بچوں کی معصومیت روندتے درندے
زیادتی کا شکار بچوں میں ’’ڈپریشن‘‘،’’کھانے میں رغبت نہ ہونا‘‘،’’قوت ارادی میں کمی‘‘ اور جارحانہ رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔
جنسی زیادتی کا شکار بچے اور اس کے اہل خانہ ساری زندگی کرب کا شکار رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل
FAISALABAD:
گذشتہ دنوں انسانیت کا لبادہ اوڑھے سفاک درندے لاہور کے علاقے سکھ نہر کی پانچ سالہ پھول جیسی معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد شدید زخمی حالت میں گنگا رام اسپتال کے باہر پھینک کر فرار ہوگئے۔ اس دل خراش واقعے نے ہر نرم دل شخص کو افسردہ کردیا۔
جنسی زیادتی کا شکار بچے اور اس کے اہل خانہ ساری زندگی کرب کا شکار رہتے ہیں۔ ایک دہائی قبل تک پاکستانی معاشرے میں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات کی شرح بہت کم تھی، لیکن اس شرح میں ہر گزرتے سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سال 2012 میں بچوں پر جنسی تشدد میں گذشتہ سال کی نسبت21 فی صد اضافہ ہوا۔ 2010اور2011 میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے بالترتیب 2255اور2303 واقعات کی رپورٹ درج ہوئی، جب کہ گذشتہ پانچ سالوں میں مجموعی طور پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 13ہزار سے زاید واقعات رپورٹ کیے گئے۔ 2012میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے ستائیس سو اٹھاسی واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی، جن میں 799لڑکے اور1989لڑکیاں شامل تھی، ان میں سے تقریباً چھے فی صد بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔
جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد ان اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ زیادہ تر کیسز میں والدین بدنامی کے خوف سے رپورٹ درج نہیں کراتے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم کے مطابق 2012میں 5689 افراد نے 2788بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور ان میں سے 47 فی صد متاثرہ بچوں کے جاننے والے، 38 فی صد اجنبی اور 7فی صد قریبی عزیز تھے۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 11سے 15سال کی عمر کے بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی شرح سب سے زیادہ 22فی صد رہی، جب کہ 6سے 10سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں میں 15فیصد ،16سے 18سال کی عمر کے بچوں میں 12فی صد اور 1سے 5سال کی عمر کے6 فی صد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ 43 فی صد واقعات میں بچوں کی عمر ظاہر نہیں کی گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق 23 فی صد بچوں کو شناسا افراد نے اپنے گھر پر اور20 فی صد بچوں کو ان کے اپنے گھروں پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تیسرے نمبر پر بچوں کے لیے سب سے غیر محفوظ جگہ اسکول رہی 2012 میں اسکولوں میں بچوں کو ہوس کا نشانہ بنائے جانے کے ساٹھ واقعات درج ہوئے جب کہ بقیہ بچوں کو جیلوں ، چھوٹے ہوٹلوں، بس اڈوں، فٹ پاتھوں، کھیتوں، میکینک کی دکانوں اور کام کی جگہ پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے 52 فی صد واقعات دیہی علاقوں اور 48 فی صد واقعات شہری علاقوں میں ہوئے۔ صوبائی سطح پر پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات درج ہوئے، 2012 میں اس نوعیت کے ہونے والے واقعات میں سے پنجاب میں68 فی صد، سندھ میں19فی صد، خیبر پختونخواہ میں5 فی صد اور گلگت بلتستان میں0.4 فی صد کیسز رونما ہوئے۔
