’’ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے ‘‘
پاکستان، بھارت اورباقی دنیاکے دیگرمصورّوں اوراُن کے کام کے بارے میں ہمارامبلغِ علم صرف چندناموں سے شناسائی تک محدودتھا
KARACHI:
یوں تو یہ تصور بہت پرانا ہے کہ تخلیقی فنکار اپنے اپنے میڈیم کے اعتبار سے تو مختلف ہوتے ہیں مگر یہ فرق ایک ہی ماں کے بچوں جیسا فرق ہے کہ اصل میں یہ ایک ہی ڈال کے پھولوں جیسے ہوتے ہیں، یعنی ایک ہی خیال کو کوئی لفظوں میں بیان کرتا ہے کوئی رنگوں اور لکیروں سے اُس کی شکل بناتا ہے اور کوئی سُروں میں ڈھال کر اُس کی بندش کرتا ہے۔ البتہ جہاں تک ان کی سطح اور معیار کا تعلق ہے اُس میں فرق اور ارتقا دونوں مسلسل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
اسی طرح کسی بھی فن کی تخلیق کے لیے اُس کی نوعیت ، بنیادی شرائط، تاریخ اور جمالیات سے آگاہی دیکھنے ، سننے یا پڑھنے والے کو وہ راستے دکھاتی ہے جو صرف اسی سے مخصوص ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ایسا نہ ہو تو سینما گھروں کی دیواروں پر آویزاں بڑے بڑے بِل بوڑد اور پوسٹر اور نیشنل آرٹ میوزیم میں رکھے ہوئے عظیم فن پارے ایک ہی جیسے لگنے لگ جاتے ہیں۔
مصورّ ہی کے بارے میں میری معلومات اور سفر کا آغاز کوئی ساٹھ برس قبل مبارک پینٹر کی اُن تصویروں اور سائن بورڈز کی معرفت ہوا جو میرے اُس وقت کے گھر واقع فلیمنگ روڈ لاہور کے نواح میں ریلوے روڈ کے اسلامیہ کالج سے متصل چوک کے چاروں طرف بڑی کثرت سے دکھائی دیتے تھے کہ اُن کا مصورّ یعنی مبارک پینٹر بھی وہیں کہیں کشمیر ہوٹل نامی ایک جگہ پر رہا کرتا تھا۔
کسی مصورّ سے باقاعدہ ملنے اور اُس کے فن کو دیکھنے ا ور سمجھنے کا موقع ایم اے کے زمانے میں برادرم اسلم کمال اور بشیر موجد سے تعارف پر ملا کہ اُس وقت یہ دونوں حضرات ادبی رسالوں اور کتابوں کے سرورق بنانے کی وجہ سے ملک گیر شہرت پانے کے عمل میں تھے، جب کہ کراچی میں یہی کام جمیل نقش مرحوم کر رہے تھے۔
پاکستان ، بھارت اور باقی دنیا کے دیگر مصورّوں اور اُن کے کام کے بارے میں ہمارا مبلغِ علم صرف چند ناموں سے شناسائی تک محدود تھا اور شائد یہ معاملہ یہیں تک رہتا اگر 1975 میں مجھے ڈیپوٹیشن پر پنجاب آرٹ کونسل کے شعبہ ادب اور ڈرامہ کا ڈپٹی ڈائریکٹر بننے کا موقع نہ ملتا، کہ یہاں میرے دفتر کے ساتھ برادرم معین نجمی مرحوم کا کمرہ تھا جو اُس وقت کے ایک مشہور فلم اسٹار اسلم پرویز مرحوم کے بھائی اور اپنے وقت کے ایک جانے ہوئے مصور تھے۔
عبدالرحمن چغتائی مرحوم سے تو میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی معرفت مل چکا تھا لیکن صادقین ، گُل جی، احمد پرویز، شمزا، خالد اقبال، غلام رسول ، شاکر علی ، حنیف رامے، اینا مولکا احمد، کولن ڈیوڈ ، میاں اعجاز الحسن ، اقبال مہدی، احمد علی اور اُس وقت کے دیگر بہت سے اہم اور بڑے مصورّوں سے تعارف فیض نجمی کی اسی ہمسائیگی کی بدولت حاصل ہوا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غلام مصطفی، جمی انجینئر، شاہنواز زیدی ، تنویر مرشد، جاوید اقبال کارٹونسٹ اور کچھ اور نامور مصور ابھی نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہو رہے تھے۔ جب کہ عزیزی ذوالفقار احمد زلفی کا تعلق ان سے بعد کی نسل سے ہے۔ ان احباب سے ملاقاتوں اور تبادلہ خیال کی وساطت سے نہ صرف رنگوں اور لکیروں کی اس دنیا سے تھوڑی بہت واقفیت ہوئی بلکہ غالبؔ کا یہ شعر بھی پہلی بار سمجھ میں آیا کہ:
