پاکستانی صحافت اور اینکر پرسن
تیزرفتارمیڈیاکی اس دوڑمیں بعض اوقات یہ تخصیص کرنامشکل ہوتی ہے لیکن فی الحقیقت یہ سب کام ذمے داری کے اعتبارسے مختلف ہیں
پاکستان میں صحافت ایک ایسا کھلا میدان ہے جس میں ہر کوئی کود سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ:
"In journalism every fool can enter but few servive"
وقت کے ساتھ ساتھ جو لوگ اس شعبے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ ہی صحافی ، تجزیہ نگار، کالم نویس اور اینکرز شمار ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی صحافتی تاریخ کا جائزہ لیں تو 1947ء سے لے کر اب تک ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد نے صحافت کو پیشے کے طور پر اختیارکیا لیکن اگر حقیقی معنوں میں ''سکہ بند'' جرنلسٹوں کی فہرست بنائی جائے تو ان کی تعداد بمشکل چند درجن ہو گی۔
بین الاقوامی معاشرے کو قریب تر لانے میں اطلاعاتی نظام سب سے اہم ہے، اس اطلاعاتی نظام کے کار پرداز یا دماغ وہ افراد ہیں جو صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ یعنی صحافت آنے والے دنوں کی تاریخ کا پہلا رف مسودہ ہے۔ آج کی تحریر کل کی تاریخ ہو گی ا ور اس تحریر کی بنیاد پر ہی آنے والے مورخین تاریخ لکھیں گے۔ آج کا صحافی ا ور اینکر پرسن جو تحریر ،گفتگویا انٹرویو کر رہا ہے ان ہی کی بنیاد پر ہماری سیاست ، اقتصادیات اور معاشرت کا تجزیہ کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے آج کے جدید معاشرے میں قلم ، آواز ا ور تصویر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
سائینسی اور تکنیکی ترقی نے دنیا بھر کو گلوبل ویلیج بنا دیا ہے۔ اس گلوبل ویلیج میں ہونے والے واقعات اب کسی ایک معاشرے یا مملکت تک محدود نہیں بلکہ پلک جھپکتے میں خبر ایک جگہ سے سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقامی افراد اپنے قریب ہونے والے واقعات سے بعد میں با خبر نہیںہوتے ہیں لیکن دوسرے براعظموں میں آباد افراد کو اس خبر کی اطلاع پہلے ہو جاتی ہے۔ جو بھی سب سے پہلے ریڈیو ، ٹی وی یا انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر لے اسے وہ خبر سب سے پہلے مل جاتی ہے۔
صحافت کے شعبے سے منسلک افراد خواہ ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرانک میڈیا سے انھیں معاشرے کی جانب سے بڑی اہم ذمے داری سونپی گئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تیز رفتار میڈیا کی اس دوڑ میں بعض اوقات یہ تخصیص کرنا مشکل ہوتی ہے لیکن فی الحقیقت یہ سب کام ذمے داری کے اعتبار سے مختلف ہیں۔
رپورٹر کا کام خبر کا حصول اور حقائق کے پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے بر وقت رپورٹ تیار کرنا اور مقابلے کی اس فضا میں سب سے آگے رہنا ہے۔ نیوز کاسٹر یا نیوز ریڈر کا کام تیار شدہ خبروں کو سامعین اور ناظرین کے سامنے اس انداز میں پیش کرنا ہے کہ سننے اور دیکھنے والوں کی دلچسپی بھی قائم رہے اور انھیں معلومات بھی حاصل ہو جائے۔ نیوز کاسٹر کے لیے ایک ایسیMemorable look کا حامل ہونا بھی ضروری ہے کہ ناظرین اس کی آواز اور تصویر کو فوری طور پر ذہن نشین کر لیں اس کی آواز کا زیرو بم اور خبریں پڑھنے کا انداز بھی منفرد ہونا چاہیے۔
