خار دار راہ
اے پی سی کے اجلاس میں وزیر اعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات ان کا اپنا فیصلہ تھا۔
ISLAMABAD:
اے پی سی کے اجلاس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس امر کا اعادہ کیا تھا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات ان کا اپنا فیصلہ بھی تھا تاہم یہ بھی اس فیصلے کا حصہ تھا کہ اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلتا تو پھر انگلیاں ٹیڑھی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر صورت میں دہشت گردی سے ملک کو پاک کر دینا چاہتے ہیں جو ایک طویل عرصے سے ملک کا ناسور بن چکی ہے بہت سے وعدوں کے ساتھ یہ بھی ان کے الیکشن سے پہلے کا ایک وعدہ تھا بہرحال دعا ہے کہ وعدہ جلد وفا ہو لیکن جس دہشت گردی کا ٹانکا طالبان سے جوڑا جاتا رہا ہے کیا وہی ایک پکا ٹانکا ہے یا اس کے اردگرد اور بھی بہت کچھ ہے۔
طالبان کے نام سے بٹنے والی بھتے کی پرچیاں اب ملک کے بیشتر شہروں میں درد سر بن گئی ہیں کیا اس امن مذاکرات کے مکمل ہونے کے بعد اس بات کی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کا اختتام بھی ہو جائے اور بھتہ مافیا بھی بیٹھ جائے جو دراصل میرے اور آپ جیسے لوگوں کے لیے پراسرار راز اور قانون کے اداروں کے لیے روزمرہ کی بات بن چکی ہے کیونکہ بار بار راز افشا ہو جانے کی صورت میں راز بھی راز نہیں رہتا لیکن اس پر کسی بھی قسم کا ٹیگ اب تک واضح طور پر نہیں چسپاں کیا جا سکا حالانکہ کئی بھتہ خوروں کو پکڑا بھی جا چکا ہے لیکن تصویر کا اصل رخ تو دراصل صرف موقع پرستوں کے پاس ہے باقی سب صرف حیرت کی تصویر بنے تکتے رہتے ہیں جب کہ طالبان جن سے مذاکرات کے عمل کو امن سے نتھی کیا جا رہا ہے ان کے بارے میں عالمی رائے عامہ کی کیا رائے ہے اس سے قطع نظر بہت سے بیرون ممالک کے پاکستانی بھی واضح طور پر کوئی بھی رائے دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ کہیں یہ دہشت گردی کے حوالے سے ابھر کر آ رہے ہیں تو کہیں بھتہ خور مافیا کے روپ میں یہاں تک کہ اغواء کرکے تاوان وصول کرنے والوں میں یہی نام نظر آتے ہیں تو ایک جانب مذہب سے شدت پسندی کا الزام بھی ان پر لگتا ہے آخر یہ کہانی کیا ہے کیا یہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہیں اور صرف دین کی خاطر جہاد کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو حکیم اللہ محسود اس حوالے سے کیا کچھ کر چکے ہیں اور یہ بھی کہ معصوم مسلمانوں کی جانوں کا ضیاع کیا ان کی کارروائی سے دوغلے پن کا مظاہرہ نہیں کرتا کیوں کہ خدا تعالیٰ نے جہاد اور حقوق العباد کے حوالے سے جو کچھ بھی قرآن پاک میں اتارا ہے اس کی روح سے تو یہ خاصے فاصلے پر نظر آتے ہیں پھر بھی ہم سب طالبان مذہب اور دہشت گردی کی مثلث پر ایک طویل عرصے سے غور کر رہے ہیں اور حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ اب حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتیں ان حالات کو سلجھانے کی خاطر سنجیدگی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہیں اس سلسلے میں یہ بھی اہم ہے کہ اس طرح طالبان کے نام سے دوسری کالعدم تنظیمیں یا مافیا جو کام کر رہے ہیں کم از کم ان کے چہرے واضح ہو جائیں گے اور اس بے ہنگم تشدد کی لہر کو کنٹرول کرنے میں آسانی پیدا ہو سکے گی جس کی سراسیمگی پاکستان سے افغانستان تک ہے۔
