کشمیرکی آگ کے شعلے
آج تک وہ کشمیر ہندوستان کے تسلط سے آزاد ہونے کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔
ہندوستان جب آزاد ہورہا تھا تو مہاتما گاندھی، ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح کو اس بات پر قائل کر رہے تھے کہ ہم ہندوستان کو سیکولر اسٹیٹ بنائیں گے جنھیں ہر مذہب و مکتب فکر کے لوگوں کو اپنے اپنے عقیدے کی بنیاد پر مذہبی تہوار، رسومات، تقاریب کی پوری آزادی ہوگی۔
اس لیے بہتر ہے کہ مسلمان اپنی علیحدہ ریاست نہ بنائیں۔ محمد علی جناح بہت دور اندیش رہنما تھے۔ انھوں نے اپنے مصرکے دورے میں یہ بھی بتایا تھا کہ جو بستی فلسطین میں بنائی جا رہی ہے وہ ایک یہودی ریاست ثابت ہوئی۔اس طرح وہ انگریزوں کو یہ قائل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ہندو اورمسلمان دو ایسی قومیں ہیں جن میں کوئی مذہبی ثقافتی کوئی بات مشترک نہیں ہے۔
اس لیے یہ دونوں قومیں اگر ایک ساتھ رہیں گی تو ہمیشہ فساد رہے گا اور اس سے نہ ہندوستان کو سکون ملے گا نہ مسلمانوں کو۔ یہ بات ماؤنٹ بیٹن اور ملکہ برطانیہ نے مان لی اور برصغیر میں جتنی بھی ریاستیں ہیں جہاں ہندو اکثریت ہے وہ بھارت کا حصہ ہوں گی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان کا حصہ ہوں گی۔ اس فیصلے پر ہندوستان کے بہت مسلم اکابرین اور علما خوش نہیں تھے وہ یہ بٹوارہ نہیں چاہتے تھے اس میں مولانا ابو الکلام آزاد اور بہت سے علما جن کا تعلق جمعیت علمائے ہند سے تھا۔
جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا یہ سب گاندھی جی کے نظریے کے حامی تھے، مگر قائد اعظم نے اصولی سیاست کی قید و بند کے بغیر تشدد کے پاکستان کے وجود کو منوا لیا۔ اس وقت کے لاکھوں کروڑوں مسلمان جو ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں رہتے تھے انھوں نے ہندوستان کو ترجیح دی اور پاکستان ہجرت نہ کی مگر لاکھوں مسلمانوں نے مسلم ریاست پاکستان میں اپنا مستقبل محفوظ سمجھا اور نقل مکانی کی اور ہجرت کی خاطر بہت سے خاندان تقسیم ہوگئے۔
جائیدادیں تقسیم ہوئیں اور ہجرت کے سفر میں نہ جانے کتنے مہاجر راستے میں ہی مار دیے گئے یہ سب مسلم ریاست کی محبت میں ہوا۔ جس اصول پر ہندوستان اور پاکستان وجود میں آئے اس کے مطابق حیدرآباد دکن جہاں نظام دکن حکمران تھے وہ مسلمان تھے، مگر اس حیدرآباد کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی، اس لیے وہ ہندوستان کا حصہ بن گیا۔
کشمیر جو ایک علیحدہ ریاست تھی جہاں کا حکمران ہندو تھا مگر وہاں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی اسے اصولی طور پر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا مگر کشمیرکے غیر مسلم حکمران کی مدد سے زبردستی حاصل کی۔ طاقت کی بنیاد پر قبضہ کر لیا گیا اس لیے آج تک وہ مقبوضہ کشمیر ہے۔ 1949ء میں اقوام متحدہ نے اس مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لیے ایک قرارداد پاس کی کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے یعنی ریفرنڈم کے ذریعے وہ کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، آج تک وہ کشمیر ہندوستان کے تسلط سے آزاد ہونے کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔
1989ء سے آج تک 70 ہزارکشمیری بے گناہ مارے گئے سیکڑوں زندہ دفن ہوگئے عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہندوستان جو دنیا کا بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے آج اس نے کشمیریوں کو گھروں میں قید کر دیا۔ انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے، مگر حیرت ہے ہندوستان کے اعتدال پسند ہندو اور سکھ، عیسائی اور 24 کروڑ مسلمان کیوں خاموش بیٹھے ہیں۔
آج 370 کے قانون اور 35A کی شق کو بروئے کار لاتے ہوئے جس طرح کشمیر کو ہندوستان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اس نے پوری دنیا کو ایک کھلا پیغام دیا ہے کہ اب ہندوستان ایک سیکولر ریاست نہیں رہا۔ جب سے بی جے پی آئی 1998ء سے آج تک اس کی تیسری دفعہ حکومت بنی جس کی بنیاد وہاں کے رہنے والے اقلیت چاہے مسلم ہوں یا عیسائی، سکھ ہوں یا ناگالینڈ والے کو کھلا پیغام ہے کہ اب بھارت بھارت نہیں انڈیا نہیں بلکہ ہندوستان ہے صرف ہندو کا حق ہے وہ رہیں۔
باقی سب ان کے رحم و کرم پر رہ سکتے ہیں اس لیے بی جے پی نے فرقہ واریت ہندوازم کا کارڈ کھیلا اور ظاہر ہے ہندوؤں کی اکثریت ہے انھوں نے اعتدال پسندی کو چھوڑ کر اس تعصب کو اپنا لیا۔ ہاں آج بھی ایسے سیکڑوں ہندو ہیں جو بھارت کو سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے نریندرمودی کو ہٹلر اور اس کے نظریے سے جو تشبیہ دی ہے وہ بلاشبہ درست ہے۔ ہندوستان میں انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے کارندوں نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو خوفزدہ کر دیا ہے اور خاص طور پرگجرات میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا وہ بھی دنیا نے دیکھا ہے۔
اگر ہماری سابقہ حکومتیں کشمیر کے مسئلے کو طاق نسیاں پر نہ رکھتیں اور کشمیر کا پروپیگنڈا وہاں کے مظالم اور ستم ظریفیوں کا ذکر اسی طرح جاری رکھتیں جس طرح 2006ء تک جاری تھا تو آج مودی کو یہ فیصلہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی اگر امریکا کے صدر بش ہندوستان کے وزیر اعظم مودی کی ثالثی کی بات جو آف دی ریکارڈ تھی عام نہ کرتے اور جس پر پاکستان کے وزیر اعظم ورلڈ کپ سے تشبیہ دیتے رہے اور سفارتی فتح قرار دیا تو مودی کو وہ قدم جو آیندہ الیکشن سے پہلے اٹھانا تھا وہ گھبراہٹ میں اسی وقت اٹھا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیرکو متنازعہ رکھنے پر ہندوستان کو بہت فائدہ تھا۔
اب اس نے اسے ہندوستان میں ضم کرنے کا اعلان کرکے اپنا آخری تیر پھینک دیا ہے اب اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے اور حالات بتا رہے ہیں جب کبھی بھی کشمیر میں کرفیو ہٹے گا جو آج نہیں توکل ضرور ہٹے گا اس وقت کشمیری عوام کا ردعمل اتنا شدید ہوگا کہ ہندوستان میں علیحدگی پسندوں کو بھی اپنی تحریک چلانی ہوگی ہو سکتا ہے خالصتان اور ناگالینڈ کی تحریک والے کشمیریوں کا ساتھ دینے پر عملی اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
میرا سیاسی تجربہ وتجزیہ کہتا ہے کہ ایران اور چین اور ترکی پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ''اب وقت آگیا ہے اینٹ کا جواب پتھر سے دیں'' اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ '' فوج پوری طرح تیار ہے۔جو قوم کی امیدوں پر پورا اترے گی'' پاکستانی عوام میں بھی کشمیر کی حمایت میں بھرپور جوش و خروش نظر آ رہا ہے۔ بس یہ شعلہ جو کشمیر میں چنگاری سے بھڑکا ہے اس کا احساس اہل دنیا خاص طور پر سپر پاور جتنی جلدی کرلیں تو بہتر ہے ورنہ پورا برصغیرکیا مشرق وسطیٰ تک یہ آگ پھیل سکتی ہے۔