’’یوں نہیں یوں اور شہرِ بے مہر‘‘حصہ اول
ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کی بنا پر بہت سے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔
حال ہی میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کتاب ''یوں نہیں یوں، اور کچھ دیگر '' شایع ہوئی ہے الحمد للہ اسے پڑھنے اور اس پر بات کرنے کا موقع تقریب رونمائی کے دوران میسر آیا۔ اس بات سے اہل علم اچھی طرح واقف ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی علمیت اور قابلیت کے حوالے سے بے شمار خدمات ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریروں کی شکل میں قدم قدم پر علم و آگہی کے دیپ روشن کیے ہیں جن کی روشنی سے صاحبان علم و فن کی نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں میرے اس جملے میں مبالغہ آرائی ذرہ برابر بھی نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ سچ ہے جو سورج کی طرح روشن ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ 26 ویں کتاب ہے جس کی آج تقریب پذیرائی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر معین قریشی نے اخبار و جرائد میں بے شمار کالم اور فکاہیہ مضامین قلم بند کیے۔
پاکستان کے اہم ترین کالم نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ جامع کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں بحیثیت اعزازی پروفیسر کے خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ پی ٹی وی سے ڈرامہ سیریل ''کہتا ہوں سچ'' کے عنوان سے نشر ہوچکا ہے۔ انھوں نے بہترین کالم نویس کا APNS ایوارڈ اس وقت کے وزیر اعظم سے وصول کیا اس کے ساتھ ہی ان کے ادبی کیریئر کی بنا پر ''التعارف گروپ آف کمپنیز'' (دبئی) نے انھیں گولڈ میڈل اور نقد انعام پیش کیا۔
ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کی بنا پر بہت سے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ تو ہوا ڈاکٹر صاحب کا مختصر سا تعارف اب آتے ہیں سید ضمیر جعفری کے اس مضمون کی طرف جو کتاب میں شامل ہے ان کی تحریر سے ایک جملہ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ ''مسکراہٹ اگر اچھی زندگی کی علامت ہے تو یہ کتاب اچھی زندگی کی ضمانت ہے۔'' ایک جملہ اور سن لیجیے ''ان کا طنز گہرا مگر میٹھا ہے۔'' بے شک میٹھا تو ہے، کسی کی دل آزاری نہیں کرتے ہر کسی کا مان رکھتے ہیں اسی لیے اللہ نے ان کا مان رکھا ہے اور جیسی اچھی کوشش کی، ویسا ہی اچھا نتیجہ حاصل کیا۔
ان کی شخصیت اور قابلیت نے قارئین کے دل جیت لیے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی تحریروں کی گونج دور دور تک سنائی دیتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو میرپور آزاد کشمیر کے پروفیسر غازی علم الدین پیش لفظ لکھنے پر مجبور نہ ہوتے اور ڈاکٹر معین کی دانشوری فہم و ادراک اور ذہانت و فطانت کے قصیدے اپنی تحریر میں نہ پڑھتے۔
پروفیسر غازی علم الدین اپنے مضمون بعنوان ''یوں نہیں یوں'' میں لکھتے ہیں ایس ایم معین قریشی نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے کوئی دو سو ضرب المثل اور دلنشیں اشعار کا نقشہ درست کیا ہے یہ وہ اشعار ہیں، جنھیں ادیب، مصنف، کالم نگار اور شعرا کئی عشروں سے غلط پڑھتے اور لکھتے چلے آرہے ہیں ڈاکٹر صاحب نے میر سے لے کر فیض تک کے کوئی تیس پینتیس شعرا کے تصرف زدہ اشعار کی حقیقت واشگاف کی ہے، درست اشعار کا کھوج لگایا ہے ، مفصل اور ضروری حواشی اور حوالوں کا اہتمام کیا ہے، جناب ڈاکٹر داؤد عثمانی نے اپنے مضمون ''طنز و مزاح سے تحقیق و تنقید