’’نیوزیم‘‘
نیوزیم کو دیکھنے کے بعدخبرکے تاریخی مدارج کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
واشنگٹن میں قیام کے دوران مجھے ایک ایسی جگہ جانے کا بھی موقع ملا جو میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے خصوصی دلچسپی کی حامل ہے۔ میرے میزبان حبیب صاحب نے کہا کہ راؤ صاحب آپ کا تعلق صحافت اور نیوز سے ہے اس لیے آج ہم آپ کو ''نیوزیم'' دکھائیں گے۔
میں نے کہا کیا میوزیم۔ وہ بولے میوزیم نہیں ''نیوزیم''۔ میں نے کہا بھائی میوزیم تو ہوتا ہے یہ نیوزیم کیا ہے؟ وہ بولے امریکا نے نیوز کا ایک میوزیم بنایا ہے۔ میرا اشتیاق بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد ہم واشنگٹن کی Pennsylvania Avenue اور Sixth Street کے سنگم پر واقع ایک عمارت کے سامنے تھے۔ ڈھائی ہزار اسکورئر فٹ پر پھیلی اس عمارت میں نیوز سے متعلق تاریخ کو محفوظ کیا گیا تھا۔
عمارت کے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی استقبالیہ ہال کی سامنے والی دیوار پر دنیا بھر کے اخبارات کے نام انتہائی دلکش انداز میں لکھے ہوے تھے۔ میں چند لمحوں کے لیے رکا دیکھا تو پاکستان کے ممتاز اخبارات کا نام بھی اس دیوار پر چسپاں تھا۔ میوزیم میں نیوز سے متعلق پانچ صدیوں کی تاریخ کا سفر سات گیلریوں میں پیش کیا گیا تھا۔
نیوزیم کو دیکھنے کے بعدخبرکے تاریخی مدارج کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ میوزیم میں مختلف گیلریوں کواس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ میوزیم نیوز کے حوالے سے تعلیمی اور تفریحی دونوں پہلوؤں کو نمایاں طور پر اجاگر کرتا ہے۔ نیوزیم کی پہلی گیلری میںنیوز کے سفر کے آغاز کی کہانی کو بیان کرتے ہوئے ڈاک کے نظام کا سہارا لیا گیا ہے۔ شیر شاہ سوری کے دور کے حوالے سے گھوڑے پر سوار شخص شاہی احکامات لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا ہے۔
گائیڈ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں سب سے پہلے اطلاعات کی ترسیل کا مربوط نظام ہندو ستان کے مسلم حکمران شیرشاہ سوری نے شروع کیا۔ شاہی احکامات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے تیز رفتار گھوڑے ایک پڑائو سے دوسرے پڑائو تک سرپٹ دوڑتے ہوئے جاتے آگے پڑاؤ پر تازہ دم ''گھوڑ سوار'' ڈاک کا تھیلہ لے کر اگلے پڑائو کی جانب روانہ ہو جاتا اس طرح احکامات شاہی جلد از جلد ہندوستان کے طول و عرض میں پہنچ جاتے۔
بریفنگ کے دوران میں سوچتا رہا کہ امریکا کی نوجوان نسل آج جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ذرائع ابلاغ کی ترقی سے منطبق کرتی ہو گی تو یقینا انھیں بتایا جاتا ہو گا کہ خبروں کی ترسیل کے نظام کا باقاعدہ آغاز ایک مسلم حکمران شیر شاہ سوری نے کیا۔ ''خبر کی کہانی'' کی اس گیلری میں خبروں کی ترسیل کے ترقیاتی مراحل کو بتدریج آگے بڑھایا گیا ہے۔
مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے ٹیلی فون کی ایجاد، ریڈیو اور ٹی وی کی ایجاد اور پھر سیٹلائٹ زمانہ دکھایا گیا ہے حتیٰ کہ انسان کا چاند پر پہنچ جانا اور وہاں سے خبروں کی ترسیل کے طریقے کار کو بھی اسی گیلری میں تصویری اور صوتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک اور گیلری میں پرنٹ میڈیا کی ترقی کے مدارج کو ترتیب وار دکھایا گیا ہے پتھروں پر لکھے جانے والے پیغامات، درختوں کی چھال پر تحریر یں اور پھر کاغذ کی ایجاد کا زمانہ اور پھر فیکس کے ذریعے خبروں کی ترسیل تک کا زمانہ آ گیا۔
اسی طرح خبریں لکھنے کے انداز اور کوڈ ورڈ (Code Word)کے ذریعے پیغام رسانی کے مدارج بھی نیوزیم کا حصہ ہیں۔ نیوزیم کو ایک فائونڈیشن چلا رہی ہے جس کا نام Freedum Fourmہے۔ اس غیر سیاسی فورم کا موٹو ہے ۔"Free press, free speech and free sprit for all"اس فائونڈ یشن نے آغاز میں 450ملین ڈالرز نیوزیم پر صرف کیے۔ اس فورم کی معاونت نیوز میڈیا سے منسلک بڑی تعداد میں مخیر حضرات بھی کر رہے ہیں۔ نیوزیم کے لیے دنیا بھر سے نیوز کے شعبے سے متعلق افراد معلومات اور نواردات کی فراہمی میں مددگار کا کام کرتے ہیں، مختلف اہل ثروت افرار نیوزیم کو باقاعدہ مالی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔
جرمنی کو تقسیم کرنیوالی دیوار برلن کا ایک حصہ بھی عوام کی دلچسپی کے لیے میوزیم میں محفوظ ہے۔دیوار برلن کا یہ ٹکٹرا تین ٹن وزنی اور بارہ فٹ بلند ہے۔ ہزارہا مضامین، کارٹون، اخبارات اور رسائل کو بھی نیوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ نوادرات، مخطوطات اور تاریخی نوعیت کے حامل مسودات اور اخبارات کے لیے ایک الگ گیلری بنائی گئی ہے۔ دنیا بھر کے تمام اہم اخبارات کے پہلے صفحوں کو بھی نیوزیم میںمحفوظ کیا گیا ہے۔ قدیم طرز سے لے کر جدید طرز کے ٹیلی ویژن سیٹ کی گیلر ی بھی بڑی دلچسپی کی حامل ہے۔
ایک سیٹلائٹ ٹرک بھی میوزیم میں موجود ہے۔کیمروں سے متعلق گیلری بھی عوام کی توجہ کا خصوصی مرکز ہے۔ دنیا بھر میں عالمی انعام حاصل کرنے والی تصاویر کو بھی نیوزیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ نیوزیم کے ایک حصے میںد نیا بھر کے ممتاز نیوز رپورٹرز کی ڈائریوں اور نوٹ پیڈز کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔نیوز کی پانچ صدیوں کی تاریخ لیے ہوئے یہ میوزیم امریکا میں میڈیا کی تعلیم حاصل کرنیوالوں کے لیے بنیادی تعلیم کا اہم ذریعہ ہے۔ اس میوزیم کو ایک بار دیکھنے کے بعد کوئی بھی فرد خبروں کے تاریخی مدارج سے با آسانی آگاہ ہو جاتا ہے۔
خبر اور میڈیا کی تاریخ جاننے کے لیے درجنوں کتابوں کو پڑھنے سے بھی وہ معلومات حاصل نہیں ہوتیں جتنی کہ اس نیوزیم کو ایک بار دیکھنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔ جو قومیں زندہ رہنا چاہتی ہیں وہ اپنی نسلوں کو تاریخ کا سبق کتابوں کے ساتھ ساتھ میوزیم کے ذریعے بھی دیتی ہیں، کتابوں میں لکھی جانیوالی تحریروں کو با آسانی چیلنج کیا جا سکتا ہے لیکن میوزیم میں موجود نواردات اور حقائق کو جھٹلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
امریکا آج دنیا بھر میں اگر ایک سپر پاور ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کی حکومتوں اور عوام نے دنیا بھر کی تاریخ سے سبق حاصل کر کے اپنے لیے مستقبل کا راستہ چنا ہے۔ نیوزیم کا موٹو ہمیشہ میرے ذہن پر نقش ر ہے گا۔Free press is a corner stone of democracy۔