نندکشور وکرم اب انھیں ڈھونڈ …
ہمارے خطے کے بارے میں ان کی کتاب ’’بھولے بسرے مجاہدین‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہے۔
KARACHI:
نندکشور وکرم اردو دنیا کا ایک معروف نام۔ عمر 90 برس۔ پاکستانی پنجاب کی بستی کہوٹہ میں پیدا ہوئے۔ چند دنوں پہلے ہندوستان کی راج دھانی دلی میں اس جہان سے گزرے۔ وہ اردو کے ایک معروف کہانی کار، نقاد اور صحافی تھے۔ ان کے انتقال کی خبر ملتے ہی دلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایک تعزیتی نشست رکھی گئی۔دلی یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ان کے انتقال کو اردو ادب کا ایک بڑا خسارہ قرار دیا۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم کا کہنا تھا کہ وہ اردو ادب کے ایک عظیم کار گزار تھے۔ان کے ناول '' یادوں کے کھنڈر'' افسانوی مجموعے '' آوارہ گرد '' اور '' آدھا سچ '' کا ذکرکیا گیا اور ان کی ادبی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔ وہ برسوں ماہ نامہ '' آج کل '' کے مدیر رہے اور ''عالمی ادب'' کی تدوین کرتے رہے۔ عالمی ادب کے خاص نمبر اردو کے مختلف ادیبوں کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
نند کشور جی نے یوں توکئی تحقیقی کتابیں لکھیں لیکن ہمارے خطے کے بارے میں ان کی کتاب ''بھولے بسرے مجاہدین '' بہت اہمیت کی حامل ہے۔اس میں انھوں نے برصغیرکی تقسیم سے پہلے کے ان سر بہ کف مجاہدین کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے بیشتر خیبر پختو نخوا سے تعلق رکھتے تھے۔اس کتاب کا آغاز ہمارے مشہور سیاسی رہنما اور پشتو شاعر اجمل خٹک کے تذکرے سے ہوا ہے۔
وہ کامریڈ احسان الٰہی، میاں افتخار الدین، خان عبدالغفارخان ، شورش کاشمیری ، شہید اللہ بخش سومرو، مولانا ظفرعلی خاں، مولانا عبد الرحیم پوپلزئی، عبیداللہ سندھی، ڈاکٹر خان صاحب اور متعدد ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے اپنا عیش و آرام تج کر 1947سے پہلے کی جدوجہد آزادی میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ وہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کی زندگی کو اگر سامنے نہ لایا گیا تو رفتہ رفتہ یہ نام اور ان کی قربانیاں آنے والی نسلوں کے ذہن سے محو ہو جائیں گی۔
نند کشور وکرم ان لوگوں میں سے ہیں جو تحریک آزادی اور اردو ادب کے حوالے سے ایک اہم نام تھے۔ اپنے خاندانی پس منظرکے بارے میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ''ایک روایت کے مطابق جہلم کے راجہ پورس کے دت نامی اس سفیر سے تعلق رکھتے تھے جو سکندر اعظم کی واپسی کے دوران اس کے رہنمائی کے لیے اس کے ہمراہ گیا تھا اور جب سکندر کی موت واقع ہو گئی تو وہ اپنے ساتھیوں اور سپاہیوں کے ساتھ عرب دیش میں آباد ہو گیا۔
بعد ازاں آبادی میں اضافہ ہونے پر وہ وہاں کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بن گئے اور جب جنگ کربلا میں یزید کے خوف سے کوئی بھی حضرت حسینؓ کی مدد کے لیے نہیں آیا تو دت خاندان کا راہب ان کی مدد کے لیے میدان جنگ میں کود پڑا اور اس تاریخی جنگ میں اس نے اپنے ساتوں بیٹے سہس رائے، ہرجس رائے، پرو، شیر خان، رائے پن، رام سنگھ ، دھرو اور موروکو حضرت حسینؓ پر قربان کر دیا۔
علاوہ ازیں اس نے حضرت حسینؓ کے سر کو یزید سے حاصل کرنے میں مدد بہم پہنچائی۔ روایت ہے کہ حضرت حسینؓ کا ساتھ دینے کی وجہ سے جب کچھ لوگ مذکورہ راہب کے خلاف ہو گئے اور چونکہ وہ پہلے ہی اپنے بیٹوں کی جنگ میں ہلاکت کی وجہ سے رنجیدہ و پریشان تھا لہٰذا وہ اپنے اعزاء و اقارب کے ساتھ عرب دیش سے ہجرت کر کے ایران اور ترکستان کے راستے افغانستان چلا گیا۔ بعد میں وہ لوگ ہندوستان میں آکر بس گئے۔
یہ بھی روایت ہے کہ حضرت حسینؓ کے پیروکاروں نے ان کی قربانی کو فراموش نہیں کیا اور انھیں حسینی برادران (حسینی برہمن) کے نام سے موسوم کیا۔نیز یہ کہ پنجابی شاعر احمد کے جنگ نامہ کے صفحہ 75 اور 76 پر حسینی برہمنوں کی تعریف کرتے ہوئے شیعہ حضرات کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی ہر عبادت میں راہب کا نام لیں۔''
