیر سماعت فیصلوں کے دوران اداروں کے دباؤ اور فیصلے کی میرٹ پر سوال اٹھایا کہ '' اعلیٰ عدلیہ ریاست کے اہم ستون کے طور پر، کیا خود کوکامیاب تصورکرتی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ملک کا اہم ستون پارلیمان آئینی طور پر اپنے فیصلے اور قوانین نہ بنا سکے؟ امجد شاہ نے ججز سے سوال کیا کہ کیا اعلیٰ عدلیہ یا پارلیمان خوف اور طاقت کے دباؤ میں منصفانہ اور آزادانہ فیصلے کر سکتی ہے؟ پاکستان بارکونسل کے امجد شاہ نے تمام ججز کی موجودگی میں زور دیکر یہ بات کہی کہ اعلیٰ عدلیہ ہی ہر ادارے کو اس کے دائرے میں رکھنے کی طاقت رکھتی ہے لہٰذا اعلیٰ عدلیہ کو غیر مستحکم حالات اور دباؤ کی صورت میں بھی اپنا آئینی اور سماجی فرض ہر کٹھن حالات میں ادا کرتے رہنا چاہیے جو بد قسمتی سے ملک میں نہیں۔
جس کا نقصان عدالتی نظام کو ہے ''امجد شاہ نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ''وکلا برادری سمیت اعلیٰ ججزکو اس عوامی بے اعتمادی کو ''بہتر اور جلد انصاف'' دینے کے عمل سے ہی دور کرنا ہو گا وگرنہ عدالتوں کے دباؤ میں کیے گئے فیصلے کسی بھی لمحے عوام کے احتجاج اور غصے کا سبب بن سکتے ہیں۔'' ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جنرل ضیا کے اسلام فوبیا اور جنرل مشرف کے روشن خیال مارشل لا میں حق سے محروم عوام کو سہارا ہوا کرتا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیم میں متحرک ''عاصمہ جہانگیر '' عوام کے دکھ درد عدالتی نا انصافی اور ریاستی ظلم کے مقابل عوام کی ڈھال بن کر آ جائے گی مگر ''عاصمہ جہانگیر'' کی ناگہانی موت سے نہ صرف تنظیم یتیم، بے سہارا اور مصلحتوں کا شکار سی لگنے لگی بلکہ اب تو وکلا برادری سمیت انصاف کے حصول میں بلند آہنگ ''عاصمہ جہانگیر'' کی کمی اعلیٰ عدلیہ کے ججز بھی محسوس کرنے لگے ہیں ۔
اسی لیے شاید مجبوراً سپریم کورٹ کے معزز جج قاضی فائز عیسی نے اپنے خلاف فیصلے میں انصاف کی اپیل خود ہی کر دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب بہادر ماں کی بیٹی اور تنظیم اپنے بانیوں کے نقش قدم نہ اپنا سکے اور ملک میں مسلسل انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش بیٹھی رہے تو پھر عاصمہ جہانگیر کے انسانی حقوق کی تحریک اور آوازکو اٹھانا بہادر جج کا ہی کام ہے، سو وہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کیا جس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کمیشن میں انسانی حقوق کے پیروکار ہدایات کے پابند کر دیے گئے ہیں کہ ''خبردار جو جمہوری دور میں عوام کے بولنے، سوچنے اور احتجاج کرنے کے حق کی پابندی کو عوام کے سامنے لائے'' ورنہ مالی وسائل تو پھر طاقت ہی کے پاس ہیں نا۔ سو بہتر مجرمانہ خاموشی ہے ۔