معاشرتی ٹوٹ پھوٹ
عورت ماڈرن ہوگئی اب گھر بھی دیکھتی ہے اور کما کر بھی لاتی ہے مگر اس ماڈرن ہونے میں شاید وہ توازن برقرار نہیں رکھ پاتی۔
کہنے کو تو ہم کچھ بھی کہیں مگر درحقیقت ہمارا معاشرہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جتنا ہم جدید سہولتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، اتنے ہی اپنی روایات اور معاشرتی ذمے داریوں سے دور بھی ہو رہے ہیں کیونکہ علم تو مل رہا ہے مگر تربیت صفر ہوکر رہ گئی ہے۔
جدید علوم تربیت کے ساتھ ہوں تو سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہیں ، اگر ہم پچھلے ادوار میں نظر ڈالیں اور اپنے والدین اور ان کی زندگیوں کو ان کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو ایک رکھ رکھاؤ، ایک دوسرے کی عزت ، مل بانٹ کرکھانا ، صبر وشکر واضح نظر آتا ہے حالانکہ دور اتنا جدید نہیں تھا جتنا آج ہے۔
اور ہم اپنے آج میں عجیب کردار بن گئے ہیں ہم راہ چلتے لوگوں کے ساتھ لوٹ مار کرتے ہیں یہاں تک کہ قتل بھی کر دیتے ہیں، اپنے ہی پڑوس کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں، اپنے گھروں سے کوڑا کرکٹ راستوں میں پھینک دیتے ہیں، حسد، جلن کی چکیاں بن کر رہ گئے ہیں، نہ ایک دوسرے کی عزت ، نہ شرم۔ اپنی آن بان کے چکر میں بڑے بڑے چکر میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ نہ جانے کیوں گھٹیا سوچوں نے ہمارے دل و دماغ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے، چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے بزرگوں کو بھی کبھی ذلت و رسوائی کا سامنا ہے۔
عورت ماڈرن ہوگئی اب گھر بھی دیکھتی ہے اور کما کر بھی لاتی ہے مگر اس ماڈرن ہونے میں شاید وہ توازن برقرار نہیں رکھ پاتی یا اپنے ہی گھر کے مردوں کی طرف سے پریشر کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔ رہی سہی کسر باہر آنے جانے میں معاشرہ پوری کر دیتا ہے۔ مرد بھی ایک مشین بن کر رہ گیا ہے۔ رشتے داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے پریشر میں وہ بھی وہ قدریں قائم نہیں رکھ پا رہا جو شاید اس کے والدین میں تھیں یا اسکو ورثے میں ملی تھیں۔ خوش بختی کم اور بد بختی زیادہ پیچھے لگی ہوئی ہے۔ ایک مکڑی کا جالا اردگرد بنے جا رہا ہے۔
سمجھ نہیں آتا کہ اس معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کو کیسے سنوارا جائیگا، عزت نفس کوکیسے ابھارا جائیگا، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، یہ کس طرح سمجھایا جائیگا ، شاید کسی روز پھر سے کوئی سورج ایسا طلوع ہو جو اپنی روشنی سے ہمارے جسم و جان کو ایسا راشن کردے کہ ساری جہالت کے اندھیرے ختم ہوکر رہ جائیں اور یہ سورج ہم سب کو اپنے آپ میں سے ہی نکالنا ہوگا ، ہم کتنے ہی آزاد خیال سہی، ہم کتنے ہی ہائی فائی طبقے سے سہی ہم سب کو بالکل خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے جانا ہے، رہ جائے گی صرف ہماری اچھائی، ہماری برائی۔ ابھی وقت ہے ہم سب اپنے رویوں پر نظر ڈالیں، اپنے آپ کو سنبھالیں، ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھیں، ایک دوسرے کو حقیر سمجھنا چھوڑ دیں، علم حاصل کریں اور تعلیم و تربیت دونوں پر توجہ کریں۔
قتل و غارتگری، لوٹ مار، حرص و ہوس یہ کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان نہیں ہوسکتی، جہاں ملاوٹ و گندگی کے ڈھیر ہوں وہاں انسانیت نہیں پنپ سکتی، بلندیوں پر جانے کے لیے پستی انسانیت کو سیڑھی نہ بنائیں بلکہ محنت، علم، لگن، حوصلہ اور اللہ پاک پر توکل، آپکے اردگرد آپکی طرح کے انسان ہیں انھیں جانوروں کی طرح نہ ٹریٹ کریں۔ ہمیں یقینا اپنی قدروں کی سمت پلٹنا ہوگا، یورپ اور امریکا کی طرز زندگی کو اپناکر آپ وہ نہیں بن سکتے ہیں، ہاں! انسان کو ہمیشہ اچھا اور اچھا سیکھنا چاہیے۔ وہ ہم اور آپ کہیں سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اولاد ایک نعمت مگر اس کی تربیت سے غافل ہونا عظیم نقصان۔
سنگدلی، بے حسی جس معاشرے کا حصہ بن جائے وہاں سبزہ کیسے اُگے؟ وہاں بارشیں کیوں ہوں؟ وہاں غریبوں میں خوشحالی کیوں ہو؟ معاشرے کے ہر فرد پر جائز ہے کہ وہ اچھائی کو اپنے آپ سے شروع کرے نہ انتظار کرے کہ بھلائی اس کے لیے ہوگی تو وہ بھلائی کریگا۔ ہم سب ایک دوسرے کے لیے کچھ نہ کچھ فائدہ مند ہوسکتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے چھوٹی چھوٹی نیکی کرسکتے ہیں پھر کیوں نہ شروعات کردیں۔ پوری دنیا میں انسانوں کے طرز زندگی میں بڑا فرق آیا ہے وجہ جدید ٹیکنالوجی، آسان سے آسان طرز زندگی اپنایا جارہا ہے، اتنی آسانیوں کے بعد بھی وقت کی قلت کا رونا ہے۔
