جنگ کو دیکھنے کا جاپانی زاویہ
پونے تین سو صفحوں کی یہ کتاب ایسے نوجوانوں کی داستان غم سے بھری ہوئی ہے جو زندہ رہنا چاہتے تھے۔
ہماری حالیہ اور ماضی کی تاریخ میں کون سا وقت ایسا ہے جب طبل جنگ نہ بج رہا ہو۔ ہمارے شہید ، ہمارے غازی سب ہی کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے اور ان دنوں چونکہ ہمارے کار پردازوں نے طے کرلیا ہے کہ کشمیر فتح کر کے رہیں گے، اس لیے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات ہر جگہ جنگ کا چرچا ہے۔
ایسے میں 50ء کی دہائی یاد آئی جب دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے چند برس گزرے تھے اورکامی کازی کرنے والے نوجوان جاپانی ہوا بازوں کا ذکر ہر پڑھے لکھے کی زبان پر تھا۔ لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ وہ کون سا جذبہ ہے جو ان نوجوانوں کوحتمی موت کی طرف لے جاتا ہے جن کے ابھی کھانے کھیلنے کے دن تھے۔
والد کو دوسری جنگ عظیم کے واقعات سے بہت دلچسپی تھی،اسی لیے ان کے پاس ایسی کئی کتابیں تھیں جو ان جاپانی نوجوانوں کے بارے میں تفصیل بتاتی تھیں۔ ان دونوں میری عمر دس برس سے بھی کم تھی اس لیے میرا معاملہ سنی سنائی تک محدود تھا۔ ایٹم بم کا سانحہ گزرچکا تھا اور والد اور ان کے دوستوں کے درمیان ان معاملات پر زوردار بحثیں ہوتیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں ہما انورکی ترجمہ شدہ کتاب ''کامی کازی ڈائری۔ جاپانی خودکش طلبا فوجیوں کے تاثرات '' نظر سے گزری تو میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا۔ سہیل گویندی نے ترجمے کے ذریعے ترک ناولوں اورجاپانی کتابوں کو اردو میں پڑھنے والوں تک پہنچانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے انھیں داد دینی چاہیے۔
خود کش بمباروں یا خود کش حملہ آوروں کا تصورکچھ نیا نہیں، حسن بن صباح نے ایسے بہت سے سرفروش تیار کیے تھے جن سے خیالی جنت کا وعدہ کیا جاتا اور وہ اس جنت میں جانے کے لیے بڑے بڑے کام کر گزرتے۔ عبدالحلیم شررکا ناول 'فردوس بریں' اسی جنت کا قصہ ہے۔
نوجوان جاپانی فوجیوں کا معاملہ سب سے الگ تھا۔ انھیں شہنشاہ کے حکم پر قربان ہونے کی تعلیم دی جاتی، 'شہنشاہ' تمام جاپانیوں کا خدا تھا اور اس کے اشارے یا حکم پر جان دے دینا ایک معمول کی بات تھی۔ ان نوجوان جاں نثاروں کی ڈائریاں اور تاثرات 2006ء میں شائع ہوئے انھیں ایک جاپانی محقق Emiko Ohnuki-Tierney نے مرتب کیا۔ یہ خاتون اس سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھ چکی ہیں۔ ایمکو نے کئی ان نوجوانوں کی ڈائریاں اور خطوط اکٹھے کیے ہیں جو چند دنوں کے اندر اپنے شہنشاہ پر قربان ہوگئے۔ ان ہی میں ایک ہیباشی ہے۔ وہ نیول بیس سے اپنی ماں کو لکھتا ہے:
آپ کے خط کا شکریہ ۔ میں اسے بار بار پڑھ رہا ہوں ، اگرچہ میں نہیں جانتا کہ اپنے خیالات کا اظہار کیسے کروں ایسے موضوع پر جو (ماں کا اس کی شادی کے لیے اصرارکرنا) میرے لیے اس قدر بعید از خیال ہے۔ لیکن میں ماں کی سوچ کا احترام کرتا ہوں۔ میں آپ کے اس سال لکھے تین خط بار بار پڑھ رہا ہوں۔ تصویریں رکھنا ٹھیک ہے؟ مجھے آپ کی، بڑی بہن اور بڑی بہن ہیروکو کی بیٹیوں جنکو اور یوکوکی تصویریں دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ جن کو واقعی بڑی ہوگئی ہے۔کاش میں آپ سب سے مل سکتا۔
