شش… سو رہی ہے ماں
اپنی ماں ہر کسی کو اچھی لگتی ہے اور بالخصوص جو دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کے بارے میں ہر کوئی اچھی بات کرتا ہے۔
لاہور:
فضائیں بین کر رہی تھیں، ہوائیں آگ اگل رہی تھیں، آسمان اداس، تپتی دھوپ تھی اور چھاؤں کا نام تھا نہ نشان ، ہماری ٹھنڈی چھاں ، ہماری ماںجو نہ رہی تھی۔ اللہ سوہنے نے ہمیں اپنی ماں کی فکر سے آزاد کر دیا تھا، ہم اڑھائی ماہ سے اپنے دن کاآغاز کرتے تھے تو ماں کے بارے میں سوچتے ہوئے اور رات کو بستر پر لیٹتے تھے تو اس فکر کے ساتھ کہ جانے اس کی صبح کیسی ہو گی۔
ہماری ماں کی تکلیف میں کچھ کمی ہو گی، اس کے بارے میں ہمیں کوئی اچھی بات سننے کو ملے گی کہ نہیں، کوئی دوا کارگر ہو گی یا کوئی دعا اثر پذیر۔ صبح ڈاکٹر ہمیں ان کی حالت کے بارے میں کوئی مثبت خبر دے گا یاہم مایوسی کی مزید گہرائی میں چلے جائیں گے، ماں رات کو سکون سے سو جائے گی یاتکلیف سے تڑپتے رات گزرے گی۔ اگلا دن چڑھتا اور جو سب سے پہلے اسپتال پہنچتا وہ باقیوں کو بتاتا کہ ان کی حالت کیسی تھی۔
کسی دن ہم اس بات پر خوش ہوجاتے کہ وہ آکسیجن کے بغیر سانس اپنی کوشش سے لے رہی تھیں ، کبھی آنکھ کھول کر دیکھ لیتیں ۔ کبھی آنکھ سے ہمیں دیکھ کر آنسو بہتا، کبھی ایک ہاتھ یا پاؤں کی انگلی جنبش کرتی، تو کسی دن یہ بات اطمینان بخش ہوتی کہ اس روز ان کا دوران خون پچھلے دن سے بہتر تھا۔ ان کی حالت بگڑتی جا رہی تھی، ڈاکٹر مسلسل کوششوں میں مصروف تھے مگر ان کی طرف سے کوئی امید افزاء بات سننے کو نہ ملتی۔ ان کا پیشہ انھیں اس بات کی اجازت نہ دیتا تھا کہ وہ ہمیں کوئی ایسی آس کا سرا پکڑاتے کہ جس کی بنیاد پر ہم امیدوں کے قلعے تعمیر کرتے اور وہ بعد ازاں مسمار ہوتے۔
پھر بھی ہم نے دعاؤں کے حصار میں انھیں رکھا ہوا تھا، جو کوئی کچھ پڑھنے کو کہتا وہ پڑھنا اور مزید زور شور سے دعا کرنا شروع کر دیتے، ہمارے اختیار کی حد اتنی ہی تھی۔ ہم سارے بہن بھائی مل کر بھی ان کے لیے اتنا نہیں تڑپے ہوں گے جتنا وہ ہماری تکلیف میں کبھی ایک رات بھی تڑپی ہوں گی۔ وہ ہمارا مرکز و محور، ہماراقبلہ و کعبہ، ہماری تسبیح کا امام، ہم سب کے ہاتھوں، ہماری نظروں کے سامنے چھوٹ رہا تھا اور ہم بے بسی کے سوا کچھ کر نہیں پارہے تھے۔
چوبیس اگست کی صبح، فجر کے وقت اسپتال سے آنے والی اس کال نے مجھے اس بچے کی طرح سہما دیا جیسا بھرے میلے میں اپنی ماں کی انگلی چھوٹ جانے والے بچے کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں نے اسپتال کال کر کے ان کے بہتر ہونے کی خبر سنی اور تیار ہو کر اسپتال کے راستے میں ملنے والے اس پیغام کو دیکھ کر برف سی سرد ہو گئی کہ اب ہمیں اسپتال پہنچنے کی جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ماں... میری پیاری ماں، ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ یااللہ... اگست کی اس تیز دھوپ والی سویر میں اتنی دھند کہاں سے آ گئی تھی؟