اگر بچوں کے ساتھ زیادتی کو بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو اس جرم کی شرح براعظم افریقا خصوصاً جنوبی افریقا میں سب سے زیادہ ہے جب کہ امریکا اور ایشیا میں بچوں سے زیادتی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 30 فی صد واقعات میں متاثرہ بچے کے باپ، بھائی اور دیگر قریبی رشتے دار ملوث ہوتے ہیں۔ ''امریکن سائیکاٹرک ایسوسی ایشن'' کے مطابق بچوں کو کسی بھی حال میں بالغوں کے ساتھ جنسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہونے دینا چاہیے اور کسی فرد کا بچے کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا ایسا غیراخلاقی اور مجرمانہ فعل ہے جو کسی بھی طرح نارمل اور سماجی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
٭خواتین اور بچوں سے جنسی زیادتی کے پیچھے کارفرما عوامل
آخر وہ کیا محرکات یا جذبات ہوتے ہیں جن سے مغلوب ہو کر انسان خواتین یا بچوں کے ساتھ جنسی تشدد جیسی شرم ناک حرکت کر بیٹھتا ہے؟، اس بارے میں امریکی ماہر نفسیات اور کتاب "Men Who Rape: The Psychology of the Offender, "کے مصنف ڈاکٹر A. Nicholas Groth نے جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو نفسیاتی طور پر تین حصوں ''اینگر ریپ''، ''پاور ریپ''،''سیڈسٹک ریپ'' میں تقسیم کیا ہے۔ ڈاکٹر نکولس کا کہنا ہے کہ زیادتی کی ان تینوں اقسام میں ملزمان اپنے شکار کو جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ مارپیٹ اور بدترین جسمانی تشدد سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں، جب کہ دہلی میں چلتی بس میں لڑکی کے ساتھ ہونے والی زیادتی ''سیڈسٹک ریپ'' کی ایک واضح مثال ہے۔
٭بچوں پر جنسی تشدد سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات
جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والوں بچوں میں ''ڈپریشن''،''اینگزائٹی''، 'کھانے میں رغبت نہ ہونا''،''قوت ارادی میں کمی'' اور جارحانہ رویہ پیدا ہو جاتا ہے۔
٭انفرادی عوامل
جنسی زیادتی میں انفرادی عمل کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ انفرادی طور پر ہونے والے جنسی تشدد کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والے ان افراد کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جنہیں وہ پہلے سے ہی اچھی طرح جانتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے انفرادی عوامل میں بھی کچھ محرکات کار فرما ہوتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
٭شراب نوشی یا منشیات کا استعمال
منشیات کے زیراثر کوئی فرد یہ گھنائونا فعل کرجاتا ہے، کیوں کہ منشیات خصوصاً ''شراب'' اور ''کوکین'' انسان پر ''psychopharmacological'' (جذبات پر اثر انداز ہونے والی ادویات) اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتے ہیں۔
شراب اور تشدد کے مابین تعلق پر ہونے والی تحقیق سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ الکحل اور تشدد کے درمیان بایولوجیکل لنک (حیاتیاتی تعلق) ہے۔ منشیات کا استعمال کرنے والے سماجی طور پر تنہا ہوجاتے ہیں اور منشیات کے عادی افراد کی جانب سے تشدد کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے کسی طرز عمل کے لیے جواب دہ نہیں ہیں۔
٭نفسیاتی عوامل
نفسیاتی دبائو کے تحت جنسی تشدد کرنے والے شخص کے خیال میں زیادتی کا ذمہ دار متاثرہ فرد ہو تا ہے اور اسے زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے یا خاتون پر اس واقعے کے بعد مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ایسے زیادہ تر مردوں کے رجحانات غیرسماجی ہوتے ہیں اور ان میں مردانگی کا احساس کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے، جب کہ بے راہ روی کے شکار مردوں میں بھی جنسی تشدد کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔
٭خاندانی عوامل
