سرکاری مال مفت کا ہے
دنیا جدید سے جدید تر ہوتی جارہی ہے، لیکن ہم آج بھی پیچدہ اور ضرورت سے زیادہ کاغذات کے استعمال میں لگے ہوئے ہیں
ٹاؤن آفسز میں سرکاری گاڑیاں دھوپ میں کھڑی گل سڑ چکی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
صحافتی ذمے داریوں کی ادائیگی کےلیے ہر روز کسی نہ کسی سرکاری ادارے میں جانا ہوتا ہے اور وہاں موجود سرکاری گاڑیاں، فرنیچرز، مواصلاتی آلات سمیت کئی قیمتی اشیاء کو دھوپ میں سڑتے دیکھ کر دل جلتا ہے۔ اس معاملے میں ہم کسی ایک حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے، بلکہ تمام حکومتی افسران اس میں برابر کے شریک ہیں۔ سندھ حکومت ہو یا لوکل گورنمنٹ، سب کا حال برا ہے۔ لیکن افسران 'سب اچھا ہے' قرار دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جب فنڈز کی بات آتی ہے تو پھر سب برا ہوجاتا ہے۔
گزشتہ روز سندھ سیکریٹریٹ جانا ہوا۔ پٹرول پمپ کے پیچھے دو سرکاری پوٹھوہار جیپ دیکھیں جو کئی عرصے سے کسی کے زیر استعمال نہیں، جسے وہاں دھوپ میں لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح کمشنر ہاؤس میں ایک مرسیڈیز ویگن دھوپ میں کھڑی سڑ رہی ہے۔ ٹاؤن آفسز میں سرکاری گاڑیاں دھوپ میں گل سڑ چکی ہیں۔ تھانوں میں ریکور کی گئی اور چوری کی وارداتوں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں اپنے مالکان کا انتظار کرتے کرتے کباڑ کے لائق بھی نہیں رہیں۔
سندھ گورنمنٹ اور لوکل گورنمنٹ ہر کام میں سب سے پہلے فنڈز کا رونا روتی نظر آتی ہیں، لیکن اپنے مفادات کے سارے کام وقت پر ہورہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہ وقت پر مل رہی ہے، پنشنرز کو پنشن وقت پر مل رہی ہے، افسران کی چائے پانی کے فنڈز وقت پر ریلیز ہورہے ہیں، آفس کے اخراجات جس میں تمام ضروری اور غیرضروری چیزیں شامل ہیں، وقت پر مہیا کی جارہی ہیں۔ لیکن عوام کے مسائل آج بھی جوں کے توں ہی ہیں، اس کےلیے فنڈز مہیا نہیں ہورہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سرکاری افسران کی ضروریات پوری ہورہی ہیں تو پھر عوام کی ضروریات کیوں نہیں پوری کی جاتیں؟ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکس دے رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھوکا سلا کر سرکاری ملازمین کے بچوں کو کھانا کھلارہے ہیں۔ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کا خواب ادھورا چھوڑ کر سرکاری ملازمین کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہے ہیں۔ آخرکیوں؟ کیا یہ عوام کی ذمے داری میں شامل ہے کہ وہ ٹیکس بھی دیں اور سہولیات بھی انہیں نہ ملیں؟
ایک سرکاری ملازم 60 سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوکر آرام کی زندگی گزارتا ہے۔ پیسہ زیادہ ہو تو حج اور عمرے پر بھی نکل جاتا ہے۔ نئے گھر کی تعمیر بھی کراتا ہے اور لان میں بیٹھ کر چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑے اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے بیگم سے یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے ملک کو نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے، کوئی کام ڈھنگ کا نہیں ہورہا، ہر جگہ کرپشن، ہر جگہ بدمعاشی، ہر جگہ نفرت کی آگ لگی ہوئی ہے۔ لیکن وہ سرکاری ملازم یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ جب ڈیوٹی پر تھا تو اس وقت اس نے کیا کردار ادا کیا؟ کبھی اس نے ایمانداری سے اپنی نوکری کی؟ کبھی اس نے عوام کی دادرسی کی؟ نہیں! ایسا اس نے ہرگز نہیں کیا ہوگا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو شاید ملک کے حالات اس نہج پر نہ پہنچ پاتے جو آج ہیں۔
ایک غریب ساری زندگی کماتا ہے اور جب کمر جھک جاتی ہے تب بھی اپنے پیٹ کی خاطر وہ کہیں نہ کہیں برسرروزگار نظر آتا ہے۔ یہ اس کی بدنصیبی ہے کہ وہ سرکاری ملازم نہیں۔ اگر سرکاری ملازم ہوتا تو شاید وہ بھی آج گھر میں بیٹھ کر آرام سے زندگی گزار رہا ہوتا۔ وطن عزیز میں اس حوالے سے کوئی قانون بھی موجود نہیں کہ اسے گھر بیٹھ کر اتنی رقم ادا کی جائے جس سے وہ اپنی زندگی کے آخری دن بہتر طور پر گزار سکے۔ ای او بی آئی پرائیوٹ ملازمین کو پنشن کی سہولت فراہم کرتا ہے، مگر وہ بھی اس شرط پر کہ ملازم کی درخواست ادارے کی طرف سے آئے گی، اور ادارہ ہی اسے اس سسٹم میں داخل کراسکتا ہے۔ لیکن آج کے ادارے اس کا فائدہ اپنے ملازمین کو دینے کو تیار نہیں۔ اس کی وجہ جہاں ٹیکسز کا ڈر ہے، وہیں ملازمین کی جبری برطرفیاں بھی ہیں۔