نقش کو اُس کے مصورّ پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھینچتا جائے ہے
اس زمانے میں کچھ انفرادی اور اجتماعی نمائشوں میں بطور ناظر شمولیت کا موقع بھی ملا جن میں نمایاں ترین صادقین کے فن پاروں کی نمائش اور اقبال صدی کے حوالے سے منعقعد کی گئی قومی نمائش بھی شامل تھی۔ ملک سے باہر 1984میں پیرس کی عظیم اور شاندار آرٹ گیلری لُوور میں جسے عرفِ عام میں لُو بھی کہا جاتا ہے کچھ وقت گزازنے کا موقع ملا اور تب سے اب تک امریکا ، کینیڈا ، انگلینڈ ،ا ٹلی ، اسپین ، جرمنی اور بھارت سمیت بہت سے ملکوں کی آرٹ گیلریز میں دنیا کے بڑے بڑے قدیم ا ور جدید مصوروں کے فن پاروں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے جو بلاشبہ کسی سعادت سے کم نہیں۔
اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا ہے کہ اب گاہے گاہے وطن عزیز اور بالخصوص لاہور میں ہونے والی تصویری نمائشوں میں بھی جھانکنے کا موقع مل جاتا ہے۔ مگر مجھے یہ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ مصورّی کے فن سے اس انتہائی سرسری سے تعلق کی بنیاد پر مجھے کسی تصویری نمائش میں مہمان خصوصی بننے کے قابل بھی سمجھا جائے گا اور میں باقاعدہ فیتہ کاٹ کر اس کا افتتاح کروں گا۔ لیکن عزیزہ اِرم اشفاق کی محبت کا تقاضا تھا کہ ایسا ہو گیا۔ ایم ایم عالم روڈ کے نواح میں واقع ایک آرٹ گیلری میں اُس کی بنائی ہوئی تصویروں کے جھرمٹ میں ایک بار پھر کچھ وقت تخلیقی فنون کے درمیان موجود تہہ در تہہ رشتوں کے بارے میں سوچنے اور اہلِ فن سے گفتگو کرنے کے دوران علامہ اقبال کے اس شعر کا مفہوم سمجھنے میں گزرا کہ:
رنگ ہو یاخشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
اِرم اشفاق تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئر ہے مگر بقول اُس کے اُس کی شخصیت کا اصل اور سب سے بہتر اظہار رنگوں کی دنیا میں ہی ہوتا ہے۔ کوئی ایک برس قبل الحمرا آرٹ کونسل میں ایک تصویری نمائش کے دوران مجھے اُس کی کچھ پینٹنگز کو دیکھنے ا ور اُس سے ملنے کا موقع ملا اور میرا پہلا تاثر یہی تھا کہ اُس کے مشاہدے اور وژن کا اصل کمال کسی منظر کی جزئیات نگاری میں کھلتا ہے۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ عام طور پر قدرتی مناظر اور تاریخی نوعیت کی نسبتاً کم آباد عمارتوں کے مختلف گوشوں اور اس میں موجود دھوپ چھائوں کے کھیل اور اُن سے اپنے اندرونی اداسی کے اشتراک کو پینٹ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ اب جو میں نے اس کی بہت سی نئی اور پرانی تصویروں کو یکجا دیکھا ہے تو میرے اُس اولین تاثر کو مزید تقویت ملی ہے ، ایساکیوں ہے اور فنی اعتبار سے ان فن پاروں کو کس درجے میں رکھنا چاہیے؟
اس کا فیصلہ تو اس فنِ لطیف کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں میں تو بطور ناظر اور خود قلم کار ہونے کے ناتے سے اُس تخلیقی نوعیت کے تاثر کا ہی اظہار کر سکتا ہوں جو نام فنونِ لطیفہ کی ایک مشترک قدر ہے سو اس حوالے سے میں اِرم اشفاق کو اپنے مرحوم سینئر دوست اور عظیم مزاح نگار شفیق الرحمن کا وہی خراجِ تحسین پیش کروں گا جو انھوں نے میرے کسی ٹی وی ڈرامے کو دیکھ کر ایک یک سطری خط کی صورت میں اپنے علاقے کی مخصوص زبان میں کچھ اس طرح بھیجا تھا کہ
''دُولہا سائیں، خوش کیتا ای''