برطانوی ہاؤس آف لارڈ کے ممبر لارڈ نذیر احمد نے طالبان کے کردار کو مشکوک قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ طالبان کو بھارت اور اسرائیل سپورٹ کر رہے ہیں اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو پاکستان کی مسجدوں امام بارگاہوں اور حال میں پشاور کے چرچ پر دہشت گردی کی واردات کسی طرح بھی ظاہر نہیں کرتی کہ یہ کام کسی سچے مسلمان کا ہو سکتا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی عمل داری پاکستانی علاقوں پر خاصی نظر آتی ہے جب کہ ایران کے جنداللہ بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں ہیں لیکن حالیہ پشاور چرچ پر دہشت گردی کی واردات پر طالبان کا کسی طرح سے اس حملے کو قبول نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کارروائی میں اس گروپ کا تعلق نہیں ہے لیکن غالباً ان کی جند اللہ کی کارروائیوں پر بھی نظر ہے اور پشاور حملہ ہی ان دونوں گروپوں کے درمیان نفاق کی دیوار تسلیم کر چکا ہے۔ حکیم اللہ محسود نے جند اللہ گروپ کو پاکستانی حدود سے نکل جانے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ محض سنی سنائی ہی ہو لیکن پشاور چرچ کی واردات پر لاعلمی کا اظہار بھی بہت کچھ ظاہر کر رہا ہے لیکن اس سے بھی یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اس قسم کی وارداتوں میں جو بھی ملوث ہے اسے مسلمان اور عیسائیوں کے مذہبی مقامات کے تقدس کی پرواہ نہیں ہے۔
حال ہی میں ایک رکن اسمبلی کے رشتے دار کو افغانستان سے بھتے کی کال موصول ہونے پر انھوں نے خاصا واویلا کیا تھا جب کہ پاکستان میں عام عوام کو بھی اب افغانستان سے اس قسم کی کالز موصول ہو چکی ہیں اور سزا کے طور پر ان کی انتقامانہ کارروائیاں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ کیا طالبان سے مذاکرات کے بعد افغانستان سے بھتے کی کالز کے سلسلے کو روکا جا سکے گا۔
9/11 کے واقعے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ رکا نہیں البتہ معمولی تعطل کے ہوتا ہی رہا ہے اور اب تک بڑے دہشت گردی کے ساٹھ سے زائد واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں سیکڑوں بے گناہ اپنی جان سے گئے۔ اس کے علاوہ لوٹ مار ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی ملک میں اندھیر مچاتا رہا۔
طالبان نے مذاکرات سے پہلے ہی اپنی شرائط حکومت کے سامنے رکھنی شروع کر دی ہیں جس میں پہلی قسط میں طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کے طور پر ادا کر دی ہے۔ دیکھیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شرائط اور کیا کیا رنگ دکھاتی ہیں۔ مذاکرات کے بعد کیا کچھ سامنے آتا ہے۔ یہ قسط ابھی باقی ہے۔ لیکن جس تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت یہ کڑوی گولی نگلنے کو تیار ہے۔ کیا اس کے بعد وہ سرخرو ہو سکے گی۔ کیا طالبان کے نام پر کھیلا جانے والا گیم پلان بند ہو جائے گا یا اس کی کوئی اور صورت سامنے آئے گی۔ دہشت گردی اس وقت پاکستان کے مسائل کی فہرست میں اول درجے پر ہے۔ اس زمرے میں بھی ابھی ڈرون حملوں کا سیاہ باب بھی باقی ہے جس کو اپنے تئیں گورا صاحب نے قانون قرار دے دیا ہے۔ لیکن ان کے اس اندھے قانون کی آگ اور کتنے گھر جلائے گی خدا جانے۔
یہ درست ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت کو بہت مشکل ٹارگٹ درپیش ہیں لیکن اگر ان میں سے کسی بھی ایک مشن میں کامیابی نصیب ہوتی ہے تو یہ اس ملک کی عوام کے لیے یقینا سکون کا باعث ہو گا۔