دوسرے متعدد ہندو ادیبوں اور شاعروں کی طرح نند کشور وکرم بھی مغربی پنجاب میں زندگی بسر کر رہے تھے لیکن تقسیم نے انھیں اپنی بنیادوں سے ہلا دیا۔ اس زمانے کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ ''فرقہ وارانہ فسادات تقسیم اور ہجرت نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ تقسیم سے پہلے مارچ 1947 میں راولپنڈی میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں بے شمار لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور عورتوں نے اپنی عصمت و عفت بچانے کے لیے کنوئوں میں چھلانگیں لگا کر اپنی جانیں قربان کریں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان لوگوں کا کیا قصور تھا؟ یہی نا کہ وہ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ہندو تھے، سکھ تھے، مسلمان نہیں تھے۔ اور پھر آزادی کے دوران میں نے مشرقی پنجاب میں بھی بے گناہ مسلمانوں کو جگہ جگہ قتل ہوتے دیکھا اور میں سوچتا کیا مسلمان ہونا گناہ ہے؟ اگست 1947کے آخری ہفتے میں میٹرک کا امتحان دینے میں دہرہ دون سے انبالہ آیا ہوا تھا اور جب میں واپس دہرہ دون جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ انبالہ ریلوے پلیٹ فارم پر بلوائی ڈھونڈ ڈھونڈ کر بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو تہہ تیغ کر رہے ہیں۔
اس وقت مذہبی جنون اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ کوئی انھیں بچانے والا بھی سامنے آنے کی جرات نہیں کر رہا تھا۔ برصغیر میں قتل عام کا ایسا تانڈو ناچ ہو رہا تھا۔ لوگ وحشی پن اور جنون کی انتہا تک پہنچ چکے تھے اور سبھی انسان کے بجائے ہندو، مسلمان اور سکھ بن کر رہ گئے تھے اور شاید اگر انسان باقی تھا تو اس میں اتنے جرات نہیں تھی کہ وہ کسی نہتے کو بلوائیوں کے ہاتھوں سے بچانے کی ہمت کر سکتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں اور میرا ساتھی ریل گاڑی میں امتحان سے فارغ ہوکر بذریعہ ریل انبالہ سے سہارنپور کی طرف جا رہے تھے توکچھ بلوائیوں نے ہمیں بھی مسلمان سمجھ کرگھیر لیا۔ کیونکہ میرے لمبے تڑنگے ساتھی نے جو صوبہ سرحد کے شہر بنوں کا رہنے والا تھا پٹھانوں کی طرح شلوار قمیص پہن رکھی تھی اور شکل و صورت سے بھی وہ ہندو دکھائی نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے اس کی شلوار تک اتارکر تسلی کی اور میں اپنے ہاتھ پرکھدے ''اوم'' کو دکھا کر انھیں اطمینان دلانے میں کامیاب ہوا۔ پھر جب ان کی تسلی ہوگئی تو وہ دیگر لوگوں میں سے مسلمان تلاش کرنے لگے۔
گزشتہ 60 برس سے نندکشور صحافت کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی وابستہ رہے انھوں نے انگریزی، ہندی، پنجابی میں متعدد مضامین لکھے اور لگ بھگ تیس کے قریب کتابیں ترجمہ کیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اردو میں زیادہ تر کتابیں میں نے خود ہی چھاپی ہیں کیونکہ اردو میں کتابوں کی اشاعت کے لیے ناشر آسانی سے نہیں ملتے اور جو ملتے ہیں وہ اکثر ادبا وشعرا کو معاوضے دینے کے بجائے کتاب کی اشاعت کے لیے رقم لے کر یہ ''خدمت '' انجام دیتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ناشرین کے دربار میں حاضر ہوکر کتاب کی اشاعت کے لیے گڑگڑاتا یا پھر انھیں اپنے پلے سے پیسے دے کر کتاب چھپواتا اور جہاں تک ہندی کا سوال ہے میری کتابیں دو تین ناشر چھاپتے ہیں اور اس کے لیے معاوضہ بھی دیتے ہیں۔ میں نے اپنا ناول ''یادوں کے کھنڈر'' 1954 کے قریب اردو میں لکھا تھا مگر اس کے لیے اردوکا کوئی ناشر نہیں ملا تھا۔ تاہم 1960 کے قریب اسے نویگ پر کاشن نے ہندی میں شائع کیا تھا اور پھر بیس سال بعد 1980ء میں میں نے خود اسے اردو میں شائع کیا۔
وہ ایک انسان دوست شخصیت تھے۔ پاکستان اور یہاں کے ادیبوں سے انھیں خصوصی الفت تھی۔ اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اپنی جنم بھومی اور ان شہروں کے لیے تڑپتے تھے جہاں ان کا بچپن گزرا تھا اور جہاں ان کے دوست رہتے تھے۔ زندگی کے بارے میں وہ جس قدر انسان پرست تھے، اس کا اندازہ ان کی آخری تحریر سے کیا جا سکتا ہے۔
جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ''میری دلی خواہش رہی ہے کہ میری موت کے بعد پنڈتوں اور پروہتوں کو بلا کر بے کارکی مذہبی رسمیں ادا نہ کی جائیں اور میرے جسد خاکی کو جلا کر ضایع کرنے کے بجائے اسے طبی مقاصد کے لیے بطور عطیہ دے دیا جائے تاکہ جسم کے کچھ اعضا جیسے آنکھیں، گردے، جگر اور جلد وغیرہ میری موت کے بعد فوراً نکال کر کسی ضرورت مند مریض کو شفایاب کرنے کے لیے بروئے کار لائے جا سکیں اور جسم کا جو بقیہ حصہ کسی کام کا نہ ہو اسے سماج جس طرح بہتر سمجھے، نذر آتش کرکے، نذر آب کرکے یا سپرد خاک کرکے ٹھکانے لگا دے۔ یہ اس کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ بقول آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر:
مردے کو دفن کیجیے یا پھینک دیجیے
مردہ بدست زندہ ہے جو چاہے کیجیے
وہ 90 برس کی عمر میں ہم سے رخصت ہوئے۔ ان ایسے جوہر تاباں اب نہیں آئیں گے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ:
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر