ہم آسمان پہ نظر رکھتے ہیں
اندرونی طور پر کیا مودی اپنے ملک کو واقعی فٹ کر رہے ہیں یا دنیا کی نظروں سے ریجکٹ۔
جس دن پاکستان میں کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لیے پوری قوم نے تیس اگست کو پوری دنیا کو بتا دیا کہ پاکستانی عوام کشمیری عوام کے لیے کس قدر مضطرب ہے اور ان کی حق آزادی کے لیے پوری قوت سے ایک ہوکر آگے بڑھنے اور بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہے، چاہے وہ اسکول ہوں یا کالج، یونیورسٹیز ہوں یا عام شاہراہیں اہل پاکستان متحد ہو کر اپنے جذبات سے پوری دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اب بھارت اس مسئلے کو کسی اندھی پٹاری میں چھپا کر نہیں رکھ سکتا، بات ہو رہی تھی تیس اگست کی تو جناب مودی جی نے انتیس اگست یعنی کشمیر ڈے سے ایک دن پہلے بھارت میں منایا، ''فٹ انڈیا''۔
اب یہ اس قدر فٹ رہنے کا خیال مودی جی کو آیا کیسے، خدا جانے۔ غالباً وزیر اعظم عمران خان کہ جن کے کرکٹ دور کے کارنامے اور مستعدی کے چرچوں کا تو ایک الگ ہی باب ہے مقابلے کا رجحان ضرور کہہ سکتے ہیں۔
شاید جوانی میں مودی جی نے کرکٹ کھیلی ہو یا نہیں پر اس عمر میں بیٹ پکڑنے کو پاکستانی وزیر اعظم سے مقابلے یا رجحان کا سوچ کر ہی اس سے چڑ ہو تو انھوں نے پہلے یوگا ڈے کے موقع پر خوب دکھاوا کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی جی یوگا بھی کرتے ہیں اور وہ عالمی یوگا ڈے اس قدر طویل ہوا کہ دو تین مہینوں تک محیط رہا اور اب کشمیر سے 370 اور 35A آرٹیکلز خارج کر دینے کے بعد ایک بار پھر وہ اپنی جذباتی عوام کو فٹ رہنے کا بھاشن دے رہے ہیں۔ یقینا ہر انسان کا فٹ رہنا صحت کے لیے ضروری ہے لیکن جس قدر ضروری کاموں کو نظر انداز کرکے وہ فٹ رہنے گویا عوام کو یہ سمجھاتے ہیں کہ میں آپ سے کس قدر قریب ہوں پرچار کرتے رہتے ہیں۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت مختلف روایات و اقدار کے حامل قبائل وگروپ ابھی تک برقرار ہیں انھی گروپوں میں اب یہ احساس شدت سے بڑھتا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت ان کو نظراندازکر رہی ہے۔ ذرا غور کریں تو بھارت جو پاکستان کی ضد میں کشمیرکو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر برقرار رکھنا چاہتا ہے خود اندر سے کس قدر شکستہ ہو رہا ہے۔
قدرت کی جانب سے مون سون کی بارشوں نے ایسا زور پکڑا ہے کہ جس سے بھارت پانی پانی ہو رہا ہے لیکن غیر ترقی یافتہ علاقوں میں جو پہلے ہی پانی اور سیلابی ریلوں سے تباہی کا شکار ہیں بے اعتنائی برت کر اپنی اہمیت ان علاقوں میں کھوتا جا رہا ہے جو پہلے ہی مرکزکی جانب سے ناخوش ہیں، ہماچل کے کئی علاقے بارش کی بربادی کے باعث رہائش کے قابل نہیں رہے صرف ایک ہماچل ہی نہیں بلکہ بھارت کی کئی ریاستوں میں گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن سرکار اس سلسلے میں غریب عوام کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔
کیرالہ ہو یا گجرات، مہاراشٹر ہو یا راجستھان، ملک کے 70 فیصد علاقے شدید بارش کی زد میں ہیں جس میں لاتعداد لوگ برساتی ریلوں میں غائب ہوگئے نجانے کتنی اموات ہوئیں جب کہ 190,000 لوگ اب ریلیف کیمپس میں رہ رہے ہیں یہ حال تو کیرالہ کا ہے جب کہ کرناٹکا میں 700,000 لوگ ریاست کو چھوڑ کر جا چکے ہیں یہ تو ایک مختصر سی داستان ہے لیکن کیا ان بدنصیب لوگوں کے درمیان فٹ انڈیا رہنے کا پرچار کرنے والے مودی نے جاکر ان سے ان کا حال پوچھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ صرف تعلیم یافتہ و اپر کلاس اور مذہبی جنونیوں کو اٹریکٹ کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارا گھر بار سب کچھ پانی میں بہہ گیا صرف یہ جسم پر پہنے کپڑے ہی بچے ہیں اور سرکار کی جانب سے ہمیں صرف یہ چونتیس سو کا چیک ملا ہے۔ ہماچل کے ایک مقامی فرد کا کہنا تھا جس کی شکل تبت کے مقامی افراد جیسی تھی صرف وہی نہیں بلکہ وہ سب متاثرین ایک دوسرے کے بہن بھائی دکھائی دیتے تھے دراصل یہ بھارت کے ہمالیہ کا شمالی علاقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دلائی لامہ نے اس علاقے میں قیام کیا تھا جو بدھ مت کے ماننے والوں کے بڑے مذہبی رہنما تھے۔ یہ علاقہ بدھ مذہب کے ماننے والوں کا ہے البتہ یہاں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی رہتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے، سرکار کی جانب سے یہ دکھاؤے کے چیک بہت ٹھونک بجا کر دیے گئے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی کسی بھی بینک میں کوئی اکاؤنٹ ہی نہ تھا تو پھر ان دکھاؤے کے چیکس کا کیا فائدہ؟
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کشمیرکی اہمیت برقرار رکھنے والے آرٹیکلز کے اخراج پر اپنے جذباتی بیان، تقاریر اور ٹوئیٹس تو دے رہے تھے پر بیرونی دنیا پر نظر رکھتے رکھتے انھیں نظر ہی نہ آیا کہ کشمیر کے ساتھ دوغلی پالیسی اختیار کرتے جس ہیجان خیزی، تشدد اور نفرت کو وہ اندرون بھارت میں پچیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف ابھار رہے ہیں اس کا اختتام آخر کیا ہو گا۔
بھارت پانچ ٹریلین کی اکانومی کو بڑھانے کا عزم رکھتا تھا اس کا جی ڈی پی بھی متاثر کن تھا۔ 2014ء کے بعد سے بھارت نے جس تیزی سے اپنا GDP بڑھایا تھا، اس میں اس نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا، لیکن پچھلے چھ مہینے میں یہ شرح 6 فیصد سے گر چکی تھی اور اب یہ 5 فیصد پر اٹکی ہوئی ہے بھارت دنیا بھر میں اپنے مسخ شدہ کمزور چہرے کو چھپا کر مختلف عوامی کمرشل خیالات کو زور و شور سے پھیلا رہے ہیں لیکن خالی خولی آوازوں میں اندر سناٹے سر سرا رہے ہیں، حالات یہاں تک آ پہنچے ہیں کہ ان کی فنانس منسٹر نرملا سترہامان یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ اب بھارت میں صرف دس سرکاری بینک ہی ہوں گے کیونکہ حکومت بھارت کے ذخائر بینک اب معاشی بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔
پانچ ٹریلین کا منصوبہ تو دور کی بات وہاں سرکاری ملازمین مہینوں سے تنخواہوں کے لیے واویلہ کر رہے ہیں لیکن میڈیا سرکار نواز پالیسیوں کے باعث جکڑی ہوئی ہے لیکن آخر کب تک یہ آکاس بیل پل سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے اندرونی اور عالمی فیکٹرز کے باعث GDP کی شرح میں کمی آئی ہے جس کی وجہ آٹو موبائل انڈسٹری کا بیٹھنا اور ملک میں رئیل اسٹیٹ بزنس کی کمی ہے۔
بھارت بڑھکیں تو مار رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فلاں کر دے گا، فلاں تہس نہس کر دے گا لیکن اندرونی طور پر کیا مودی اپنے ملک کو واقعی فٹ کر رہے ہیں یا دنیا کی نظروں سے ریجکٹ۔ جو اپنے لوگوں کو سسکتا بلکتا چھوڑ کر اپنی ضد، انا اور ہٹ دھرمی سے مظلوم لوگوں کا خون بہا کر ان کے حقوق غصب کر کے اپنی سیاست چمکانے کا دھرم رکھتے ہوں، ان سے ہر طرح کی توقع کر سکتے ہیں، بہرحال ہم تو صرف مثبت انداز میں دیکھتے ہیں کیا خبر کشمیر میں آزادی کا جھنڈا مودی جی کے ہاتھ سے لہرانا تحریر ہو۔