گورنمنٹ اپنے افسران کو گاڑی، گھر، فیول اور نجانے کیا کیا سہولتیں عوام کے ٹیکس سے دے رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فری کے مال کی کبھی اہمیت نہیں ہوتی۔ اگر یہ گاڑیاں انہیں ان کی ذاتی تنخواہ سے کٹوتی کی بدولت ملتیں تو اسے وہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے۔ لیکن یہ عوام کا مال تھا، جسے تپتی دھوپ میں گلنے سڑنے کےلیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر نئی گاڑی کی درخواست جاتی ہے اور پھر نئی گاڑی کا حشر بھی پہلے والی گاڑی جیسا ہوجاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ کہ ان گلی سڑی گاڑیوں کا فیول ہر ماہ عوام کے ٹیکس سے ادا ہورہا ہے۔ ان گاڑیوں کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا جاتا کہ وہ نیلام کی جائیں اور کسی دوسرے کے استعمال میں آسکیں۔
حکومتیں اپنی عیاشیاں کم کریں تو انہیں دوسرے ذرائع بھی نظر آئیں کہ کہاں سے پیسہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ ایک آسان اور سادہ سا حل صرف ٹیکس ہے، جو ہر وقت آنکھوں کے سامنے گھومتا پھرتا نظر آتا ہے۔ حکومتیں چاہیں تو ایسی گاڑیوں، فرنیچر اور دیگر قیمتی اشیا کی لسٹ تیار کریں، جو ان کے استعمال میں نہیں اور انہیں ایک آسان طریقے سے، جو ہر شخص کی دسترس میں ہو، نیلام کردیں۔ اس سے ایک تو ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور حکومتوں کو اس سلسلے میں ایک بھاری رقم بھی مل جائے گی۔ دھوپ میں سڑنے اور گلنے کےلیے چھوڑنے سے بہتر یہ ایک بہتر حل ہے۔
اس سلسلے میں حکومتیں ایک ایپ تیار کریں اور ہر روز وہاں ایسی چیزیں ڈالی جائیں جو اب ان کے زیر استعمال نہیں رہیں۔ ان اشیا کی فہرست اور اشیا کے سامنے اس کی قیمتیں بھی لکھی جائیں، تاکہ خریدار کو اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی پریشانی بھی نہ ہو۔ رقم وصولی کےلیے بھی اسی ایپ میں سرکاری اکاؤنٹ نمبر دیا جائے، جس سے رقم ڈائریکٹ حکومت کے اکاؤنٹ میں چلی جائے۔ اس سے کسی قسم کی کرپشن کا اندیشہ بھی نہیں رہے گا اور نہ ہی کسی شخص کو سرکاری پیچدہ معاملات میں پڑنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
دنیا جدید سے جدید تر ہوتی جارہی ہے، لیکن ہم آج بھی پیچدہ اور ضرورت سے زیادہ کاغذات کے استعمال میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی فلاں آفیسر کے سائن، تو کبھی فلاں آفیسر کی منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اپنے جائز کام کےلیے لوگوں کو ہزاروں اور لاکھوں روپے رشوت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اگر حکومتیں کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں تو کم سے کم آج کی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں صرف سرکاری اشیا ہی فروخت کےلیے نہ دی جائیں بلکہ اس طرح کی دیگر ایپ بناکر ٹرانسفرز آرڈر، تعیناتی آرڈرز، میرٹ پر بھرتیاں، ٹیسٹ کی سہولت، دکانوں پر لگائے ٹیکس کی وصولی بھی ان ایپس کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ اس میں حکومت کو کوئی پریشانی بھی نہیں ہوگی اور ساتھ ہی بے تحاشا سرکاری امور کی انجام دہی میں اس طرح کی ایپ کا استعمال کرکے جہاں ایک طرف عوامی مشکلات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، وہیں اس سے ملک میں کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا، ساتھ ہی عوام بھی راشی افسران کی بدمعاشیوں سے آزاد ہوسکیں گے۔ فیس ڈائریکٹ سرکاری اکاؤنٹ میں آئیں گی تو اس سے حکومتوں کا رونا بھی بند ہوجائے گا۔
تاہم یہ دیوانے کا ایسا خواب ہے جس کی تعبیر ہزاروں سال بعد بھی کم سے کم پاکستان میں تو ممکن نہیں۔ البتہ مستقبل میں اگر کوئی حقیقی عوامی نمائندہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی سیٹ پر پہنچ گیا تو پھر شاید یہ کام ممکن ہوجائے۔ ورنہ خواب دیکھنے پر پابندی تو نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