کم کھانا سنت نبویؐ ہے اور بار بار تلقین کی جاتی ہے کہ کم کھایا جائے تاکہ صحت مند معاشرہ تشکیل پائے مگر یہاں کھانا کھانا ہی سب سے بڑی Hobby بن گئی۔ آدھا کھایا اور آدھا منہ بناکر Dust Bin کی نذرکر دیا۔ مائیں، بیٹیوں اور بہوؤں سے زیادہ فیشن کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں، جھریوں زدہ ہاتھوں پر لال نیل پالش لگا کر خوش ہیں، پیلے گوٹے کے کپڑے پہن کر وہ 20 سال والی لڑکی بن کر گھوم رہی ہیں، پھر گھر میں توازن کیوں آئے؟ارمان سب کے ہیں اور سب کو حق ہے پورا کرنے کا مگر موقع محل بھی دیکھا جائے، عمر کے تقاضے بھی دیکھے جائیں، جب نئی نسل گھر میں ہی توازن نہیں دیکھ پاتی تو وہ بھی الٹی سیدھی پروان چڑھتی ہے اور مناسب کونسلنگ نہ ہونے کی وجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔
ہم سب کو انقلابی اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ تعلیم کا معیار پورے ملک میں ایک ہی ہونا چاہیے۔ نماز اور قرآن کی Proper بنیادی تعلیم و تربیت اسکول ہی سے شروع ہونی چاہیے۔ حقوق و فرائض کے اسباق اسکول کورس میں شامل کیے جائیں، کھیل کود کی تربیت کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کو کتابیں پڑھنے کی رغبت دلائی جائے، ہمارے انبیا اور خلفائے راشدین کی زندگیوں کے سچے واقعات بتائے جائیں ، رسول پاکؐ کی زندگی اور ان کے عالی شان مرتبے کو نصاب کی کتابوں میں پہلی کلاس سے شامل کیا جائے اور 10 جماعتوں تک تعلیم میں ان سب کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ طالبعلم دنیا کی تربیت کے ساتھ ساتھ دین کو بھی پہچان سکے اور اپنی سمجھ کے مطابق اپنی زندگی کو سنوار سکیں۔
آج کا طالبعلم بے تحاشا رقم خرچ ہونے کے باوجود فرسٹریشن کا شکار ہے۔ کتابوں کا بوجھ کاندھوں پر ہے اور علم نہ ہونے کے برابر۔ نہ علامہ اقبال کا پتا نہ شیکسپیئر کا۔ ہم بالکل بھٹک گئے ہیں اور بہت سے بھٹکانے والے معاشرے میں پل رہے ہیں، دولت کی ہوس نے کہیں کا نہیں چھوڑا نہ ملک کے وفادار نہ والدین اور آخر میں اپنے ساتھ بھی وفاداری نہیں کرپائے۔ دھوکہ بازی اور دغا بازی آج کی پیداوار نہیں برسوں پرانا بیج ہے ، مگر اب اس کو جس طرح جدید انداز میں فیشن ایبل بناکر پیش کیا جا رہا ہے وہ مزید اس کو خاص بنا دیتا ہے۔
خلا موجود ہو تو دوسری، تیسری چیزیں اپنی جگہ خود بنا لیتی ہیں، ہم کیونکہ اپنے مرکز سے ہٹ گئے ہیں اور تجربات کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں اس لیے ہم بھی دوسری قوموں کی طرح معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا شدید ترین شکار ہوئے ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں، نوجوان نسل بہت اہمیت کی حامل ہے، ایک بہتر معاشرتی ماحول، بنیادی ضروریات کی فراہمی، صحت اور تعلیم کے حصول کے لیے آسانیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بہتر روزگار اور بہتر کاروبار کرنے کے مواقع، بے انتہا آسان بنیاد پر بینک نئے قرضے کی سہولیات موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے۔
یہ عمر کی خواتین کی سیکیورٹی کے قوانین بنائے جائیں، خواتین کو کام کرنے کے مواقع زیادہ سے زیادہ فراہم ہوں، وہ نہ صرف ایک گھر چلاتی ہیں بلکہ اپنی نسل کو بھی پروان چڑھاتی ہیں، بہت ہی ضروری بات کہ جو قوانین بنائے جائیں انکو قائم کیا جائے عملی طور پر انکو لاگو کیا جائے خاص طور پر خواتین کی وراثت میں حصے داری کو لازمی بنایا جائے۔ گھر کے مردوں کا عورتوں کے حصے پر قبضہ کرلینا بھی انکو کمزور بناتا ہے۔ اگر عورت اپنے گھر سے مضبوط ہوگی تو آگے چل کر بھی مضبوط ہوگی۔
کھیل کود کے میدان، فٹنس سینٹرز، جسمانی مشقت یہ سب ہمارے ماضی کا حصہ رہے ہیں اور انکو چھوڑ کر عورت و مرد نہ صرف جسمانی بیماریوں کا حصہ بن رہے ہیں بلکہ نفسیاتی بیماریاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں، سکون و راحت، تعلیم، صحت ہم سب کو اسی وطن میں ملے کیا ہی اچھی بات ہو کہ ہم اور ہمارا پڑھا لکھا طبقہ دوسرے ممالک میں جانے، بسنے کا نہ سوچیں، ہم سب کو آگے بڑھنا ہے اور دشمنوں کو پیچھے دھکیلنا ہے، اس معاشرے کو اپنے آپ کو، ہماری نسلوں کو ہمیں ہی محفوظ رکھنا ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پھر ہم کہیں بھی محفوظ نہیں۔