جنسی تشدد خصوصاً بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات میں اس بات کے شواہد نہیں ملے ہیں کہ اس درندگی میں ملوث افراد نے یہ طرز عمل اپنے بڑوں سے سیکھا ہے۔ تاہم جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے لڑکوں پر حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ہر پانچ میں سے ایک لڑکے نے آگے جا کر بچوں سے زیادتی کی۔
بچپن میں جذباتی رویے رکھنے والے اور خانگی تشدد کا شکار بچے بھی بڑے ہو کر جنسی زیادتی جیسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور خصوصاً ایسے گھر جہاں عورتوں کو مردوں سے کم تر سمجھا جائے، وہاں پرورش پانے والے بچوں کا مزاج زیادہ جارحانہ ہوجاتا ہے اور ان میں خواتین پر جنسی جبر اور زیادتی کے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں۔
کچھ معاشروں میں خاندان کی ''عزت'' بچانے کے لیے مرد کے بجائے جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جب کہ ایسے تقریباً ساٹھ فی صد واقعات میں متاثرہ خاتون کو عزت کے نام پر باپ بھائیوں کی جانب سے قتل کردیا جاتا ہے، جب کہ کچھ خاندان بدنامی کے خوف سے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی رپورٹ درج نہیں کراتے اور یہی بات ملزمان کو ایسے مزید جرائم کرنے پر اکساتی ہے۔
٭غربت اور سماجی عوامل
غربت اور سماجی عوامل بھی بچوں اور خواتین میں تشدد کی بڑھتی ہوئی شرح میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم غربت کا تعلق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے اور بنانے والے دونوں سے ہے۔ کئی محققین کے مطابق زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں اور خواتین میں غربت زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے، جب کہ پس ماندہ علاقوں میں ''گینگ ریپ'' کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔
٭قانون اور پالیسیاں
خواتین اور بچوں پر تشدد کے خلاف مختلف ممالک کے قوانین اور پالیسیاں مختلف ہیں۔ کچھ ممالک میں قانونی طریقۂ کار بہت زیادہ پیچیدہ اور طویل ہے۔ 2002 میں پنچایت کے فیصلے پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی کے ملزمان کی عدم شواہد پر رہائی، پاکستانی قانون میں موجود خامیوں کی روشن مثال ہے۔ پاکستان میں جنسی جبر و زیادتی کا شکار خواتین اور بچوں کو فوری انصاف کی فراہمی کے لیے مزید سخت پالیسیوں اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔
٭عالمی رجحانات اور معاشی عوامل
معاشی عدم استحکام، بے روزگاری اور فری ٹریڈ کے بڑھتے ہوئے عالمی رجحان کی وجہ سے بچوں، خواتین اور لڑکیوں کو ایک جنس کے طور پر جنسی مقاصد میں استعمال کرنے کی شرح بھی بڑھ رہی ہے، جب کہ بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے دنیا کے بیش تر ممالک میں لڑکیوں اور بچوں کی خرید و فروخت میں دن بہ اضافہ ہورہا ہے، جنہیں غیرممالک میں کام دلانے کا جھانسا دے کر ''سیکس ورکر'' کے طور پر کا م لیا جاتا ہے۔
٭قدرتی آفات اور انفرا اسٹرکچر کی عدم دست یابی
قدرتی آفات جہاں ایک طرف کئی قیمتی انسانوں جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہیں تو دوسری طرف زندہ بچ جانے والی خواتین، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی جبر و زیادتی کی شرح میں کافی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2010میں ہیٹی میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 14فی صد خاندانوں کے کم از کم ایک فرد کو پناہ گزین کیمپ میں جنسی جبر کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ 70فیصد گھرانے جنسی تشدد کا نشانہ بننے خوف میں مبتلا تھے۔
بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے والدین کو چاہیے کہ ان کے معمولات پر کڑی نظر رکھیں انہیں قریبی رشتے داروں، پڑوسیوں سے ایک حد میں رہنے کا کہیں۔
جاوید اقبال: ایک سفاک کردار