اپنی ماں ہر کسی کو اچھی لگتی ہے اور بالخصوص جو دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کے بارے میں ہر کوئی اچھی بات کرتا ہے مگر میں قسمیہ کہہ سکتی ہوں کہ میری ماں جیسی عظیم، خوب صورت، سنجیدہ، صابر، بردبار، متحمل مزاج، کم گو، مسکراتی ہوئی، سلیقہ شعار، مہمان نواز، ہرفن مولا، متین، معاملہ فہم، ملنسار، سادہ مزاج، باشعور، خوش اطوار، ، دکھ سکھ بانٹنے والی، دوسروںکی تکلیف میں تڑپ اٹھنے والی، بڑی سے بڑی بات کو مسکرا کر برداشت کرنیوالی، کسی بد ترین رویے والے شخص کی طرف سے بھی دل میں کینہ نہ رکھنے والی، فورا معاف کر دینے والی، بری بات کو جلد بھول جانیوالی اور اچھی بات کو عمر بھر یاد رکھنے والی، دوسروں کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار کوئی اور عورت نہیں ہو سکتی۔ میں نے ان سب خوبیوں کو یکجا ہو کر اگر کسی میں دیکھا تو اسے میں نے ماں کہہ کر پکارا اور اس بات پر مجھے مرتے دم تک فخر رہے گا کہ میں ان کی بیٹی ہوں ۔
انھوں نے کبھی انسان تو کیا زمین کو بھی تکلیف نہیں دی، اتنی نرمی سے زمین پر قدم رکھتیں کہ میں نے ان کی عمر کی خواتین کے منہ سے انھیں یہ کہتے ہوئے سنا ، '' تیز تیز چلا کریں، زمین نہیں دکھ جائے گی آپ کے تیز تیز چلنے سے!!'' وہ ایسی ہی دھیمے مزاج کی تھیں کہ انھیں سب سے مشکل کام کسی کو پکارنا لگتا تھا، اتنا دھیما بولتیں اور اتنے نرم لہجے میں کہ ان کے انتہائی قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کو ان کی آواز سنائی دیتی، فاصلے والوں کو ، قریب بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھنا پڑتاکہ وہ کیا کہہ رہی تھیں۔
میں نے انھیں ہوش سنبھالنے سے لے کر انھیں چیخ کر بولتے ہوئے، قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے، کسی سے ناراض ہوتے ہوئے، کسی سے حسد کرتے ہوئے اور کسی کا حق مارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جو کوئی ان سے دور ہوا ، وہ اس سے اور بھی قریب ہونے کی کوشش کرتیں ۔ انھیں لگتا کہ کوئی ان سے ناراض ہے تو ان کی غلطی ہو نہ ہو، وہ معافی مانگ لیتیں تا کہ کوئی ان سے ناراض نہ ہو۔ انھیں سکون ہی نہ ملتا جب تک وہ باقی آپس میں روٹھے ہوؤں کو بھی منا نہ لیتیں۔ میں نے ان کے بارے میں کسی کو منفی رائے رکھے ہوئے نہیں دیکھا، اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ ماسوائے ان کے اپنے حسد کے کچھ نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں جس معاملہ فہمی کی وہ مالک تھیں، وہ میںنے کسی اور میں نہیں دیکھی۔
جہاں کہیں دو فریقین میں دلائل ہو رہے ہوتے تھے، وہ کوشش کرتیں کہ ان میں مصالحت ہو جائے۔ جہاں کوئی بلند آواز میں بولتا اور انھیں حالات بگڑتے ہوئے نظر آتے تو وہ گھبرا جاتیں کہ بات بڑھ نہ جائے، سمجھاتیں اور کوشش کرتیں کہ فوراً ان میں صلح ہوجائے ۔ انھیں لگتا تھا کہ بندوں کو راضی رکھنا سب سے اہم ہے۔ ہم تو کسی کا نخرہ برداشت نہیں کرتے مگر ان میں خود کوئی نخرہ نہ تھا، نہ بات میں، نہ مزاج میں، نہ پہننے اوڑھنے میں۔
ایسی فرشتہ صفت شخصیت کہ کسی نے دل دکھایا بھی تو انھوں نے خود پر ہی جبر کیا۔ میں نے انھیں کبھی کسی سے براہ راست کچھ مانگتے ہوئے نہیں دیکھا، خواہ وہ کوئی مادی چیز ہو، کھانے پینے کی کوئی چیز یا محبت۔ وہ خود محبت کا ایسا ابلتا ہوا سر چشمہ تھیں کہ ان کی دی ہوئی محبت میں سے ہمارے جیسے کچھ فیصد بھی نہیں لوٹا پاتے تھے۔ ان کے اندر محبت کا سمندر موجزن تھا ، اتنا لٹا لٹا کر بھی جس کی حد ختم نہیں ہوتی۔