نیوز اینکر ایک ایسی اصطلاح ہے جو جدید ابلا غیاتی نظام میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ نیوز اینکر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نیوز شو یا تجزیاتی پروگرام پیش کرتا ہے ۔ براڈ کاسٹنگ اور ٹیلی ویژن کی ترقی خصوصاً نیوز چینلز کی آمد نے اینکر پرسنز کو منفرد مقام دے دیا ہے۔ اینکر پرسن کے بغیر نیوز اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کا تصور مشکل ہے۔ ٹاک شوز ہوں یا انٹر ویوز، سیمینار ہو یا کمنٹری کرنی ہو اینکر پرسن کے بغیر یہ کام پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔
اینکر پرسن مرد ہونا چاہیے یا عورت یہ بحث اب نہیں رہی ان دونوں میں سے جس کی Performance بہتر ہے وہی اینکر پرسن کامیاب ہو گا۔ اینکر پرسن ایک ایسا شخص ہوتا ہے جسے ناظرین ذاتی طور پر تو نہیں جانتے لیکن وہ اسے اپنے ہمسایوں اور بعض اوقات اپنے رشتہ داروں سے بھی زیادہ دیکھتے اور جانتے ہیں۔ اینکر پرسن ایک ایسی صحافتی صنف ہے جس کے بارے میں کچھ لوگ تعریف کر رہے ہوتے ہیں تو اسی وقت کچھ اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں ۔
اینکر پرسن کے لیے ضروری ہے کہ اس کا طرز تخاطب دوستانہ ہو، اس کے چہرے کا تاثر اور باڈی لینگویج موضوع کے اعتبار سے مطابقت رکھتی ہو۔ اینکر پرسن کو چیخ کر اور اونچی آواز میں بولنا زیب نہیں دیتا ہے۔ اس کی شخصیت علم و دانش کی غماز ہونی چاہیے۔ اینکر پرسن کو بعض اوقات الفاظ کی ادائیگی کی بجائے اپنے تاثرات اور اشاروں سے بات کو سمجھانا ہوتا ہے۔ یعنی وہ
''کچھ بھی نہ کہے اور کہہ بھی جائے اور کچھ کہتے کہتے رہ بھی جائے''
اینکر پرسن میں یہ صلاحیت ہونے چاہیے کہ وہ بیک وقت بولنے سننے اور دیکھنے کا کام سر انجام دے سکے۔ اکثر اوقات اینکر پرسن کو گفتگو کے دوران سامنے اسکرین یا Prompter پر لکھے ہوئے نکات کو بھی پڑھنا ہوتا ہے اور اسٹوڈیو سے ائیر فون کے ذریعے ہدایات اور رہنمائی بھی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ اس طرح اسے ہمہ وقت بولنے، سننے اور دیکھنے کی صلاحیت کو متحرک رکھنا ہوتا ہے۔ ان تین صلاحتیوں کو بیک وقت استعمال کرتے ہوئے اینکر پرسن کو اپنے چہرے اور تاثر سے یہ ظاہر نہیں ہونے دینا کہ اسے کہیں سے Spoon Feeding ہو رہی ہے۔ اینکر پرسن کے لیے پر اعتماد ہونا ضروری ہے۔
اینکر پرسن کے لیے ضروری ہے اسے ابلاغی صلاحیتوں کے فن پر عبور ہو۔ وہ الفاظ کی اہمیت ان کے انتخاب اور رپورٹنگ کی تیکنیک سے بھی واقف ہو۔ اسے الیکٹرونک میڈیا کی تیکنیکی ضروریات کا بھی پورا احساس ہو۔ اینکر پرسن کو ایکٹر کا کردارادا نہیں کرنا چاہیے۔ ایکٹر تو ڈرامائی انداز میں اپنا کردار ادا کرتا ہے جب کہ اینکر پرسن کو ڈرامے کی بجائے حقیقت کو سامنے رکھ کر اپنی ذمے داری ادا کرنا ہے۔
پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز میں ہمارے اینکر پرسن جس انداز میں اپنے پروگرام پیش کر رہے ہیں ان کا علمی اعتبار سے جائزہ بڑی دلچسپی کا حامل ہے۔ انھیں دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کتنے اینکر پرسن اپنا کردار صحیح انداز میں ادا کر رہے ہیں۔