دسمبر 1999میں لاہور کے محکمۂ پولیس اور مقامی اخبار کو ایک خط موصول ہوا، خط میں لکھے مندرجات نے پولیس اور صحافیوں کو سکتے میں مبتلا کردیا۔ خط میں جاوید اقبال مغل نامی ایک شخص نے سو کم سن بچوں کو زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ جاوید اقبال کی درندگی کا نشانہ بننے والے تمام بچوں کی عمریں 6سے 16 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے زیادہ تر بچے گھر سے بھاگے ہوئے اور لاہور کی سڑکوں پر رہنے والے تھے۔ جاوید اقبال معصوم بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کر نے کے بعد انہیں تیزاب میں گلا کر دریائے راوی میں بہا دیتا تھا۔ جب پولیس اور اخباری نمائندے جاوید اقبال کے گھر پہنچے تو وہاں انہیں دیواروں اور فرش پر خون کے دھبے اور وہ زنجیر بھی ملی جسے جاوید اقبال بچوں کا گلا گھوٹنے میں استعمال کرتا تھا، جب کہ ایک پلاسٹک کے تھیلے میں کئی متاثرہ بچوں کی تصاویر بھی موجود تھی۔ ان تمام چیزوں پر ہاتھ سے لکھے گئے صاف ستھرے پمفلٹ چسپاں تھے۔ پولیس کو جائے وقوعہ سے تیزاب کے دو ڈرم بھی ملے جن میں دو بچوں کی باقیات موجود تھیں، جب کہ ان پر ایک تحریر لکھی ہوئی تھی،''ان لاشوں کو جان بوجھ کر تلف نہیں کیا گیا ہے تا کہ حکام انہیں دیکھ سکیں۔''
جاوید اقبال نے اپنے خط میں راوی دریا میں کود کر خود کشی کرنے کی کوشش کا اعتراف بھی کیا تھا۔ پولیس کو اس کے گھر سے ایک ڈائری بھی ملی تھی جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کی تفصیلات لکھی ہوئی تھی، جب کہ متاثرہ بچوں کے کپڑوں اور چپلوں سے بھرے تھیلے بھی برآمد ہوئے تھے۔ پولیس نے جرم میں معاونت کرنے پر جاوید اقبال کے ساتھ رہنے والے تین افراد کو گرفتار کرلیا تھا، جن میں سے جاوید اقبال کو تیزاب سپلائی کرنے والے ملزم اسحاق بلا نے دوران تفتیش مبینہ طور پر کھڑکی سے کود کر خودکشی کرلی تھی، جب کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے زبردستی پھینکا گیا تھا، جب کہ بقیہ دو ملزمان نے اپنے اعترافی بیان میں شریک جرم ہونے اور کچھ بچوں کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کیا تھا۔تیس دسمبر 1999کو جاوید اقبال نے ایک اردو اخبار کے دفتر میں پہنچ کر کہا،''میں جاوید اقبال ہوں، سو بچوں کا قاتل، مجھے نفرت ہے اس دنیا سے، مجھے اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اور میں مرنے کے لیے تیار ہوں، مجھے سو بچوں کو قتل کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔''
پولیس کو دیے گئے اعترافی بیان میں جاوید اقبال نے اپنے اس اقدام کو ماضی میں پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کو قرار دیا تھا۔ لاہور کی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران جج اﷲ بخش رانجھا نے ملکی تاریخ کے سفاک ترین قاتل پر فرد جرم عاید کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو اسی طرح سزا دی جائے جس طرح انہوں نے معصوم بچوں کو قتل کیا۔جج نے اپنے فیصلے میں کہا،''تمہیں متاثرہ بچوں کے والدین کے سامنے پھانسی دی جائے گی اور اس کے بعد تمہاری لاش کے سو ٹکڑے کر کے انہیں اسی طرح تیزاب میں گلایا جائے گا، جس طرح تم نے بچوں کی لاشوں کو گلا یا تھا۔'' تاہم اس وقت کے وفاقی وزیرداخلہ معین الدین حیدر نے اس سزا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا،''ہم انسانی حقوق کمیشن کے رکن ہیں اور اس طرح کی سزا دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔'' تاہم سزا پر عمل درآمد سے قبل ہی آٹھ اکتوبر2001میں جاوید اقبال نے سینٹرل جیل لاہور، کوٹ لکھپت میں اپنے سیل میں بستر کی چادر کو پھندا بنا کر خود کشی کرلی اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے سفاک سیریل کلر کئی راز سینے میں لیے مرگیا۔