انھیں ہر رشتے میں توازن رکھنا آتا تھا، عمر بھر انھوں نے جو کچھ کمایا ہے وہ عزت ہے۔ رشتہ دار، احباب، ہمسائے، اعزاء اور قرابت داروں میں ان کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ انھیں اچھے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے صبر اور تحمل کی مثالیں دی جاتی ہیں ، ان کے سلوک اور برتاؤ کو بیٹیوں کے لیے قابل تقلید کہا جاتا ہے۔ چھوٹی سی عمر میں اپنی ماں سے محروم ہوئیں اور اس کے بعد کا کٹھن سفر انھوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک طے کیا۔ نو بہن بھائیوں، سسرال میں دس دیور، جیٹھ اور نندیں اور ہم آٹھ بہن بھائی... ہم سب کے شریک سفر، ان کے سمدھیانے، سب کے بچے اور ان کے بچوں کے بچے۔ اتنا بڑا خاندان مگر مجال ہے کہ ہمارے سمیت کبھی کوئی یہ کہہ سکے کہ انھوں نے کسی کے ساتھ کسی معاملے میں زیادتی کی، نا انصافی کی۔
مطالعہ کی انتہائی شوقین ، قرآن کے علاوہ، کتابیں ، رسالے، میگزین، اخبار جو کچھ بھی ملتا، پڑھ کر مطمئن ہوتیں۔ اسلام آباد آئی ہوتیں تو اتوار کی صبح ان کی طرف سے کال آتی کہ اخبار بھیجوں ، انھیں میرا کالم پڑھنا ہوتا تھا۔ میری تحریروں پر تبصرے کرتیں ، کوئی تحریر اچھی لگتیں تو اسے بارہا پڑھتیں اور ہر بار اس کے بارے میں رائے دیتیں۔ ہم سب بہن بھائیوں سے ملاقات کی تڑپ میں ہمہ وقت رہتیں اور ہم اپنی مصروفیات کے رونے روتے ۔ پھر ان کی بیماری نے ہمیں بتایا کہ ماں باپ سے اولین ترجیح والی کوئی مصروفیت نہیں ہوتی، جب وہ ہمیں بلاتی تھیں تو ہم اپنی مجبوریوں کی داستانیں لیے ہوتے اور جب وہ وقت آیا کہ ہمیں اپنی مصروفیات بھول گئیں اور ہم نے انھیں اپنے حصار میں لے لیا تو اس وقت وہ ہم سے بے خبر تھیں۔ انھیں علم نہ تھا کہ اب ان کی اولاد اپنی ساری مصروفیات کو پس پشت ڈال کر ان کے پاس ہے اور ان کی تکلیف پر تڑپ رہی ہے۔
کبھی وہ تھوڑا ہوش میں آئیں بھی تو کبھی کوئی ان کے پاس ہوتا تھا اور کبھی کوئی۔ اپنی ساری اولاد کو اکٹھا دیکھنے کے جو سپنے ایک ماں دیکھتی ہے، اس کی تعبیر انھوں نے نہیں دیکھی۔میرا چہرہ کفن کو کھول کھول کر ہرکوئی نہ دیکھے، میرے جانے کے بعد لوگوں کو تکلیف نہ دینا، زمین پر نہ بٹھانا، لمبی چوڑی رسومات میں پڑ کر لوگوں کو بار بار زحمت نہ دینا، با آواز نہ رونا۔ چوبیس اگست کی اس تاریک شام کو، ان کا جنازہ اٹھنے سے پہلے جب میرے گاؤں میں کوئی رشتہ دار عورت بین کی آواز بلند کرتی تو میں اسے تھپکتی اور کہتی، '' شش، ماں سو رہی ہے، اس طرح آواز سے رو کر انھیں ڈسٹرب نہ کریں ! ''
اللہ کرے کہ ہماری ماں جہاں بھی ہیں سکون میں ہوں، ہمارے لیے اب بھی دعائیں کر رہی ہوں، والد صاحب کے ساتھ ہوں جن سے پانچ سال پہلے بچھڑ کر وہ زندگی سے خوشی کشید کرنا بھی بھول گئی تھیں۔ اللہ تعالی اب ان کے لیے ہر طرح آسانیاں کرے، ان کی قبر کو ٹھنڈا اور کشادہ رکھے۔ ہم سارے بہن بھائی مل کر بھی اس قابل ہوجائیں کہ اپنے اندر ان جیسی چند خوبیاں پیدا کر سکیں ۔ آمین!