سب ممکن ہے
ماضی میں بھی اِس سے پہلے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ہماری ستر سالہ تاریخ ایسے معجزات سے بھری پڑی ہے۔
معجزوں اورکرامتوں سے بھر پور اِس ملک میں سب کچھ ممکن ہے، یہاں کب کیا ہو جائے اورکس طرح ہوجائے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ، یہی اِس ملک کی خصوصیت اور خاصیت ہے۔
انہونی ہونی اور ہونی انہونی ہوجائے یہی سب کچھ گزشتہ ستر سالوں سے یہاں ہوتا آیا ہے۔ ایک شخص جسے عوام الناس کی کوئی پذیرائی بھی حاصل نہ ہو وہ اچانک کروڑوںافراد کے اِس ملک میں حکمراں بن جاتا ہے اور بلا کسی روک ٹوک اور مخالفت کے دس دس سال مطلق العنانی کے جوہر دکھاتا ہے اور جسے عوام کی ایک کثیر تعداد دل وجان سے چاہتی ہو وہ اور جس نے کوئی بہت بڑا جرم بھی نہیں کیا ہو اُسے گھیرگھارکے اچانک چند ماہ میں نہ صرف اقتدارکی رفعتوں اور بلندیوں سے گھسیٹ کر زمین پر پھینک دیا جاتا ہے بلکہ اُسے دوبارہ برسراقتدار آنے سے روکنے کی خاطر جھوٹے سچے مقدمے بنا کر اور سزا یافتہ قرار دلوا کے دس دس سالوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔کبھی میموگیٹ اسکینڈل اور کبھی پانامہ اسکینڈل کا سہارا لے کرجمہوری حکمرانوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے دلوں کے پرخاش نکالنے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔
ماضی میں بھی اِس سے پہلے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ہماری ستر سالہ تاریخ ایسے معجزات سے بھری پڑی ہے۔ قوم ہرسال 14اگست کو اپنا یوم آزادی یہ سوچ کر مناتی رہی ہے کہ ہم نے انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرکے یقینا کوئی بہت بڑی خود مختاری اورنعمت حاصل کرلی ہے حالانکہ ہم یہ احساس سرخروئی اور احساس سرفرازی سے فیضیاب ہوکر جب کسی صبح اطمینان کی نیند سے جاگتے ہیں تو اپنا حکمراں کسی ایسے شخص کو پاتے ہیں۔
جس نے کبھی بھی پاکستانی بن کر ایک دن بھی یہاں نہیں گزارا ہو۔جسے 1993ء میں جب یہ ذمے داری سونپی جاتی ہے تو اُسکے پاس پاکستانی پاسپورٹ تو کجا قومی شناختی کارڈ بھی نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کوکس نے اِس ملک کا نگراں وزیراعظم بنایا۔کس نے اُس کا نام تجویزکیا۔یہ معمہ ہنوز ینحل ہے۔ کوئی تو ہوگا جس کے کانوں میں سرگوشی کرکے یہ نام ڈالا گیا اور جس نے قومی فریضہ سمجھ کر اِسے چند لمحوں میں قابل عمل بھی بنا دیا۔
ہمارے ملک کی تاریخ ایسے کارناموں سے بھری پڑی ہے جسے ہم پلٹ پلٹ کردیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ خواجہ ناظم الدین کے دور سے لے کر آج تک یہی ہوتا آیا ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا بس طریقہ واردات بدلتا رہتا ہے مگر اہداف نہیں بدلتے۔ جب کسی منتخب حکمراں کو ہٹانا منزل اور مقصود بن جائے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی۔
تحقیقاتی کمیشن اور جے آئی ٹی سمیت ہر آپشن ہمارے لیے ہر وقت کھلا اور تیار رہتا ہے۔ قوم سمجھ رہی تھی آئین کی اٹھارویں ترمیم نے غیر جمہوری طالع آزماؤں کے اقتدارمیں آنے کے تمام دروازے بندکردیے ہیں، لیکن اُسے کیا پتا تھا کہ اِس ملک کے اصل مقتدر حلقوں کے پاس ابھی اور بھی طریقے موجود ہیں۔ سیاستداں کچھ بھی کرلیں، ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیں لیکن طاقت اور اختیار میں اُن کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے۔ یہاں جس سول حکمراں نے حکم عدولی کی ، جس کسی نے سر اُٹھانے کی کوشش کی وہ پھر اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ پایا۔
مخالفین کی جانب سے کہا جاتا ہے میاں نواز شریف کو جنرل اقتدار میں لائے تھے۔ وہ بھی مارشل لاؤں کی پیداوار ہیں۔ اِسی طرح دیکھاجائے تو ذوالفقارعلی بھٹو بھی جنرل ایوب کے دور کا انتخاب تھے، جب اِس ملک میں دس دس سال تک غیر جمہوری لوگ برسراقتدار رہیںگے اور اپنی غیر آئینی حکومت کو قانونی بنانے کے راستے ڈھونڈیں گے تو بہت سے ماہر قانون اپنی وفاداریاں تو ضرور نبھائیںگے۔ بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے بہت سے لوگ اِن ادوار میںابھرکر سامنے آتے رہے ہیں۔
