گوجرانوالا کا صلاح الدین
صلاح الدین ایوبی تو چل بسا مگر میدان جنگ کے طبل ابھی نہیں بجے تھے۔ ابھی کوئی صف نہ بن پائی تھی۔
نہ الزام لگا، نہ عدالت چلی۔ نہ جرم ثابت ہوا مگر سزا ہوگئی۔ کہنے کو تو ایک چوری تھی مگر موت اس کا مقدر بنی، موت ہی کیوں؟ اس کے جسم پر، ایک سانس لیتے ہوئے جسم پر اتنے زخم دیئے گئے کہ اس نے سانس لینا چھوڑ دیا۔
وہ جیسے جیسے اسے مارتے گئے وہ ڈٹ کے ان کو بُرا بھلا کہتا رہا اور یہ اس کی جرات تھی۔ وہ مجذوب تھا ، باپ نے اس کے بازو پر اس کا پتہ ''ٹیٹو'' کی شکل میں گدوایا ہوا تھا کہ لاپتہ ہونے پر اس کو گھر پہنچایا جائے۔ کون مجرم اپنے بازوپر پتہ لکھواتا ہے بھلا۔ صرف ایک شریف شہری یا معصوم ہی لکھوا سکتا ہے ۔ وہ ذہنی طور پر معذور تھا،گھر سے نکل جاتا تھا اور پھر کوئی نہ کوئی اسے گھر پہنچا دیتا ہوگا۔ وہ ایک غریب کے گھر کا چشم و چراغ تھا۔
ایسے ہی مجذوب تھے جو بہت بڑے کام کر گئے اور آج جو رحیم یار خان میں ایک مجذوب بینک کی ڈکیتی کے نام پر پکڑا گیا اس کا نام صلاح الدین ایوبی تھا ۔ وہ زمانے کا نہ تھا، دنیا کا نہ تھا۔ جو دو ویڈیو اس کے حوالے سے ملیں ہیں وہ بھی اس کی مجذوبیت کا ثبوت دیتی ہیں، وہ بے چارہ بے خودی میں وہاں پہنچا ہے اسے یہ سمجھ نہ آیا کہ یہ جگہ کیا ہے؟ یہ کیمرہ یہاں کیوں نصب ہے؟۔ یہ مشین کیا ہے ؟ یہ پیسے کیا ہوتے ہیں؟ اس منافق زمانے میں اسے بہت کچھ سیدھا اور سلیس نظر آتا تھا۔ اور پھر کیا ہوا منافقوں نے اسے مجرم سمجھا ، مجرموں نے اسے مجرم سمجھا۔ اور پھر اسی آئینہ میں اسے دیکھا گیا
یہ وہ آئینہ تھا جس میں ہم اپنے چہرے دیکھ سکتے تھے اور پھر ہم نے وہ آئینہ توڑ دیاکہ ہم اپنے چہرے نہیں دیکھنا چاہتے۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور پلک جھپکتے ہی ویڈیوز کے وائرل ہو جاتی ہیں۔ ایک ویڈیو فی گھنٹہ ایک لاکھ لوگوں تک سفر کرتی ہے ۔ اب سچ چھپ نہیں سکتا۔ جب ٹی وی کے ٹاک شوز میں ایک ہی طرز کا راگ الاپا جاتا ہے، ہم یوٹیوب پر اپنے چینلز کھول دیتے ہیں ۔ وہ چینلز اپنی ہی شکل بناتے ہیں۔ مگر صلاح الدین ایوبی نہ سرمد تھا نہ مخدوم بلاول وہ گوجرانوالا کا رہنے والا ایک عام سا انساں تھا ۔
اس نے اپنے منہ سے زبان نکالی، کیمرہ کو منہ چڑھایا اور یہ وڈیو لاکھوں لوگوں نے دیکھی۔ اس نے منہ چڑھا کر دنیا کو ٹھنیگا دکھایا۔ وہ ایک غریب کا تمانچہ تھااس اشرافیہ کے چہرے پر اور ہمارے بوسیدہ نظام پر، جہاں اسکول بند ہیں ، اسپتالیں زبوں حالی کا شکار ہیں ، پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ یرقان، ،ہیضہ اورطرح طرح کیا امراض کی لپیٹ میںہے یہ خلق خدا۔ نہ روزگار میسرہے نہ ہنرکے مواقع ۔ نہ قانوں کی پیروی ہے نہ انصاف میسر ہے ۔کچھ بھی نہیں فقط پولیس ہے۔ جو ایسی وائرل ویڈیو زپر، ان پر وار کرتی ہے جو غریب ہیں۔ شرفائوں کی ویڈیو ز بھی وائرل ہوتی ہیں مگر وہاںکچھ نہیں ہوتا۔ کچھ نہیں کیوںکہ ان ویڈیو کے صحیح ہونے کی تصدیق کرنا لازمی ہوتاہے۔ صلاح الدین ایوبی کی ویڈیو کی تصدیق کی ضرورت نہیں۔ اس پر عدالت چلانے کی بھی ضرورت نہیں ، نہ ہی پرچہ کاٹنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ وہ غریب کا بیٹاہے ۔ اس کے لیے یہ بھی تصدیق کروانے کی ضرورت نہیں کہ آیا وہ ذہنی توازن بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔
وہ اس کو مارتے گئے اور وہ انھیں برا بھلا کہتا گیا اور اس طرح مر بھی گیا ۔ فیضؔ کی اس نظم کے مانند۔
اس نے کہا آئو
اس نے کہا ٹھہرو
مسکائو کہا اس نے
مرجائو کہا اس نے