دشمن اوساکا پر مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ بڑی بہن ہیروکوکیسی ہے۔ جو اوساکا میں رہتی ہے Won-San میں خاصی گرمی ہے۔ میں چیری کے شگوفے کھلنے کا منتظر ہوں۔ کیا وہ Fukuoka میں پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ دشمن قریب آرہے ہیں، سو ہمیں محافظ ہونا پڑے گا۔
میں ساتھ میں چار ہزار ین کا منی آرڈر بھیج رہا ہوں۔ مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ برائے مہربانی ان (بھانجوں، بھانجیوں کے ناموں کی فہرست اس کے بعد درج ہے) کے لیے کچھ خرید لیجیے۔ میں کوریا سے کچھ نہیں بھیج سکتا۔
یہ خط ایک نظم کے اقتباس پر ختم ہوتا ہے جس میں رنج و غم کا اظہار ہے کہ کوئی پیچھے رہ جانے والے شخص کو نہیں بھول سکتا۔
ہیباشی نے اپنی ماں اور بڑی بہن کو اس روز خط لکھا جو اس کے خیال میں اس کی آخری پرواز سے گزشتہ دن کا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ Kakata پر پروازکرنا چاہتا تھا، جہاں اس وقت اس کی ماں مقیم تھی اور نیچے اپنے گھر پر نظر ڈالنا چاہتا تھا۔ اپنی ماں کو Okasauکہہ کر شروع میں مخاطب کرتا ہے جوکہ بڑوں کو مخاطب کرنے کا انداز ہے۔ تاہم خط کے درمیان وہ اس ادراک پر تکلیف کا اظہارکرتا ہے کہ اس کی موت قریب ہے۔ وہ تب ماں کو Kachanکہتا ہے جیسا کہ چھوٹے بچے ممی کہتے ہیں۔
''ماں کو بالآخر بے حد اداس و غمگین خط لکھنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ میرے خیالات اس نظم کی بازگشت ہیں۔ ''والدین کی سوچ ان کے بچوں کی سوچ سے گہری ہے۔ وہ آج کی خبریںکیسے لیتے ہیں۔'' میں واقعی بڑا خوش قسمت ہوں۔ میں نے وہ کچھ کیا جو میں چاہتا تھا۔ مجھے معاف کر دیجیے۔ یہ اس لیے کہ میں آپ کی مہربان محبت پر انحصار کر رہا تھا۔ میں تو کوتھائی پائلٹ کے طور پر جانے سے خوش ہوں۔ جب میں آپ کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں رونے لگتا ہوں۔جب میں سوچتا ہوں کہ ممی نے میری پرورش کے لیے کتنی محنت کی تو میرے لیے آپ کو یوں کسی ذہنی سکون یا خوشی کے بغیر پیچھے چھوڑکرجانا مشکل ہوجاتا ہے۔ میں ابھی بھی آپ سے لاڈ اٹھوانا چاہتا ہوں۔ آپ کے خطوط سے بڑھ کر ایسا کچھ نہیں ہے جو مجھے خوشی دے۔کاش میں آپ سے ایک مرتبہ پھر مل پاتا۔ میں آپ کی بانھوں میں سونا چاہتا ہوں۔ میں یہ خط اس وقت لکھ رہا ہوں جب پرسوں میری آخری پرواز ہے۔ اتفاق سے مجھے راستے میں Hakata سے پرواز کا موقع ملے گا۔
ممی، ممی... میں نے آپ کی نصیحت کے برخلاف کیا اور مجھے اس انجام کو پہنچنا پڑا۔کاش میں کہہ سکتا کہ میں اپنی خواہش کی تکمیل پر خوش ہوں، لیکن مجھے آپ کی نصیحت کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔
ماں،میں ایک مرد ہوں، جاپان میں پیدا ہونے والے تمام مردوں کا نصیب ملک کے لیے لڑتے ہوئے مرنا ہے۔آپ نے ایک قابل احترام آدمی بننے کے لیے میری پرورش کرکے شاندار کام کیا ہے۔ میں دشمن کے جہاز بردار بحری جہاز سے اپنا ہوائی جہاز ٹکرا کر شاندارکام کروں گا۔