تک'' میں لکھا ہے کہ ''ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تحریر جسے موجودہ شکل میں لانے میں ڈاکٹر صاحب کے کئی سال لگے یہ ان کی خالص تحقیقی کاوش ہے اور جہاں تک حوالہ جات کا تعلق ہے ان کی تعداد تقریباً دو سو تک پہنچ چکی ہے، ڈاکٹر صاحب کی نگارشات بھی اپنے خاص اسلوب میں معاشرتی کمزوریوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کی اصلاح پسند طبیعت کی آئینہ دار ہیں۔'' دونوں اہم مبصرین کی آرا سے کتاب کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ کتاب 10 مضامین اور 222 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ ہر تحریر اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کثیر المطالعہ ہیں تحقیقی و تنقیدی بصیرت سے مالا مال، ایک محقق کی حیثیت سے انھوں نے ان شعرا کی طرف توجہ دلائی ہے جو غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اساتذہ کرام کی شاعری کا ستیا ناس کر دیتے ہیں اور ندامت کے احساس سے عاری ہوکر اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی حضرات اور تختہ مشق بننے والے اشعار کا نہ صرف یہ کہ تذکرہ کیا ہے بلکہ اصلاح بھی کی ہے اپنے ایک مضمون ''یوں نہیں یوں'' میں لکھتے ہیں کہ ''ایک سہ ماہی جریدے میں اردو کے ایک سینئر شاعر، ناول نگار پروفیسر صاحب نے ایک طویل مضمون سپرد قلم کیا جس میں انھوں نے میر سے لے کر فیض تک کے اشعار کو تلپٹ کردیا، میر صاحب کا ایک مشہور زمانہ شعر موصوف نے یوں لکھا ہے:
''مستند ہے میرا فرمایا ہوا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا''
پروفیسر صاحب نے نہ صرف شعر کے مصرعے اوپر نیچے کیے بلکہ دوسرا مصرعہ (جو دراصل پہلا تھا) غلط بھی لکھا، جو درست حالت میں یوں ہے:
سارے عالم میں ہوں' میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
میر کا ایک مشہور شعر عام طور پر یوں ادا کیا جاتا ہے:
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
شعر اپنی درست حالت میں یوں ہے:
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
ایک روزنامہ کے کالم نویس نے اپنے کالم کو ان الفاظ پر ختم کیا کہ مجھے عبید ابوذری مرحوم کا یہ شعر بہت یاد آرہا ہے:
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
ڈاکٹر معین نے دوسرے روز ہی ان کی اصلاح خط کے ذریعے کردی (وہاں طویل خاموشی رہی اور جو آج تک ہے) کہ یہ دلاور فگار کے قطعہ کا چوتھا مصرع ہے اور پورا قطعہ یوں ہے:
حاکم رشوت ستاں' فکر گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا
ایس ایم معین قریشی صاحب نے ایک اور شعر کی نشاندہی کی ہے یہ پاکستان کے دور دراز علاقے پہاڑ پور ڈیرہ غازی خان کے ایک غیر معروف شاعر غلام محمد قاصر کا ایک بہت معروف شعر ہے جسے نامور شاعر اور کالم نویس نے اپنے کالم میں اس طرح لکھا ہے:
کروں گا کیا' جو محبت بھی چھوڑ دی میں نے
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
یہ بات طے ہوچکی ہے مصنف بات سے بات کرنے اور بات کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈھالنے کے فن سے اس قدر واقف ہوچکے ہیں کہ انھیں ان کی اس تخلیقی اور تعمیری صلاحیت پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی جائے۔ اپنے مضمون بعنوان ''صاحب قلم و علم'' میں فرماتے ہیں عام خیال کے مطابق فوجیوں کا ادب سے اتنا ہی دور کا تعلق ہے جتنا سیاستدانوں کا اپنے حلقے کے عوام سے۔''
فوجی تو گولے کو اتنا عزیز رکھتے ہیں جتنا ہمارے سائیں قائم علی شاہ پیالے کو رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)