میں آیا
ٹھہرا
مسکایا
اور مر بھی گیا
صلاح الدین ایوبی تو چل بسا مگر میدان جنگ کے طبل ابھی نہیں بجے تھے۔ ابھی کوئی صف نہ بن پائی تھی۔ اور صلاح الدین ایوبی جو کے گوجرانوالا کی ایک بستی کا رہنے والا تھا زخموں کی تاب نہ لاتے مر بھی گیا۔ وہ مر بھی گیا اور ہم زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہیں۔ وہ جو زبان اس نے لبوں سے نکالی تھی وہ اس کی سزا تھی اور ہم نے اپنی زبانیں لبوں کے اندر دبا کے رکھیں ہیں اور انگلی ہونٹوں پریوں سجاکر رکھی ہے جس سے چپ ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
مشال ہو، ریحان ہو یا صلاح الدین ایوبی ہو، یہ آیندہ کی نسلوں کے تین ہیرو ہیں جن کی کوکھ سے نکلے گا ، انصاف بھرا پاکستان، اسکولوں والا، اسپتالوں والا،پینے کے لیے صاف پانی والا پاکستان ۔ بولنے والا پاکستان، سننے والا پاکستان۔ جہاں سپنے ہی سپنے ہوں گے ، کھلونے ہی کھلونے ہوں گے ، گلیاں ہوں گی ، کوچہ و بازاریں ہوں گی، صاف ستھرے میدان ہوںگے۔
یہ پنجاب کی پولیس ایکدم سے ایسی نہیں ہوئی ۔ جب ان کے سامنے سے پراڈو گزرتی ہیں تو یہ اسے سلامی بھرتے ہیں اور جب غریب کی گدھا گاڑی گزرتی ہے تو اس پر لاٹھیاں برساتے ہیں۔ کہاں لکھا ہے یہ سب کچھ آئین میں؟ آئین میں تو قانون امیر و غریب سب کے لیے یکساں ہے مگر حقیقتا ایسا نہیں۔
ابھی تک یہ اپنے آئین کے آرٹیکل 25 پر عمل پیرا نہیں۔ ابھی جمہوریت پک کر کندن نہیں بنی ، ابھی ادارے مضبوط نہیں ہوئے۔ اور ہم قرضوں تلے دبے ہوئے۔ یہاں صرف دعوے ہی دعوے ہیں۔ نہ جمہوریت اس ملک کو کچھ دے سکی نہ آمریت۔
کل اومنی گروپ نے پلی بارگین لے لی۔ یہ اومنی گروپ کون ہے؟ یہ زرداری صاحب کے اپنے ہیں۔ یہ پہلا مقدمہ ہے جس سے پردہ اٹھا ہے۔ ورنہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کرپشن کو ہمیشہ آمریت نے جمہوریت پر قفل چڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ مگر زرداری صاحب نے بتایا کہ جمہوریت ان کے ہاتھ میں بھی ایک باندی کی طرح ہے۔ وہ آمریت کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں اور یہ جمہوریت کے نام پر۔ ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ بھٹو کی یہ بستی اتنی غریب نہ ہوتی۔ اتنی بیروزگاریاں نہ ہوتیں، اس طرح اسکول بند نہ ہوتے ، اسپتال زبوں حال نہ ہوتے۔
اتنا تو شاید چارلس نیپیئر کے بعد انگریزوں نے بھی سندھ کو نہیں لوٹا ہو گا۔ جتنا پیپلزپارٹی کے زمانے میں سندھ کو لوٹا گیا۔ انگریزوں نے سکھر بیراج دی، یہ پہلی بیراج تھی جو دریا ئے سندھ پر تعمیر ہوئی۔ جس نے پوری سندھ کی کایا پلٹ دی۔ مگر جو ظلم چارلس نیپیئر اور انگریز نے ہم پے کیا وہ یہ تھا کہ یہاں وڈیرہ شاہی کو متعارف کروایا۔ اپنے گماشتہ اشرافیہ کو ۔ جو آج تک قائم ہے اور ان کی سب سے بڑی پارٹی آج سندھ پر جمہوریت کے نام پر راج کر تی ہے۔
کئی صلاح الدین ایوبی ہیں جو روز مارے جاتے ہیں ۔کبھی یرقان کے نام پر ، کبھی ایڈز کے نام پر ، کبھی ہیضہ اور کبھی کم غذا میسر ہونے والی ماں کسی صلاح الدین ایوبی کو پیدا کرنے سے پہلے ہی اپنے پیٹ میں مار بیٹھتی ہے ۔ کیونکہ اس ماں کو غذا میسرنہیں اول تو وہ بچے کو جنم نہیں دے پاتی اگر دے بھی دے تو وہ صلاح الدین ایوبی کی طرح ذہنی طور پر کمزور ہوتا ہے۔
تیرے ہونٹوں کی پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پے وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
جو نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
(فیض احمد فیضؔ)