میری آپ کے پاس واپس لوٹنے کی خواہش مجھے ستاتی ہے۔ لیکن یہ اچھا نہیں ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ بپتسمہ دینے کے وقت مجھے مرنے کا کہا گیا تھا؟... سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے اس دنیا میں موت اور زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔
ماں آپ وہ شخص ہیں جن کی نہایت عزت لازم ہے۔ میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ میں آپ کے معیار پر پورا نہ اتر پائوں گا۔ کل ہماری پروازکا دن ہے مجھے یکسو ہونے میں مشکل درپیش ہے، لیکن میں اپنے الفاظ ایک طرف رکھ کر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ سے لاڈ اٹھوانا چاہتا ہوں۔
میں اپنے قریبی دوست اور نیوی کامریڈ امینو کو بلانے والا ہوں اور ہم مل کر پروازکا راستہ طے کریں گے۔ میں Hakata اور Munakata پر پرواز کروں گا۔ جب مجھے دور سے نیشنل پارک میں چیری کے شگوفے دکھائی دیں گے، میں الوداع کہہ دوںگا۔
سب تک میرے بہترین جذبات پہنچائیے۔ میرے پاس انھیں خط لکھنے کا وقت نہیں۔ ہم سب دشمن کے بحری جہازوں پر غوطہ لگانے والے ہیں۔آخری مشن پر جانے والے کوتھائی پائلٹوں کے لباس میں سرکے گرد طلوع ہوتے سورج کا بینڈ اورگردن کے گرد سفید اسکارف شامل ہیں۔ وہ 47 وفا دار ملازموں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی آخری پرواز کے لیے میں اپنے بدن پر ابھرتے سورج والا وہ پرچم پہنوں گا، جس پر آپ نے لکھا تھا۔ '' ایک ہزار تمہارے دائیں جانب گر سکتے ہیں۔ دس ہزار تمہارے بائیں جانب...'' میں آپ کی تصویریں اپنے سینے کے ساتھ لگائے رکھوں گا۔ میں یقیناً دشمن کے ایک بحری جہازکو ڈبو دوں گا۔
جب آپ ریڈیو پر دشمن کے جہازکو ڈبونے کی کامیابی سنیں تو یاد رکھیں ان میں سے ایک جہاز پر میں نے غوطہ لگایا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر ذہنی طور پر اطمینان رہے گا کہ ماں مجھے دیکھ رہی ہے اور میرے لیے دعا کر رہی ہے۔'' پھر وہ بطور مزاح کہتا ہے۔یہ کسی خواب کی طرح ہے۔کل میں زندہ نہیں ہوں گا۔ کل جو پرواز پرگئے تھے کیا وہ سب مر گئے؟ میں اسے حقیقت کے طور پر محسوس نہیں کر پاتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اچانک لوٹ آئیں گے۔آپ بھی شاید میرے بارے میں اسی طرح محسوس کریں گی۔ لیکن پلیز یہ چھوڑ دیں۔ آخرکار ''مرنے والوں کو اپنے مردے دفنانے کے لیے چھوڑ دو۔'' (بائبل) ٹھیک؟... آپ رونا چاہیں تو ٹھیک ہے۔ پلیز رو لیجیے۔ لیکن پلیز اس قدر اداس نہ ہوں۔
میں آپ سے پہلے جا رہا ہوں۔ لیکن مجھے حیرت ہے، کیا مجھے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ماں پلیز میرے لیے دعا کیجیے۔ میں ایسی جگہ جانے کاخیال بھی برداشت نہیں کر پاتا جہاں میں بعد میں آپ سے نہ مل سکوں۔''
پونے تین سو صفحوں کی یہ کتاب ایسے نوجوانوں کی داستان غم سے بھری ہوئی ہے جو زندہ رہنا چاہتے تھے لیکن حب وطن کے نام پر انھیں قربان کردیا گیا۔