لیکن کسی کولیڈر بننے کا اعزاز عطا ہوتا رہا۔ ورنہ کئی رہنما پیدا تو ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ قدرومنزلت کی اُن رفعتوں کو چھو نہیں پاتے جو صرف چند لوگوں کا مقدر ہوا کرتی ہیں۔ میاں نواز شریف نے بھی اپنے ابتدائی دنوں میں یہی کچھ کیا تھا جو آج ہمارے اِس نئے پاکستان کے بانی عمران خان نیازی کر رہے ہیں۔ جنرل ضیا ء الحق کو اپنا رہبر و رہنما مان کر وہ اُس کی تدفین کے دن تک اُن کے ساتھ رہے اور اِسی طرح جنرل ضیاء بھی انھیں اپنا غیر حقیقی بیٹا جان کر اپنی باقی عمر بھی اُن کو لگ جانے کی تمنا کرتے رہے۔
جنرل ضیاء اور میاں نواز شریف کا ملاپ آج کے ملاپ سے بھی زیادہ مضبوط اور شدید تھا، لیکن بعد کے آنے والوں سے میاں صاحب کی کیمسٹری کبھی بھی میل نہیں کھاتی رہی۔ وقت اور حالات نے اُن کے اندرخود مختاری اور خود داری کے احساس جگانے شروع کر دیے اور وہ ووٹ کی طاقت کو عزت دلانے کے لیے مقتدر قوتوں سے سر ٹکرانے لگے۔
انھیں شاید معلوم نہ تھا کہ طاقت کے منبع اور اُس کی عظمتوں سے الجھنے کا نتیجہ صرف گھر پھونک تماشے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ آج کوٹ لکھپت میں قسمت کے بدل جانے کا انتظار کر رہے ہیں اور اُن کی بہادر اور عظیم بیٹی بھی اُن کا ساتھ نبھانے کے نتائج بھگت رہی ہیں۔ وہ جج کی ویڈیوعوام کے سامنے لاکر اِس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئی تھیں کہ اب اُن کے والد محترم کو جیل سے رہا ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔لیکن ہم سب نے دیکھا کہ اِس ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔ وہ جج جس کی ویڈیو منظر عام پر لائی گئی وہ تو غلط کار اور بے اعتبار قرار دے دیا گیا مگر اُس کے ہاتھوں سے لکھے گئے تمام فیصلے معتبر اور محترم قرار پائے۔اُس ویڈیوکا نہ کوئی فرانزک ٹیسٹ ہوتا ہے اور نہ کوئی تحقیقات ۔ ویڈیوکا محرک اور اُسے منظر عام پر لانے والا بھی لاتعلق اُس سے جڑے تمام فریق بھی لاپتہ ہوجاتے ہیں۔
معاملہ پاناما اسکینڈل کی سنگلاخ چٹانوں سے گذرتا ہوا جے آئی ٹی کی دس جلدوں پر مبنی ثبوت وشواہد کی روشنی میں دبئی کے اقامہ پر منتج ہوتا ہے اور تین بار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے شخص کو صادق اور امین ثابت نہ ہونے کے الزام میں بیک جنبش قلم فوری طور پر محروم اقتدار کر دیاجاتا ہے، لیکن پھر بھی دل کی تشفی نہیں ہوتی اور کئی پرانے کیسوں میں سزا دلوا کے عبرت کا نشان بھی بنا دیا جاتا ہے۔
ہم نے کسی غیر سویلین شخص کو عام عدالتوں کے چکر لگاتے نہیں دیکھا ۔ میاں نواز شریف کو 1999ء میں جب زبردستی معزول کیا گیا تھا تو انھیں ایسی ہی ایک عدالت سے چودہ سال قید بامشقت کا فرمان امروز بھی جاری ہوا تھا۔یہ تو اُن کی سعودی فرمانرواؤں سے دوستی کام کرگئی اور وہ ایک خفیہ معاہدے کے تحت دس سال کے لیے جلاوطن کردیے گئے ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ وہ پرویز مشرف کے دور کے آخری ایام تک اِسی طرح جیل میں سڑ رہے ہوتے۔آج بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں ۔
اُن کو سنائی گئی سات سال کی سزا میں سے ایک سال گذر چکا ہے ، اگرکوئی معجزہ نہ ہوا تو یہ سات سال اُن کی آخری سانسوں تک بڑھائے بھی جاسکتے ہیں۔ابھی بہت سے مقدمے پائپ لائن میں موجود ہیں۔انھوں نے عاجزی اور انکساری نہ دکھائی تو یہ مقدمے سماعت کے لیے منظور بھی ہوسکتے ہیں اور اُن پر فوری فیصلہ بھی آسکتا ہے۔یہی یہاں کا دستور ہے اور یہی نظام۔جس نے اِس نظام سے باہر نکلنے کی کوشش کی ،بغاوت اُس کاجرم سمجھا گیا اور وہ یونہی رسوا کار اورہزیمت خوردہ قرار پایا گیا۔